Topics
’’غور و فکر کے نتیجہ میں
یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ تصوف کی ابتداء حضرت آدم سے ہوئی اور حضرت آدمؑ زمین پر
پہلے صوفی ہیں۔‘‘
ایک مصری محقق ڈاکٹر
مصطفیٰ حلمی نے ‘‘الحسبات الروحیہ فی الاسلام‘‘ میں تصوف کی ابتداء کے بارے میں
لکھا ہے:
’’کہ اسلام میں روحانی
زندگی کا آغاز حضور اکرمﷺ کے زمانے میں ہوا حضورﷺ اور ان کے صحابہ ہر بات اور ہر
عمل کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اللہ ہی کی جانب متوجہ رہتے تھے، ان کا
جینا مرنا سب اللہ کے لئے تھا۔‘‘
اسلام کا پہلا دور سرکار
دو عالمﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام کا دور ہے، سیدنا حضور اکرمﷺ نے اپنے مخصوص
شاگردوں کو باطنی علوم منتقل کئے جن کی طرف بے شمار روایات میں اشارات ملتے ہیں،
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں ارشاد ہے کہ:
’’تم پر ابو بکرؓ کو
فضیلت نماز روزے کی کثرت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس علم کی وجہ سے ہے جو ان کے
سینے میں ہے۔‘‘
حضرت عمر فاروقؓ کے بارے
میں فرمایا:
’’میرے بعد اگر کوئی نبی
ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔‘‘
ہوا اور دریا پر حضرت
عمرؓ کا تصرف اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ روحانی علوم سے آراستہ تھے۔ حضرت علیؓ کے
بارے میں ارشاد ہے کہ:
’’میں علم کا شہر ہوں اور
علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔‘‘
اس میں واضح اشارہ ہے کہ
حضرت علیؓ تصوف یا علوم باطنیہ کا سرچشمہ ہیں، حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ مجھے
نبی اکرمﷺ سے دو قسم کے علوم ملے ہیں، ایک وہ ہے جو میں نے ظاہر کر دیا ہے اور
دوسرا وہ علم ہے جس کو میں ظاہر کر دوں تو تم میری گردن اڑا دو گے۔
’’اللہ وہ ہے جس نے سات
آسمان پیدا فرمائے اور زمین کو بھی انہیں کی مانند۔ نازل ہوتا رہتا ہے امر ان کے
درمیان تا کہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔‘‘
(سورۃ الطلاق۔ ۱۱)
حضرت ابن عباسؓ اس آیت کی
تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ:
’’اگر میں اس آیت میں
موجود حقائق بیان کردوں تو تم مجھے سنگسار کر دو گے اور کہو گے کہ میں کافر ہوں۔‘‘
بلاشبہ حضرت محمدﷺ کے ان
تربیت یافتہ حضرات کے سینے روحانیت اور علم حضوری سے لبریز تھے۔ حضور پاکﷺ کے
صحابہ کی ایک جماعت جو خاص طور پر ’’اولین صوفیہ‘‘ کہلانے کے حق دار ہیں، اصحابہ
صفہ ہیں، انہوں نے رسولﷺ کے عشق و محبت میں دنیا کی ہر شئے کی نفی کر دی تھی، ان
لوگوں کے لئے مسجد نبوی میں ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا۔ یہ محترم حضرات حضور پاکﷺ
کی سرپرستی میں عبادت و ریاضت اور مجاہدہ نفس میں مصروف رہتے تھے، روحانی علم کا
حصول ہی ان کی توجہ کا مرکز تھا، حضور پاکﷺ انہیں سنف فرماتے تھے اور ان کے ساتھ
نشست و برخاست کرتے تھے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور لوگوں کو اصحاب
صفہ کا خیال رکھنے کی ہدایت فرماتے تھے، اصحاب صفہ نے اسلام کا نور پھیلانے کے لئے
مینارہ نور کا کردار ادا کیا۔ اس کی روشنی میں لوگوں کے لئے اللہ کو تلاش کرنا
آسان ہو گیا۔
صحابہ کرامؓ کی صحبت
یافتہ لوگوں نے اپنے لئے تابعین کا نام پسند کیا اور پھر ان کے بعد والوں نے اپنے
لئے اسی مناسبت سے تباع و تابعین کا نام منتخب کیا۔ اس کے بعد جن لوگوں کو دینی
علوم کے ساتھ لگاؤ تھا وہ زاہد اور عابد کے نام سے موسوم ہوئے۔
تباع تابعین کے بعد جن
لوگوں نے تزکیہ نفس سے خود کو حوادث زمانہ اور غفلت سے محفوظ رکھا اور روحانی علوم
حاصل کرنے کی جدوجہد کی وہ صوفی کے نام سے پہچانے گئے، اہل باطن نے تصوف کو جن
الفاظ میں بیان کیا ہے وہ یہ ہیں کہ تصوف ایک حال ہے جو روحانی ادراک سے پیدا ہوتا
ہے اور اس ادراک کا محرک عشق الٰہی ہے، عشق الٰہی کی تجلیات جب روح سے متصل ہوتی
ہیں تو یہ ادراک جسم مثالی میں داخل ہوتا ہے۔ جس طرح پن چبھنے سے درد کی لہر سارے
جسم میں دوڑ جاتی ہے، اسی طرح عشق الٰہی کا سرور روح کے ادراک میں سرائیت کر جاتا
ہے، عشق کا یہ انجذاب نفس انسانی کو جذب و مستی میں ڈبو دیتا ہے یہی جذب و مستی وہ
حال ہے جس میں نگاہ قلب اپنے آپ کو دیکھ لیتی ہے، نگاہ کا ہر درجہ تصوف کا ایک
مقام ہے، بلا شبہ اس کا خارجی ہونا منجاب اللہ ہے۔
صحابہ کرامؓ کی طرز فکر
کو اپنانے والوں کے اندر یہ خوبیاں موجود تھیں اور ہیں کہ ان کے قلوب اللہ تعالیٰ
کے عشق میں سرشار رہتے ہیں، اللہ کا عشق رسول اللہﷺ کی صحبت اور ان کے انوار و
تجلیات کو جذب کرنے سے پیدا ہوتا ہے، حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے:
’’مر جاؤ مرنے سے پہلے۔‘‘
یعنی مرنے کے بعد کی
زندگی سے اس دنیا میں واقفیت حاصل کرو، خلفائے راشدین کے دور میں تصوف کا تذکرہ اس
لئے نہیں ملتا کہ ان کے لطائف حضورﷺ کی قربت میں رنگین تھے، قرن اول تک ان کے لئے
پیغمبر حضرت محمدﷺ کا اسوہ حسنہ مشعل راہ بنا رہا، ان کے شب و روز حضورﷺ کے ساتھ
گزرتے تھے۔ قران ثانی میں مسلمانوں کی دنیاوی و روحانی زندگی میں بے شمار تبدیلیاں
آنا شروع ہو گئیں۔ یہ دور ۶۶۱
عیسوی سے لے کر ۸۵۰
عیسوی تک کا ہے، جس میں خلافت، بادشاہت میں تبدیل ہو گئی۔ عیش و عشرت اور جاہ طلبی
حکمرانوں کا مقصد حیات بن گئی، عوام الناس کو ظلم و ستم کی چکی میں پیسا جانے لگا۔
اس پس منظر میں صوفیہ کی پہلی جماعت کھل کر سامنے آئی۔ بصرہ اور کوفہ جہاں اموی
خلفاء نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی۔ تصوف کے سب سے پہلے مرکز بنے، دنیا طلبی،
عیش و عشرت، تشدد و بربریت، غرور و برتری چونکہ دین اسلام کے بالکل منافی باتیں
تھیں اس لئے اس دور کے صوفیہ کرام توبہ استغفار اور خشیت الٰہی پر بہت زور دیتے
تھے تا کہ ان کے نفوس دنیاوی لذتوں کی بجائے پیغمبرانہ طرز فکر کو اپنا کر اللہ کے
راستہ پر گامزن ہو جائیں، وہ سرکاری ملازمت اور خلیفہ کی صحبت سے اجتناب کرتے تھے
تا کہ حکام کے ناجائز احکامات پر عمل کرنے سے بچے رہیں۔ وہ لوگوں کو بھی امراء و
خلفاء کی محبت سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے تا کہ دنیا میں لوگ وظیفہ اعضاء پورا
کرتے ہوئے اللہ کی جانب راغب رہیں۔ ان قدسی نفوس حضرات نے لوگوں کی انحطاطی روش کو
پہچان لیا تھا کہ رسول اکرمﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں عام لوگوں کی توجہ کا
مرکز اللہ کی ذات اور پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ذات تھی جو ان کے درمیان اللہ کے بتائے
ہوئے اصولوں کا عملی نمونہ بن کر موجود تھے، مگر ان کے بعد لوگوں کی توجہ کا مرکز
اللہ کے بجائے دنیا بن گئی جس کی وجہ سے اس دور کے صوفیاء نے ان تمام چیزوں سے
کنارہ کر لیا جو اس راہ میں مانع تھیں اس طرح ان کا ذہنی اور روحانی رابطہ اللہ
اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ قائم رہا۔
’’جو لوگ ہماری راہ میں
جدوجہد کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔‘‘
(القرآن)
اس ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان قدسی حضرات کو اپنی ذات سے قریب کر کے انہیں
اپنی صفات سے آراستہ کر دیا اور وہ وارثین انبیاء کہلائے ان پر روحانی ادراک
مشاہدات کے ذریعے معرفت الٰہی کے دروازے کھل گئے۔
تاریخ شاہد ہے کہ پانچویں
ہجری سے آٹھویں ہجری تک کا دور تصوف کا بہترین دور ہے، آٹھویں صدی ہجری کے بعد
تصوف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور ان ہی بنیادی اصولوں پر چلتا رہا جو اس سے پہلے
دور میں رائج تھے۔ جب ساری دنیا میں مسلمان پھیل گئے اور غیر مسلموں کے ساتھ جنگوں
کا سلسلہ بڑھ گیا تو تصوف کے علمی ذخیرے کو بہت نقصان پہنچا۔ بغداد جو علوم کا
مرکز تھا تاتاریوں نے اسے آگ لگا دی اور چن چن کر تصوف کی وہ نادر کتب جلا دیں جو
آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بننے والی تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تدریج و تدوین
کا کام رک گیا اور لوگوں کا رجحان تصوف و روحانیت سے ہٹ کر صرف دنیاداری کی طرف ہو
گیا۔ ہم جب گذشتہ پانچ سو سال کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ اس
دور میں نسل انسانی نے فنون لطیفہ میں عروج حاصل کیا اور اس کے ساتھ ساتھ کئی
ایجادات سامنے آتی رہیں، سیر و سیاحت، ذرائع آمد و رفت کے نئے اور آسان ذرائع عمل
میں آ گئے، اس کے علاوہ خبر رسانی میں آسانیاں پیدا ہو گئیں جو شعوری ارتقاء کے
لئے مفید ثابت ہوئیں۔
آدم کا شعور دنیاوی راحت
اور آرام کا متلاشی ہے، شعوری ارتقاء اسی وقت ہوتا ہے جب ایجادات ہوں۔ نت نئی
ایجادات سے لوگوں کی طرز فکر بدلنے لگی، دنیاوی تقاضوں کی تکمیل ہی مقصد حیات بن
گئی، نفس کو ضرورت سے زیادہ دنیاوی آرام اور راحت مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف
رجوع نہیں کرتا، جب اس دور کے صوفیاء نے لوگوں کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہوں کے
درباروں میں بھی جانے سے دریغ نہیں کیا تا کہ لوگوں کو اللہ کی جانب توجہ دلائیں
مگر وہ لوگوں کی طرز فکر تبدیل نہیں کر سکے تو انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی۔
ڈیڑھ سو سال سے سائنس
ترقی پذیر ہے۔ یہ دور عقل انسانی کے لئے عروج کا دور کہلاتا ہے، کل تک جو چیزیں
غیب تھیں آج شعور بن چکی ہیں۔ فاصلے مٹ گئے ہیں اور اس نظام کے ذریعے دور دراز کی
آوازیں سننا اس طرح ممکن ہو گیا ہے جیسے ایک کمرے میں بیٹھ کر لوگ باتیں کرتے ہیں۔
زمین کے اندر اور آسمان کے نیچے کیا ہے؟ یہ دیکھنا ممکن عمل بنا دیا گیا ہے لیکن
اس عروج کے ہوتے ہوئے بھی انسانی ذہن مصیبت میں مبتلا ہے، سکون ختم ہو گیا ہے،
بیماریوں نے اس کو جکڑ لیا ہے۔ ہر شخص بے چین و پریشان ہے، خوف اور عدم تحفظ کے
احساس نے نوع انسانی کو زندہ درگور کر دیا ہے، سرمایہ وارانہ نظام کے ٹھیکیداروں
نے عوام کو اپنا غلام بنا لیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی
عوام کو لقمہ تر سمجھنے کی کوشش کی گئی اور لوگوں کے لئے آزادزندگی کی راہیں مسدود
کر دی گئیں، نظام الٰہی کے تحت قدرت کے نمائندے سامنے آئے اور طاغوتی قوتیں جہنم
واصل ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ رب العالمین نسل انسانی کی بقا چاہتے ہیں اور نسل انسانی
کی بقا کا انحصار توحید پر اجتماع ہے، مادیت کا جب غلبہ ہو گیا اور اللہ کی مخلوق
بے آرام، بے حال، بیمار اور فنا ہونے لگی تو اللہ کی رحمت حرکت میں آئی اور خالق
نے مخلوق کے لئے ایک نجات دہندہ بھیجا جو موجودہ حالات اور تقاضوں کے مطابق لوگوں
کو سکون و آتشی کے راستے پر چلائے اور ظاہری تعلیمات کے ساتھ ساتھ روحانی اور
باطنی علوم سکھائے، اس صدی کے یہ عظیم المرتبت ہستی ابدال حق قلندر بابا اولیاءؒ
ہیں، یہ بات علی الاعلان کہی جا سکتی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری میں تصوف پھر ایک نئے
دور میں داخل ہوا ہے اور اس نئے دور میں تصوف کی راہ پر چلنے والوں کی قیادت حضور
قلندر بابا اولیاءؒ کر رہے ہیں، چودہ سو سال میں بتدریج نشوونما کے بعد آج تصوف اس
دور میں داخل ہو چکا ہے جس دور میں قرآن کے سربستہ رازوں کو کھول کھول کر بیان
کرنا آسان ہو گیا ہے۔
کائناتی فارمولوں سے پردے
اٹھائے جا رہے ہیں اور کائنات کی تخلیق میں کام کرنے والے انتظامی امور کو سمجھنے
کی صلاحیت ابن آدم کے اندر پیدا ہو گئی ہے، گویا آدم کے اندر خلافت و نیابت کا ذہن
متحرک ہو گیا ہے، جب آدم دنیاوی خلافت کے ذہن سے کام کرتا ہے تو ایجادات ظہور میں
آتی ہیں اور جب آدم اللہ کی نیابت کے ذہن سے کام کرتا ہے تو اس کا ذہن کائناتی
فارمولوں اور غیب میں کام کرنے والے عوامل کے اندر کام کرتا ہے۔ انسانی ایجادات کے
سائنسی علوم ہیں اور غیب میں ریسرچ سے قوانین فطرت روحانی اور ماورائی علوم سامنے
آئے ہیں۔
سائنسی علوم اور روحانی
علوم دونوں کا منبع اللہ کا امر ہے اور اللہ کے امر کا نزول روح پر ہو رہا ہے،
انسان اگر قرآن اور آسمانی کتابوں پر غور و فکر کرے تو خود اسے اپنے اندر فطرت کے
تمام نظام موجود نظر آئیں گے اور وہ جان لے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا مظاہرہ دو
رخوں میں ہو رہا ہے۔
ایک رخ میں مادی اور ظاہری
کائنات ہے اور دوسرے رخ میں باطنی کائنات ہے جو انسان کے قلب میں جاری ہے، ظاہر
اور باطن دونوں میں دیکھنے والی آنکھ انسان کی آنکھ ہے اور اس آنکھ کی بینائی اللہ
کا نور ہے۔ یہ نور ہی انسان کے ظاہر اور باطن دونوں مشاہدات کا واسطہ بنتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے