Topics
انسان کا کردار اس کی طرز فکر کی تعمیر کرتا ہے۔طرز فکر میں
پیچ ہے تو کردار بھی پیچیدہ بن جاتا ہے۔ طرز فکر سادہ ہے تو بندے کی زندگی میں
سادگی داخل ہو جاتی ہے۔ طرز فکر اگر سطحی ہے تو بندہ سطحی طریقہ پر سوچتاہے۔ طرز
فکر اگر گہری ہے تو بندہ ہر چیز کے اندر گہرائی تلاش کرنے کے لئے تفکر کرتا ہے۔
اللہ کریم نے حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں اسی طرز فکر کی نشاندہی کی ہے۔ ہزاروں
لاکھوں افراد کی موجودگی میں ایک فرد واحد کی سوچ الگ ہے اور اس سوچ میں حقیقت
پسندی اور گہرائی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک
خاص طرز فکر کے لوگوں میں رہتے ہوئے بھی طرز فکر الگ ہو سکتی ہے۔ یہ حقیقت پسندانہ
طرز فکر کہاں سے منتقل ہوئی۔ جبکہ پورے ماحول میں کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کا جواب
یہ ہے کہ حقیقت پسندانہ طرز فکر انسان کے اندر موجود ہے لیکن ہر آدمی اسے استعمال
نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیمؑ سے ان بت پرستوں نے سوال کیا کہ ان خداؤں کو کس نے توڑا؟
حضرت ابراہیمؑ نے جواب دیا اپنے خداؤں سے پوچھ لو۔ لوگوں کے سامنے یہ بات آ گئی
تھی کہ بت اپنی مرضی اور منشاء استعمال نہیں کر سکتے اور انہیں توڑا جا سکتا ہے
لیکن ان کے اندر پھر بھی حقیقت پسندی نے حرکت نہیں کی۔
روحانی راستے کے مسافر کی طرز فکر میں تبدیلی اس طرح واقع ہوتی
ہے کہ روحانی استاد یا پیر و مرشد بتدریج اپنے شاگرد سے اس قسم کی باتیں کرتا ہے
جو اس کے ماحول میں موجود نہیں ہوتیں یا ماحول میں رہنے والے لوگ اس طرف توجہ نہیں
دیتے۔ مرشد کریم مرید کے اندر اس بات کو راسخ کر دیتا ہے کہ وہ چیز مفروضہ ہے اس
کو حقیقت نہیں کہا جا سکتا۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ آدمی خود کو
بااختیار سمجھتا ہے زندگی کے شب و روز میں اس کو کہیں بھی اختیار نہیں ہے۔ پیدا
اپنے اختیار سے نہیں ہوتا، پیدائش کے بعد بالکل غیر اختیاری طور پر بڑھتا ہے۔
جوانی کے بعد نہ چاہنے کے باوجود بوڑھا ہو جاتا ہے۔ دنیا کا ایک فرد واحد بھی یہ
نہیں چاہتا کہ وہ مر جائے لیکن جب وہ پیدا ہوتا ہے تو مرنا ضرور ہے۔ آدمی کو اس
بات پر تو اختیار نہیں ہے کہ وہ ساری زندگی کھانا نہ کھائے یا ساری زندگی پانی نہ
پئے یا ہفتوں مہینوں بیدار رہے۔ یہ تمام باتیں ایسی ہیں جو ہر لمحے آدمی کے ساتھ
چپکی رہتی ہیں۔ لمحات، گھنٹے، دن، مہینے اور سال یہ تغیر ایک ایسا تغیر ہے جسے
کوئی باہوش آدمی انکار نہیں کر سکتا۔ ان تمام تغیرات کی نشاندہی کر کے مرشد کریم
بتاتا ہے کہ اس کے تغیر کے پیچھے یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جس کے
ہاتھ میں اس تغیر و تبدل کی ڈوریاں ہیں اور وہ ہاتھ ان ڈوریوں کو جس طرح حرکت دیتا
ہے زندگی میں تغیر واقع ہوتا ہے۔ سالک جب دن رات ایسے مشاہدات سے گزرتا ہے جن کے
اوپر غیر روحانی آدمیوں نے پردہ ڈالا ہوا ہے تو اس کا ذہن خود بخود اس مطلق ہستی
کی طرف رجوع ہو جاتا ہے جس ہستی نے تغیر و تبدل کی ڈوریاں سنبھالی ہوئی ہیں۔
طرز فکر کا یہی بیج جو مرشد کریم دماغ میں بو دیتا ہے پھر اس
بیج کو پروان چڑھانے کیلئے مرشد کریم مزید کوشش اور جدوجہد کرتا ہے وہ ایسے برگزیدہ
بندوں کو سامنے لاتا ہے جن کی طرز فکر میں حقیقت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے
مثلاً وہ اپنے تصرف سے مرید کو خواب کی ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جس دنیا میں
اولیاء اللہ اور پیغمبروں کی زیارت اسے نصیب ہوتی ہے۔ مسلسل اور متواتر خوابی
مشاہدے کے بعد اس کا رخ اولیاء اللہ اور پیغمبروں کی طرف مڑ جاتا ہے اور اس کی طرز
فکر پر ایسا رنگ چڑھ جاتا ہے جو رنگ اولیاء اللہ اور پیغمبروں کے لئے مخصوص ہے۔
اس کی باطنی آنکھ پر مرشد کریم ایسا عینک لگا دیتا ہے کہ عینک
کے اندر لگے ہوئے شیشے اس کو وہی کچھ دکھاتے ہیں جو مرشد کریم کی طرز فکر ہے مثلاً
عینک کے اندر جس رنگ کے گلاس لگے ہوتے ہیں۔ آدمی کو وہی رنگ نظر آتا ہے۔ عینک کے
گلاس اگر نیلے ہیں تو ہر چیز نیلی نظر آتی ہے۔ گلاس اگر سرخ ہیں تو ہر چیز سرخ نظر آتی ہے۔ گلاس اگر شفاف ہیں
تو ہر چیز اسے صاف اور واضح نظر آتی ہے۔ عینک کے شیشے اگر دھندلے ہیں تو ہر چیز
اسے دھندلی نظر آتی ہے۔ اگر عینک کے شیشے اندھے ہیں تو عینک کے شیشے آنکھ پر لانے
کے باوجود آنکھ اندھی رہتی ہے کچھ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ عینک لگنے کے بعد آنکھ
کھلی رہتی ہے۔ رنگ دراصل طرز فکر ہیں عینک کے اندر جس قسم کی طرز فکر کا گلاس فٹ
کر دیا جاتا ہے وہی طرز فکر کام کرتی ہے۔ عینک کے اندر شیشہ اتنا صاف شفاف ہوتا ہے
کہ آدمی میلوں دور کی چیزیں دیکھ سکتا ہے اس کے برعکس عینک میں لگا ہوا گلاس اتنا
اندھا بھی ہوتا ہے کہ عینک لگانے کے بعد آدمی کو اتنا بھی نظر نہیں آتا جتنا کہ
عینک لگائے بغیر نظر آتا ہے۔ دیکھنا، چیزوں کی ماہیت معلوم کرنا، تفکر کرنا ہر
آدمی کے اندر موجود ہے بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں ان صلاحیتوں کا استعمال نہیں آتا۔
مرشد چونکہ تفکر کی صلاحیتوں کے استعمال کو جانتا ہے اور اس کی زندگی تفکر سے
تعمیر ہوئی ہے اس لئے مرید کے اندر جب مرشد کی صلاحیت منتقل ہوتی ہے تو تفکر کا
بویا ہوا بیج آہستہ آہستہ تناور درخت بن جاتا ہے اس بیج کو تناور درخت بننے میں جو
چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ آدمی کا اپنا ذاتی ارادہ اور عقل ہے۔ کوئی بندہ جب اپنی ذات
کو سامنے لے آتا ہے اور عقل کو وہ سب کچھ سمجھ لیتا ہے تو اسے کامیابی نہیں ہوتی۔
اس لئے کہ اس کے اندر جو شعور کام کرتا ہے اس کا تعلق اس طرز فکر سے ہے جس طرز فکر
میں گہرائی اور حقیقت پسندی نہیں ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے