Topics

روپ بہروپ

آدم کو جب اللہ نے بنایا تو اس طرح بنایا کہ آدم اندر زیادہ دیکھتا تھا اور باہر کم۔ باہر دیکھتا تھا تو باغوں و طیور، نہریں، آبشاریں، بلبل کا ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکنا، کوئل کی کوک، کبوتر کی غٹرغوں، چڑیوں کی چمک، فاختہ کی کوکو سنتا تھا۔ رنگ رنگ پھولوں کا مستی بھرا شباب، جوانی کی خوشبو اور خوشبو کی مہک سے مشام جاں عطر بیز محسوس کرتا تھا۔ آدم ایک بے خود کر دینے والی کیفیت میں گم ہو جاتا تھا۔ خوبصورت روشیں، راہ گزر پر قطار در قطار ہوا میں جھومتے پھول، سروقد درخت، چھتری چھتری پیڑ نظر آتے تھے۔ ان سب میں دل لگانے کے باوجود آدم کے اندر ایک ٹیس ابھرتی تھی۔ کلیجہ منہ کو آتا تھا، گھٹن آنکھوں سے ٹپکتی تھی کہ آدم کا ہم جنس کوئی نہیں تھا۔ ہم جنس کو تلاش کرتے کرتے جب وہ تھک گیا اندر سے ٹوٹ گیا، بکھر گیا تو آدم کو بکھرے ہوئے ذرات میں اپنی ہم جنس کا عکس دکھائی دیا۔ تصویر کا غلاف آنکھوں، چاند، چہرا، غنچہ دہن، تبسم تبسم ہونٹ، صراحی گردن، سیمیں بدن، غلافی آنکھیں، مقناطیسی کمر، معطر سراپا، قدرت کا شاہکار تصویر کو دیکھا تو آدم اس پر فریفتہ ہو گیا۔ جب اسے اپنے اندر اپنی ہی تصویر کا دوسرا رخ نظر آیا تو تصویر پر اس کا ذہن مرکوز ہو گیا۔ ذہن میں مرکزیت آئی تو ارادہ پیدا ہوا۔ ارادے میں حرکت ہوئی تو اندر موجود اس تصویر نے پلک جھپکی، پلکوں کا جھپکنا تھا کہ آدم کے دل میں پہلے سے موجود روشن نقطہ کھل گیا۔ روشنی اور نور کا ایک ساتھ جھماکہ ہوا اور آدم کے اندر سے تصویر باہر آ گئی۔ آدم ایک قدم آگے بڑھا تو تصویر دو قدم آدم کی طرف آئی۔ دونوں کا باہم اتصال ہوا اور آدم وحوا ایک دوسرے میں جذب ہو گئے۔ آدم نے جذب ہونے کے لئے خود کو حوا کے سپرد کر دیا اور حوانےآدم کو اس کی پوری صلاحیتوں اور توانائی کے ساتھ اپنے اندر سمیٹ لیا۔ یہ جذب ہونا اور سمٹ کر دونوں کا ایک ہو جانا فطرت کو پسند آیا۔ فطرت نے انگڑائی لی، فطرت کو یوں بے تاب دیکھ کر اس کی داد رسی کے لئے جبلت نے اپنا چولا اتار پھینکا، فطرت اور جبلت آپس میں یک جان دو قالب بن گئیں۔ آدم اور حوا فطرت اور جبلت کے سنجوگ کو دیکھ کر کائنات سرشاری میں نیچے اتر آئی اور اس طرح نزول و صعود شروع ہو گیا۔ کائناتی قانون یہ بنا کہ جب دو صورتیں ایک دوسرے میں جذب ہونگی تو تیسری تخلیق عمل میں آ جائے گی۔ قانون کی عمل داری کے بعد ایک تصویر سے دوسری تصویر اور دو تصویروں کے ملاپ سے تیسرا وجود عالم مظاہر میں آنے لگا۔ آدم کے بیٹوں حوا کی بیٹیوں سے زمین اور بستیاں آباد ہو گئیں اور بستیاں شہر بن گئیں۔

ایک شہر میں ایک باپ اور اس کے چار بیٹے رہتے تھے۔ باپ نے چاروں بیٹوں کی تربیت اس طرح کی تھی کہ چاروں بیٹے ایک ہی جان کے الگ الگ حصے تھے۔ سب میں ایثار تھا، سب میں محبت تھی اور سب ایک دوسرے کے کام آتے تھے۔ سب میں ایک ہی ماں کا خون دوڑ رہا تھا۔ مامتا ایک تھی مامتا کے مظاہر چار تھے۔ چاروں گبرو جوان نکلے، چاروں جب زمین پر چلتے تو زمین اپنے وجود کو اور زیادہ پھیلا لیتی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ زمین ہی سب سے بڑی ماں ہے جب بچوں نے زمین کی کوکھ کر کریدا تو ان کے لئے خود کو لہلہاتے کھیت اور کھلیانوں میں تبدیل کر دیا۔

چار بیٹے جب اپنے اندر آگ کی تپش سے جھلسنے لگے تو انہوں نے اپنے باپ آدم کے سبق کو دہرایا۔ بالآخر یہ چاروں بیٹے آدم و حوا کے روپ میں بہروپ بن گئے۔ وہ آدم اپنی حواؤں کو لے کر الگ ہو گئے۔ دوبھائی الگ نہیں ہوئے، بڑے بھائی نے سوچا کہ چھوٹا بھائی ابھی کمزور ہے۔ میرے اوپر فرض ہے کہ میں اس کی مدد کروں، بڑے بھائی نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزانہ گیہوں کی کوٹھی میں سے اتنا گندم نکال لیتا تھا کہ جتنا روز کا خرچ تھا۔ چھوٹے بھائی نے سوچا کہ میں چھوٹا ہوں، بڑے بھائی کے اعصاب پر انحطاط آ گیا ہے، چھوٹا بھائی ہونے کے ناطے میرا فرض ہے کہ بھائی کی خدمت کروں۔ اس نے بھی یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزانہ کا خرچ اپنے گیہوں کی کوٹھی سے بھائی کی کوٹھی میں ڈالنا شروع کر دیا۔

ایک سال گزرا دو سال گزرے، تین سال گزر گئے۔ گھر خوشحال اور سکون کا گہوارہ تھا۔چوتھا سال آیا، بڑے بھائی کی جورو نے یہ کام کیا کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی کوٹھی میں جتنا گندم ڈالتا تھا وہ اس سے دگنا نکال لیتی تھی۔ چھوٹے بھائی کی بیوی نے سوچا کہ میرے شوہر کی کمائی بڑے بھائی کو جا رہی ہے اس نے یہ کام کیا کہ اگر چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی کوٹھی میں ایک کلو گندم ڈالتا تو وہ چار کلو گندم نکال لیتی۔ ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ دونوں بھائی کنگال ہو گئے۔





Sada E Jars

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اُس

گونج

کے نام جو

صدائے جرس

کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے