Topics
’’تم سے پہلے نبیوں نے
معجزات دکھائے ہیں تم بھی کوئی معجزہ دکھاؤ۔‘‘
یہ سن کر حضورﷺ نے
فرمایا:
’’کیا تم معجزہ دیکھ کر
ایمان لے آؤ گے؟ بولو کیا دیکھنا چاہتے ہو؟‘‘
ابو جہل سوچ پڑ گیا تو
یہودی عالم نے کہا:
’’آسمان پر جادو نہیں
چلتا‘‘
اور ابو جہل نے آسمان کی
طرف دیکھا، چودھویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ آسمان پر چمک رہا تھا، ابو جہل
نے کہا:
’’چاند کے دو ٹکڑے اس طرح
کرو کہ چاند کا ایک ٹکڑا جبل ابو قیس اور دوسرا ٹکڑا جبل قیقعان پر آ جائے۔‘‘
حضور اکرمﷺ نے انگشت
شہادت سے چاند کی طرف اشارہ کیا، چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا جبل ابو قیس اور
دوسرا ٹکڑا جبل قیقعان پر نمودار ہوا۔ حضورﷺ نے انگشت شہادت سے دوبارہ اشارہ کیا
تو چاند کے دونوں ٹکڑے پھر آپس میں مل گئے، یہودی عالم یہ معجزہ دیکھ کر ایمان لے
آیا مگر ابو جہل نے کہا:
محمد نے جادو سے ہماری
نظر باندھ دی ہے۔‘‘
شق القمر کی گواہی قافلے
کے مسافروں نے بھی دی جو مکہ کی طرف سفر کر رہے تھے۔
اجرام فلکی میں سے چاند
زمین سے قریب ترین ہے، زمین سے چاند کا فاصلہ دو لاکھ چالیس ہزار میل ہے، چاند کا
قطر کم و بیش اکیس سو میل ہے، چاند کے مادے کی مقدار زمین کے مادے کی مقدار سے اسی
گنا کم بتائی جاتی ہے جبکہ زمین کی کشش ثقل چاند کے مقابلے میں چھ گنا ہے۔
سائنسدانوں نے اندازہ
لگایا ہے کہ تقریباً پانچ ارب سال پہلے چاند اور زمین ایک دوسرے کے بہت قریب تھے،
شروع میں زمین کو اپنے محور کے گرد گھومنے میں چار گھنٹے پچیس منٹ کا وقت لگتا
تھا۔ اب چوبیس گھنٹے میں گھومتی ہے، چاند زمین کے گرد گردش کے دوران مختلف مدارج
سے گزرتا ہے، گردش کے ابتدائی ایام میں چاند کا جتنا حصہ سورج کی روشنی سے منور
ہوتا ہے اسے ہلال کہتے ہیں۔ ہر رات اس کے روشن حصے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، یہاں
تک کہ چودہ دنوں میں چاند پورا ہو جاتا ہے، رفتہ رفتہ چاند گھٹنا شروع ہو جاتا ہے
اور بالآخر آسمان پر سے غائب ہو جاتا ہے۔
یہ پورا چکر تقریباً
ساڑھے ۲۷
دنوں میں ہوتا ہے اور ہر ماہ چاند مغربی افق پر نمودار ہوتا ہے، چاند کی سطح جو
انسانی آنکھ سے اوجھل رہتی ہے، مصنوئی سیاروں کی مدد سے اس کی تصاویر حاصل کی گئی
ہیں، چاند کی یہ سطح زیادہ تر پہاڑوں پر مشتمل ہے، انسانی آنکھ سے روشن چاند کی
سطح پر نظر آنے والے داغ دھبے دراصل ہموار ریگستانی میدان ہیں، جوگردوپیش کی
اونچائیوں سے نیچی سطح پر واقع ہیں اور روشنی کا انعکاس نہ کرنے کی وجہ سے یہ
تاریک نظر آتے ہیں۔
اپالومشن کی پروازوں کے
دوران مئی ۱۹۴۷
ء ORBITER-4راکٹ
سے چاند کے چھپے ہوئے رخ کی تین ہزار کلومیٹر سے تصاویر لی گئیں، ان تصویروں میں ۲۴۰ کلومیٹر طویل کئی
مقامات پر ۸
کلومیٹر چوڑی دراڑ دیکھی ہے، چاند کی کشش سے سمندر کی لہروں میں مدوجزر اٹھتے ہیں،
چاند سورج سے ۴۰۰
گنا چھوٹا ہے، زمین کے گرد اپنے بیضوی مدار پر گردش کرتے ہوئے چاند جب زمین کے
قریب سے گزرتا ہے اور زمین اور سورج کے بیچ میں آ جاتا ہے تب سورج کی روشنی زمین
تک نہیں پہنچ پاتی، یہ سورج گرہن ہے، چاند گرہن کے وقت زمین سورج اور چاند کے
درمیان میں آ جاتی ہے۔
روحانی آنکھ سے نظر آنے
والا چاند اس کے برعکس ہے جو ٹیلی اسکوپ دیکھتی ہے، روحانی آنکھ سے نظر آتا ہے کہ
چاند پر پہاڑ، جھیلیں، تالاب، ریگستان ہیں، تالاب اور جھیلوں کے پانی میں پارے کا
عنصر غالب ہے اور یہ پانی پارے کی طرح چمکدار ہے، چاند پر جنات کی مخلوق کی آمد و
رفت رہتی ہے۔
چاند کی فضا میں گیس کی
بو ایسی ہے جیسے ویلڈنگ کرتے وقت آتی ہے، چاند کی زمین پر چہل قدمی کرتے وقت جسم
لطیف محسوس ہوتا ہے، اتنا لطیف جو ہوا میں آسانی سے اڑ سکتا ہے لیکن لطیف ہونے کے
باوجود جسم ٹھوس ہوتا ہے، چاند پر کوئی مستقل آبادی نہیں ہے، چاند ایک سیر گاہ ہے
جہاں مثالی جسم جا سکتا ہے، دنیا کا کوئی فرد اس وقت تک چاند میں داخل نہیں ہو
سکتا جب تک جسم مثالی سے واقف نہ ہو، نہ صرف یہ کہ جسم مثالی سے واقف ہو بلکہ
ارادے اور اختیار سے جسم مثالی کے ساتھ سفر کر سکتا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو
کائنات پر حاکمیت عطا کی ہے، حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ دن، رات، چاند، سورج اور
ستاروں پر بھی سیدناﷺ حکمران ہیں۔
’’اس نے تمہارے لئے رات
اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے اور سب ستارے بھی اس کے حکم سے
مسخر ہیں، اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘
(النحل۔ ۲۱)
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو
کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے اور اسی نے کشتی کو
قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی آسمان کو
اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا، بیشک اللہ
لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔‘‘
(الحج۔ ۶۵)
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ
اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی
کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر رکھی ہیں اور انسانوں میں سے کچھ لوگ وہ ہیں
جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا ہدایت ہو
یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب ہو۔‘‘
(سورۃ لقمان۔ ۳۰)
’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے
تمہارے لئے سمندر کو مسخر کیا تا کہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا
فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو اس نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کو تمہارے لئے
مسخر کر دیا ہے، سب کچھ اپنے پاس سے اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو
غور و فکر کرنے والے ہیں۔‘‘
(الجاثیہ۔ ۱۲،۱۳)
ابو جہل اور یہودی عالم
نے شق القمر کے معجزے کے بارے میں کہا تو حاکم کائنات سیدنا حضورﷺ نے ان اختیارات
کا استعمال کیا جو اللہ نے انہیں سورج کو مسخر کرنے، چاند کو مسخر کرنے اور کائنات
کو مسخر کرنے کے لئے عطا فرمائے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے