Topics
آدم کی تخلیق سے پہلے
کائنات میں موجود لاکھوں دنیاؤں میں حیوانات میں ممتاز ایک مخلوق ’’جن‘‘ موجود
تھی۔ یہ مخلوق بھی پرت در پرت دو یونٹوں میں آباد تھی، یہ مخلوق آج بھی آباد ہے۔
آدم کی تخلیق میں بھی دو
یونٹوں کا عمل دخل رکھا گیا جو آدم و حوا کے نام سے پہچانا جاتا ہے، جنت سے جب آدم
و حوا زمین پر آئے تو ان سے جو تخلیق عمل میں آئی وہ بھی دو یونٹ کی تخلیق ہے، کہا
جاتا ہے کہ ایک زمانے میں انسانی معاشرے میں حوا یعنی عورت کی حاکمیت بھی قائم رہی
ہے، مادی نظام کا یہ زمانہ لاکھوں سال قائم رہا، بچے کی پیدائش اور اس کی نشوونما
پر غور کیا جائے تو عورت کی بالادستی واضح طور پر سامنے آتی ہے، مادری نظام فطرت
سے قریب ہے اس لئے کہ رحم مادر کی زندگی سے پیدائش تک اور پیدائش کے بعد سن بلوغت
تک سترہ اٹھارہ سال کا زمانہ عورت کی سرپرستی اور حاکمیت کا زمانہ ہے اور یہی وہ
دور ہے جو بچے کی نشوونما کے لئے فطری دور کہا جا سکتا ہے، جب سے یہ دنیا قائم ہے
اور قائم رہے گی ترتیب و تواتر سے مستحکم یہ نظام فطرت غیر شعوری طور پر ارتقاء کے
مراحل میں تبدیل ہوتا رہا ہے اور جب تک زمین آباد ہے تبدیل ہوتا رہے گا۔
بچہ وہی عادات و اطوار
اپناتا ہے جو اسے ماں سے ملتی ہے اور بچہ وہی زبان بولتا ہے جو ماں کی زبان ہے یہی
وجہ ہے کہ دنیا کا ہر دانشور چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں آباد ہو بچے کی زبان
کو مادری زبان کہتا ہے، بحیثیٹ مجموعی انسان کی
زندگی پر غور کیا جائے تو کثرت عمل کے سبب ہمیشہ عورت کی بالادستی نظر آئے گی، غذا کا بندوبست کرنا
آفرینش سے عورت کے ذمہ تھا اور آج بھی ہے، تخلیق میں مرد اور عورت کی ذمہ داری کا
ادراک کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ عورت ایسا شاہکار ہے جو نئے نئے شاہکار تخلیق
کرتی ہے، تاریخ کے مختلف ادوار میں اولاد ماں سے منسوب کی جاتی رہی ہے اور اولاد
کی پہچان اور شناخت ماں سے تھی، ماں سے ہے جو اسے نو ماہ پیٹ میں رکھ کر تخلیقی مراحل
سے گزارتی اور پیدا کرکے اپنے خون سے پرورش کرتی اور تربیت کرتی ہے۔
وراثت ماں کی نسبت سے
متعین کی جاتی ہے، جب نسل آدم بڑھ گئی تو مرد نے زراعت کے ذریعے معاشرتی امور میں
عملاً حصہ لینا شروع کر دیا، مرد نے عورت کے مقابلے میں خود کو احساس کمتری میں
مبتلا پایا، اسی احساس کمتری کی شدت کی وجہ سے افراد میں ربط ضبط بڑھا، احساس
کمتری کے مارے ہوئے اور جنسی لذت کے مغلوب مرد نے مادری نظام پر حملہ کیا اور
اخلاقی قدروں کو توڑ دیا، عوام کی اجتماعی قوت استعمال کر کے حکومت اور بادشاہی
حاصل کر لی، اسی پر بس نہیں ہوئی مادری نظام کو منہدم کر کے عوام کو اپنا غلام بنا
لیا اور اس توسیع پسندی نے احساس برتری کی آخری منزل پر اسے پہنچا دیا اور وہ
دیوتا اور خدا بن بیٹھا، اس نظام میں تبدیلی تین ہزار سال قبل مسیح میں آئی لیکن
یہ عمل صرف عراقی اقوام، سومیری اور آشوری وغیرہ تک محدود رہا۔
پدری نظام میں اتنا زیادہ
فساد برپا ہو گیا کہ وہ کسی طرح بھی فطرت کے مطابق نہیں رہا، جب سے وراثت باپ کی
طرف سے منتقل ہونا شروع ہوئی بھائی بھائی کا دشمن بن گیا، بھائی نے بھائی کو قتل
کر دیا، قید کر دیا اور اس کی آنکھیں اندھی کر کے خود تخت پر بیٹھ گیا، حضرت یوسف
علیہ السلام اور ان کے گیارہ بھائیوں کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔
جب ہم فطرت الٰہیہ پر غور
کرتے ہیں تو اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ عورت ، مرد، جنات اور تمام مخلوق کے مالک
اللہ نے تمام انسانوں کو مساوی حیثیت عطا کی ہے اور نوع انسانی کو مرد و عورت دو
یونٹوں سے منسوب کیا ہے، نبی اکرم بانی اسلامﷺ نے فرمایا کہ:
’’ہم سب آدم و حوا کی
اولاد ہیں اور آدم و حوا کے پتلے مٹی سے بنائے گئے تھے، کسی کو اگر کسی پر فضیلت
ہے تو وہ تقویٰ کی وجہ سے ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت
و مرد دونوں میں مساوات ہے، وہ بیک وقت حاکم بھی ہیں اور محکوم بھی، رہنما بھی ہیں
اور پیروکار بھی، آقا بھی ہیں اور غلام اور کنیز بھی، مرد باپ اور بیٹا دونوں ہے،
ایک طرف عورت ماں ہے اور دوسری طرف بیٹی ہے۔
قرآن کہتا ہے:
’’اللہ نے ہر چیز کو دو
یونٹ سے بنایا ہے اور ہر یونٹ دوہرا ہے۔‘‘
یعنی اللہ نے ہر چیز جوڑے
دوہرے (جوڑے) سے بنائی ہے۔ پدری نظام کے دانشور کہتے ہیں کہ عورت کو مرد کی اداسی
کم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عورت اور مرد دونوں
کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اس سائنسی ترقی یافتہ دور میں ایک فرد بھی اس بات سے
انکار نہیں کر سکتا کہ مرد و عورت کے مادی جسم میں ایک روح کام کر رہی ہے اور اسی
روح کی وجہ سے تمام صلاحیتیں متحرک ہیں، روح کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ
روح ضعیف اور کمزور ہے۔
اللہ تعالیٰ عورتوں اور
مردوں کی صفات بیان کرتے ہوئے سورہ احزاب میں فرماتے ہیں:
’’تحقیق مسلمان مرد اور
مسلمان عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں اور قرآن پڑھنے
والے مرد اور قرآن پڑھنے والیاں اور سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والیاں اور
عاجزی کرنے والے اور عاجزی کرنے والیاں اور خیرات کرنے والے اور خیرات کرنے والیاں
اور روزہ رکھنے والے اور روزہ رکھنے والیاں اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد
اور حفاظت کرنے والیاں اور یاد کرنے والے اللہ کو بہت اور یاد کرنے والیاں، اللہ
ان کو بخش دے گا اور بڑا اجر دے گا۔‘‘
’’اے انسانوں! تم لوگوں
کو اللہ نے ایک مرد و عورت سے پیدا کیا اور تم کو قبیلوں اور خاندانوں میں اس لئے
بنایا تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو یقیناً اللہ کے نزدیک وہ پسندیدہ ہے جو پرہیز
گار ہے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے