Topics
آدمی چل رہا ہے۔ زمین چکر میں ہے۔ آسمان حرکت میں ہے۔ آسمان حرکت میں ہے تو چاند،
سورج، ستارے اور کہکشاں بھی متحرک ہیں۔ زمین میں پانی اندر باہر اوپر نیچے نشیب
میں بہہ رہا ہے۔ پانی جس کی فطرت نشیب میں بہنا ہے، درختوں میں ایک خاص پروسیس سے
بظاہر اپنی فطرت تبدیل کر کے اوپر جا رہا ہے نہ صرف اوپر جا رہا ہے بلکہ نئے نئے
روپ میں جلوہ گر ہو رہا ہے۔ پانی جس کو آسمانی کتابوں نے ’’ماء‘‘ کہا ہے۔ ہر ڈائی
میں خدوخال کے ساتھ مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔
پانی رب ذوالجلال کا عطیہ
ہے۔ سمندر کا پانی کڑوا ہے تو کنویں کا پانی میٹھا ہے، دریا کا پانی مٹیالا ہے تو
چشموں کا پانی موتی کی طرح شفاف اور چمکدار ہے۔ پانی کائنات کے ہر یونٹ کے لئے
حیات ہے۔ شریانوں، وریدوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے۔ آدمی جو تناول کرتا ہے، شیر
جو کھاتا ہے۔ چڑیا جو چگتی ہے۔ مچھلی جو پیتی ہے۔ سب میں تین حصے پانی ہے۔ پانی
نطفہ ہے۔ پانی علق ہے۔ پانی مضغہ ہے۔ پانی لوتھڑا ہے۔ پانی عضو کی تشکیل ہے اور
پانی جسم ہے۔ پانی زندگی ہے اور پانی سے قطع تعلق موت ہے۔
دسترخوان پر ایک باپ، تین
بیٹے، ایک بیٹی کھانا کھا رہے تھے۔ انواع و اقسام کے کھانے دسترخوان پر چنے ہوئے
تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے باپ کو اُچھَّو لگا۔ روٹی کا ٹکڑا حلق میں پھنس گیا۔
آنکھیں ابل پڑیں۔ چہرہ لال ہو گیا۔ بیٹی دوڑی اور گلاس بھر لائی۔ پانی حلق میں
انڈیلا۔ جان میں جان آئی۔ کھانے کی طرف سے ذہن ہٹ کر روٹی کے ٹکڑے میں اٹک گیا۔
ایک وقت تھا جب آدم نہیں تھا۔ لیکن روٹی تھی۔ حوا روٹی پکانا نہیں جانتی تھی۔ تب
بھی روٹی تھی۔ آدم و حوا برسوں کی مسافت کے بعد ملے تو ایک سے دو ہوئے اور دو، دو
میں جمع ہوئے تو ضرب کا فارمولا وجود میں آیا۔
ضرب در ضرب، حاصل ضرب سے
آدم و حوا کے جھونپڑے کم ہو گئے تو تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ تعمیرات سے ارتقائی
مراحل سامنے آیا۔ حیوانات و آدم میں فرق وضع ہونے لگا۔ آدم کے بچوں نے گھاس پھونس
چھوڑ دیا اور جڑیں کھانے سے انکار کر دیا۔ صورت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ ابا
آدم اور اماں حوا سر جوڑ کر بیٹھے۔ طے پایا کہ گندم کاشت کی جائے۔ زمین کے چھوٹے
چھوٹے حصے کر کے کھیت بنائے۔ زمین کرید کر آسمان سے اترا ہوا دانہ گندم زمین میں
ڈال دیا گیا۔ گندم کو پیسنے کے لئے پتھروں کی چکی ایجاد ہوئی۔ گندم کے دانے نے
کہانی سنائی۔ دنیا کا جب ظہور ہوا، گندم کو زمین پر پھینک دیا گیا۔ وہ تنہا تھا
کوئی ہم نشین و غم گسار نہیں تھا۔ زمین جو سب کی ماں ہے اس نے اپنے ایک لخت جگر کی
آہ و زاری سنی تو مما کے جوش سے باوا گندم کے لئے اپنی آغوش وا کر دی۔ ماں کی گود
کے لمس سے باوا گندم کو قرار آیا۔ سکون ملا۔ راحت سے آشنا ہوئے سکون کی لہروں میں
جب زمین کے اندر دوڑنے والی رنگ رنگ لہریں ملیں اور ایک دوسرے میں پیوست ہوئیں تو
باوا گندم کی نسل چل پڑی۔ ادھر گندم کی نسل پروان چڑھی ادھر باوا آدم کی اولاد
دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ آدم کی نسل نے اپنی خوراک کے لئے گندم کا انتخاب کر کے
دراصل گندم کی خدمت گزاری میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ آدم کی طرح میرے آباؤ
اجداد گندم کا بھی خاندان ہے۔ اس خاندان میں ناٹے قد اور دراز قد ہوتے ہیں۔ میرے
خاندان کا وصف یہ ہے کہ ہم سب گندم خاندان کے فرد آدم کی بہتر سے بہتر خدمت کے لئے
اپنی صلاحیتوں کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ہماری ایک صلاحیت یہ بھی ہے کہ ہمارے
اندر خود سپردگی کا عنصر موجود ہے۔ روٹی کو آپ قورمے سے کھائیں۔ چینی سے کھائیں۔
شب دیگ سے کھائیں۔ پیاز سے کھائیں یا پانی سے کھائیں، روٹی کبھی آپ کا ہاتھ نہیں
روکے گی۔ پتھروں کی چکی ایجاد ہوئی۔ آٹا پس گیا۔ آٹے میں پانی گندھا، بچوں نے
کھایا تو بیمار پڑ گئے۔ بیماریوں سے محفوظ رہنے کیلئے آگ روشن ہوئی۔ آگ کے بعد
لوہا دریافت ہوا۔ توا بنا، آگ جلا کر آٹا توے پر ڈالا گیا تو روٹی پک کر تیار ہو
گئی۔ روٹی ہی فساد کی جڑ ہے۔ جتنا فساد روٹی خور آدم کرتا ہے، گوشت کھانے والا شیر
بھی نہیں کرتا۔ یہ روٹی بھی عجیب شئے ہے۔ ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہر چیز تبدیل ہو گئی
مگر روٹی روٹی ہی رہی۔ روٹی خور آدم نہیں بدلا۔
ایک فقیر ایک قاضی دونوں
آپس میں گہرے دوست تھے۔ قاضی کہتے تھے اسلام میں پانچ رکن ہیں اور فقیر فرماتے تھے
کہ رکن چھ ہیں۔
قاضی صاحب حج کو گئے۔ اس
زمانے میں ہوائی جہاز تو ہوتے نہیں تھے۔ پانی کا جہاز طغیانی میں آ گیا۔ سمندر کی
لہروں نے تین منزلہ جہاز کو آسمان کی طرف اچھال دیا۔ دوسرے مسافروں کا کیا بنا یہ
تو نہیں پتہ مگر قاضی صاحب ڈوبتے ابھرتے ساحل پر جا گرے۔ ہوش و ہواس درست ہوئے تو
بھوک پیاس لگی۔ سخت بے چینی اور اضطراب میں تھے کہ دور سے آتا ہوا ایک سایہ نظر
آیا۔ قاضی صاحب ہمت کر کے اس سایہ کی طرف بڑھے۔ سایہ ان کے قریب آ گیا۔ بے گوشت
پوست آدمی نے قاضی صاحب سے پوچھا کیا بات ہے۔ کیا پریشانی ہے، کیوں پریشان و بے
قرار ہو؟ قاضی صاحب بولے، پیاس لگی ہے۔ بھوکا ہوں۔ ماورائی وجود نے کہا۔ ساری عمر
کی کمائی آدھی نیکیاں لکھ دو قاضی نے آدھی نیکیاں لکھ دیں اور پانی پی لیا۔ بھوک
بڑھی تو روٹی مانگی، ماورائی شخص نے کہا۔ روٹی کھانی ہے تو باقی آدھی نیکیاں بھی
لکھ دو۔ قاضی صاحب جب گھر لوٹے تو اپنے دوست فقیر کے پاس گئے، فقیر نے پوچھا۔ اے
قاضی اسلام میں پانچ رکن ہیں یا چھ؟ قاضی بولا! اسلام کے رکن پانچ ہیں۔ فقیر نے
اپنی گدڑی ٹٹولی اور قاضی کے لکھے ہوئے دونوں پرچے سامنے رکھ د یئے۔ روٹی کیا ہے؟
روٹی بھوک کا تمثل ہے۔
اطلاع کی عکاسی ہے اور
بھوک کی کیفیت کا مظہر ہے۔ ایسا مظہر جس کے اوپر تمام اخلاقیات کی بنیاد قائم ہے۔
اس کی وجہ سے حسیات زندہ یا مردہ ہیں۔
جو لوگ اس بات کو سمجھتے
ہیں انہوں نے چالاکی سے ایک جال بن لیا ہے۔ خدا دشمنی کا جال، جب وہ کسی قوم پر
پھینکتے ہیں اور قوم اس جال کو اپنا کر ان کی محتاج بن جاتی ہے اور پھر روٹی کے
لئے انہیں وسیلہ ترقی سمجھ لیتی ہے تو ایک ایک روٹی کے لئے ان کی محتاج بن جاتی ہے
اور پھر روٹی کے لئے محتاج قوم ان کی غلام بن جاتی ہے۔ ایسا ہو جانے سے قوم کا
تشخص، کردار اور اپنی شناخت ختم ہو جاتی ہے۔ ذہن ماؤف ہو جاتے ہیں اور دلوں پر بے
حسی طاری ہو جاتی ہے۔ ایسی قوموں پر ان کی اپنی زمین تنگ ہو جاتی ہے اور وسائل پر
دوسری قومیں قابض ہو جاتی ہیں۔ زمین اپنے محور پر گھومتی رہتی ہے اور زمین پر رہنے
والے اپنی بے حسی کی وجہ سے غلام بنتے رہتے ہیں۔ یہی وہ نامراد، اللہ کی محبت سے
دور قوم ہے جس کے لئے ارشاد الٰہی ہے۔
’’مہر لگا دی ہے اللہ
تعالیٰ نے ان کے دلوں پر، ان کے کانوں پر اور دبیز پردے ڈال دیئے ہیں ان کی آنکھوں
پر۔‘‘
کیوں؟ اس لئے کہ یہ سب
اللہ کی مملکت میں رہتے ہوئے اللہ کے باغی ہیں۔
’’وہ لوگ جو سود لیتے
ہیں، سودی معیشت میں زندگی گزارتے ہیں بلاشبہ اللہ کے دشمن ہیں۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے