Topics

حیات و موت

دن ماہ وسال پر محیط جس زمانی وقفے کو زندگی کا نام دیا جاتا ہے اس کا تعلق دراصل مادی مظاہر سے ہے جب یہ مادی وسائل مفقود ہو جاتے ہیں اور ہنستا بولتا، چلتا پھرتا گوشت پوست کا پتلا ساکت و بے حس ہو جاتا ہے اور زندگی کے آثار ختم ہو جاتے ہیں تو ہم اسے مردہ قرار دے دیتے ہیں حالانکہ اس مردہ جسم میں ہر عضو موجود ہے جو مرنے سے پہلے جسم میں موجود تھا۔ دل، دماغ، پھیپھڑے، گردے، خون ہونے کے باوجود جسم میں حرکت باقی نہیں رہتی۔ اس حقیقت کے پیش نظر یہ ماننا پڑے گا کہ جسم میں ضرور کوئی تبدیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے جسم کے تقاضے ختم ہو گئے ہیں۔

مذہب بتاتا ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں حساب و کتاب ہو گا جب کہ قبر کے اندر جسم مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو کر مٹی بن جاتا ہے، مرنے کے بعد جس انسان سے احتساب ہو گا وہ یہ مادی جسم نہیں ہے بلکہ روشنیوں کا ایک اور وجود ہے جو ہمارے جسم کے اوپر روشنیوں کے ہالے کی صورت میں رہتا ہے مرنے کے بعد یہی جسم ہمارے کرہ ارضی میں زمین سے اوپر ایک زون (ZONE) میں چلا جاتا ہے، یہ روشنی کا جسم وہاں معینہ مدت تک زندگی گزارتا ہے اس زون کے تقاضے بھی ہمارے مادی جسم کے تقاضوں کی طرح ہیں۔

قرآن پاک میں جہاں اس مقام’’ زون ‘‘ کا ذکر آیا ہے وہاں وہ مقام ’’بلندی اور پستی‘‘ کا ذکر بھی ملتا ہے ان دو مقامات کا ہماری مادی زندگی سے بھی گہرا تعلق ہے، مذہب ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی اگر مذہبی اصولوں کے تحت گزاری جائے تو انسان اس کے اعلیٰ مقام میں رہتا ہے اور اگر مذہبی اصولوں سے روگردانی کی جائے تو انسان اسفل اور پست مقام پر زندگی گزارتا ہے۔

اعلیٰ مقام پر رہنے والے لوگ خوش رہتے ہیں انہیں کسی قسم کا خوف اور غم لاحق نہیں ہوتا جبکہ پست مقام پر رہنے والے لوگوں میں خوف، دہشت، بے یقینی اور اضطراب مسلط رہتا ہے، وہ پریشانی سے نجات حاصل کرنا بھی چاہیں تو نجات نہیں پاتے۔

ہر انسان کی یہ فطری مجبوری ہے کہ وہ کسی نہ کسی عقیدے پر اپنے مستقبل کی تعمیر کرتا ہے اس لئے کہ حالات اسے بتاتے ہیں کہ وہ حالات کے ہاتھ میں چابی دار ایک کھلونا ہے، حالات چابی بھر دیتے ہیں تو کھلونا چلتا ہے، دوڑتا ہے، آوازیں نکالتا ہے چابی ختم ہو جاتی ہے تو کھلونے میں کوئی حرکت نہیں رہتی۔ حالات کیا ہیں؟ چابی کہاں سے بھری جا رہی ہے؟ اس کے بارے میں انسان کوئی علم نہیں رکھتا یہ لاعلمی اسے ان دیکھی طاقت کی طرف متوجہ کرتی ہے، ان دیکھی طاقت کے اوپر اس کا یقین اتنا ہی ہوتا ہے جیسے چشم دید چیزوں کے بارے میں ہوتا ہے، مذہب نے اس ان دیکھی طاقت کا خدا کے نام سے تعارف کرایا ہے، جو لوگ مذہب بیزار ہیں وہ بھی نادیدہ طاقت کو ماننے پر مجبور ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اس کا نام خدا کے بجائے نیچر یا کوئی اور نام رکھ لیتے ہیں۔

میرے پاس ایک صاحب تشریف لائے تعارف کرایا کہ:

’’میں خدا کو نہیں مانتا، سب کچھ میں خود ہوں، دنیا میرے سامنے بازیچہ اطفال ہے۔‘‘

میں نے پوچھا:

’’اجی جناب! یہ تو بتایئے کہ یہ دنیا آخر کیسے بن گئی؟‘‘

انہوں نے وہی گھسی پٹی تھیوری بیان کر دی:

’’زمین ایک کرّہ ہے، خلاء میں آتش فشاں پھٹا تو لاوا بہہ نکلا اور لاوے سے دنیا بن گئی وغیرہ وغیرہ۔‘‘

میں نے عرض کیا:

جناب! یہ سب صحیح مان لیا جائے تب بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ دنیا میں توازن ہے، سورج اور چاند کے لئے منزلیں متعین ہیں، کائنات میں ہر موجود شئے کی ایک ڈیوٹی ہے اورہر موجود شئے نے اپنی ڈیوٹی سے کبھی انحراف نہیں کیا، آخر یہ سب موجودات جب کسی نظام کے تحت سرگرم عمل ہیں تو کسی نہ کسی کے ہاتھ میں تو اس کی باگ دوڑ ہو گئی۔

بولے:
’’ہاں یہ نیچر کا کام ہے، نیچر سب کو سنبھالے ہوئے ہے، نیچر جانتی ہے کہ کائناتی نظام کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔‘‘

میں نے سوال کیا:

’’جناب! مسلمان نیچر کو خدا، ہندوبھگوان، پارسی تیروان، یہودی ایلیا، انگریز گاڈ کہتے ہیں آپ نے خدا نہیں کہا نیچر کہہ دیا یہ خود کو دھوکہ دینے والی بات نہیں ہو گی؟‘‘

آدمی ہوشیار تھا کچھ دیر خاموش رہا پھر گفتگو کا رخ بدل کر گویا ہوئے:

’’اگر آپ کی بات مان لی جائے کہ خدا موجود ہے تو خدا نظر کیوں نہیں آتا؟‘‘

میں نے مودبانہ عرض کیا:

’’جناب! آپ خود کو جانتے ہیں؟‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے پھر زوردار قہقہہ لگایا اور ہنستے ہوئے بولے:

’’کیا اچھا سوال ہے۔ کیا تم خود کو جانتے ہو؟ میرے بھائی، میرے بزرگ، کون ہے جو خود کو نہیں جانتا؟‘‘

میں نے ان کی بات سن کر کہا:

’’کیا تم خود کو جانتے ہو تو کیا تم اس خون کو دیکھ رہے ہو جو تمہاری رگوں میں دوڑ رہا ہے؟ تمہارے اندر ایک کائنات آباد ہے کیا تم نے کبھی اس کا مشاہدہ کیا ہے؟‘‘

میں نے ان سے پوچھا کہ:

’’تم زندگی کی کسی بھی اسٹیج پر بوڑھا ہونا پسند کرتے ہو؟ کیا تم اس رنگ و نور کی دنیا سے کلیتاً آزاد ہونا چاہتے ہو؟ کیا زندگی کے کسی بھی دور میں پریشان حال، مصیبت زدہ رہنا چاہتے ہو؟‘‘

سامنے بیٹھے ہوئے صاحب نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے میں زندگی سے منحرف کوئی مایوس آدمی ہوں، جس کی زندگی میں امید کی کوئی رمق باقی نہیں رہ گئی، گلا صاف کر کے اور تھوڑا سا مسکرا کر کہنے لگے:

اگر دنیا میں عروج و زوال، ٹوٹ پھوٹ، نشوونما اور فنا و بقا نہ ہو تو پھر یہ دنیا نہیں رہے گی۔

میں نے کہا:

’’میرے دوست! بات یہ نہیں کہ دنیا فنا و بقا کا ایک کھیل ہے یا شکست و ریخت سے ہی نئے نئے شگوفے پھوٹ رہے ہیں، میں نے آپ سے یہ پوچھا ہے کہ کیا آپ مرنا چاہتے ہیں؟ اور جب آپ مرنا نہیں چاہتے تو کیوں مر جاتے ہیں؟ آپ خود کو بڑھاپے کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے لیکن آپ کے سیاہ خوبصورت بال چاندی کے تاروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔‘‘

میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ایک مجلس میں فرمایا:

زمانہ گزرا ایک آدم زاد اتنی بڑی عمر کو پہنچ گیا کہ اس کا دنیا میں کوئی بھی نہیں رہا، گزر بسر کے لئے جنگل سے لکڑیاں توڑ کر فروخت کرتے تھے، ایک روز لکڑیاں زیادہ جمع کر کے گٹھڑ تو باندھ لیا لیکن اٹھاتے وقت ہاتھوں میں لرزہ آ گیا، خون پانی بن کر آنکھوں سے بہہ نکلا بڑی ہی حسرت سے آہ بھری اور بولے:

’’مجھ سے تو ملک الموت بھی روٹھ گیا ہے اس کو بھی میرے حال پر رحم نہیں آتا، میں اب کیوں زندہ ہوں، میرے سب مر کھپ گئے، مجھے موت کیوں نہیں آتی؟‘‘

ابھی لمحہ کا کچھ حصہ ہی گزرا تھا کہ ایک خوبصورت نوجوان سیدھی طرف آ کر کھڑا ہو گیا سلام کیا اور پوچھا:

’’بزرگو! میں آپ کی کیا خدمت کروں؟‘‘

بزرگ نے پوچھا:

’’تم کون ہو؟‘‘

نوجوان نے کہا:

’’میں ملک الموت ہوں، ابھی آپ نے یاد کیا تھا حاضر ہو گیا ہوں۔‘‘

بزرگ فوراً بولے:

’’لکڑی کا یہ گٹھڑا اٹھا کے میرے سر پر رکھ دے۔‘‘

سامنے بیٹھے ہوئے یہ صاحب جن کا میں ذکر کر رہا ہوں ایک پروفیسر ہیں جو کمیونسٹ نظریہ پر عقیدہ رکھتے ہیں اور پکے اتنے ہیں کہ کمیونزم کے ستر(۷۰) سالہ عمارت کے ڈھیر ہو جانے کے باوجود بھی اپنے نظریہ عقیدت پر قائم ہیں، میں نے پروفیسر صاحب سے کہا:

’’میرے محترم دوست! جس طرح آج کا دور پریشانی اور بے چینی کا دور ہے، اسی طرح پانچ ہزار سال پہلے بھی پریشانی اپنے عروج پر تھی، دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ڈرامہ پوری دنیا توانائی کے ساتھ دیکھ رہی تھی، علم کی نشر و اشاعت عام تھی مگر عوام کو صرف وعدہ فروا سے دھوکہ دیا جا رہا تھا ایک گروہ نے اپنے مقصد مطلب تاویلات کو مذہب سمجھ لیا تھا، منافقت ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا، عوام چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے، کوڑیوں کا ڈھیر ان کا مقدر بنا دیا گیا تھا، ایک گھر میں سینکڑوں قمقمے روشن ہوتے تھے تو دوسرے گھر میں اندھیرا تھا، مذہب کی اجارہ داری جب شیطان صفت لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی اور عوام کو مذہب کے نام پر عزت نفس سے محروم کر دیا گیا تو قانون قدرت نے کروٹ بدلی فراعین کے گروہ نیست و نابود کرنے کے لئے ایک موسیٰ ؑ پیدا ہوا اور عصائے موسیٰ ؑ نے خود کو اژدھے کے روپ میں بدل کر فراعین کے تمام بت کدوں کو نگل لیا۔ اب پھر وہ گھڑی آ گئی ہے کہ مذہب سے کھیلنے والے گروہوں کو عصائے موسیٰ ؑ نگل لے گا اور دنیا پھر سکھ اور چین کا سانس لے گی۔‘‘

میری تقریر دل پذیر پروفیسر نے غور سے سنی اور کہا!

’’سچ ہے تاریخ خود کو دہراتی ہے، جو آج ہے وہ کل ہو گا اور جو کل ہو چکا ہے وہ آج ہو رہا ہے، آج اور کل لمحات گزرنے کا ایک عمل ہے، لمحات کاگزر جانا ماضی ہے، ساری کائنات لمحات کی فلم ہے جو اربوں سال پہلے بن چکی ہے، مگر ہر زمانہ میں ایک ہی کردار کے مختلف ناموں سے زمین کی اسکرین پر ڈسپلے ہو رہی ہے۔‘‘

 


Sada E Jars

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اُس

گونج

کے نام جو

صدائے جرس

کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے