Topics

خود آگاہی

جب ہم اپنی زمین، چاند، سورج، کہکشانی نظام اور کائنات کی ساخت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سارا نظام ایک قاعدے، ضابطے اور قانون کے تحت کام کر رہا ہے اور یہ قانون اور ضابطہ ایسا مضبوط اور مستحکم ہے کہ کائنات میں موجود کوئی شئے اس ضابطے اور قاعدے سے ایک انچ کے ہزارویں حصے میں بھی اپنا رشتہ منقطع نہیں کر سکتی۔ زمین اپنی مخصوص رفتار سے محوری اور طولانی گردش کر رہی ہے۔ اس کو اپنے مدار پر حرکت کرنے کے لئے بھی ایک مخصوص گردش اور رفتار کی ضرورت ہے اور اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا، پانی کا بہنا، بخارات بن کر اڑنا، شدید ٹکراؤ سے اس کے مالیکیول کا ٹوٹنا، بجلی کا پیدا ہونا اور ماحول کو منور کرنا یہ سب ایک مقررہ قاعدے اور ضابطے کے تحت ہے، اسی طرح حیوانات، نباتات کی پیدائش اور افزائش بھی لگے بندھے قانون کی پیروی کر رہی ہے، انسانی دنیا میں بھی پیدائش اور نشوونما کا نظام ایک ہی چلا آ رہا ہے، وہ پیدا ہو کر بڑھتا ہے، لڑکپن اور جوانی کے زمانوں سے گزر کر بڑھاپے کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی نہیں چاہتا کہ میں بوڑھا ہو جاؤں لیکن ہر شخص بوڑھا ہونے پر مجبور ہے، کوئی شخص پسند نہیں کرتا کہ اس کے اوپر موت وارد ہو لیکن دنیا میں ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں ہے کہ آدمی نے موت سے نجات حاصل کر لی ہو، ان باتوں پر گہرے غور و خوض کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اس قدر منظم اور مربوط نظام چلانے والی کوئی ہستی ضرور موجود ہے۔

کوئی اس ہستی کو بھگوان کہتا ہے، کوئی اس لازوال ہستی کا نام گاڈ رکھتا ہے، کسی صحیفہ میں اسے نروان کے نام سے پکارا گیا ہے، آسمانی کتابوں میں اس کا نام اللہ ہے، نام کچھ بھی رکھا جائے، بہرحال ہم یہ ماننے اور یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ ایک طاقت اور لامتناہی ہستی ہمیں سنبھالے ہوئے ہے اور ساری کائنات پر اس کی حکمرانی ہے، وہ لوگ جو اس عظیم ہستی کا اقرار نہیں کرتے وہ زندگی کی شکست و ریخت کا ذمہ دار قدرت کو قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت ان کے انکار میں بھی اقرار کا پہلو نمایاں ہے اس لئے کہ جب تک کوئی چیز موجود نہیں ہوتی اس کا انکار اور اقرار زیربحث نہیں آتا، کوئی بندہ جب اپنی دانست میں اس ہستی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں تو اس کا ذہن انکار کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔

ہر شئے کسی نہ کسی پروگرام کے ساتھ تخلیق ہوئی ہے۔ بلامقصد یا کھیل کے طور پر کوئی چیز وجود میں نہیں آئی۔ عام طور پر انسان کی دلچسپیاں گوشت پوست کے جسم پر مرکوز رہتی ہیں۔ جبکہ گوشت پوست کا جسم اصل نہیں ہے۔ اصل انسان وہ ہے جو اس جسم کو متحرک رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔

ہم اپنے مادی جسم کی حفاظت کے لئے لباس بناتے ہیں۔ لباس خواہ کسی کا ہو جب تک گوشت پوست کے جسم پر موجود رہتا ہے اس میں حرکت ہے۔ لباس کی حرکت جسم کے تابع ہے۔ لباس میں اپنی ذاتی کوئی حرکت واقع نہیں ہوتی۔ اسی طرح جب کوئی آدمی مر جاتا ہے تو لباس کی طرح اس کے اندر بھی کوئی ذاتی حرکت یا قوت مدافعت موجود نہیں رہتی۔ ہم گوشت پوست کے جس جسم کو انسان کہتے ہیں۔ وہ انسان نہیں ہے۔ بلکہ اصل انسان کا لباس ہے۔

نظریہ رنگ و نور اور عقل و شعور ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم تلاش کریں کہ انسان کی اصل کیا ہے۔ وہ کہاں سے آ کر اپنے لئے جسمانی لباس تیار کرتا ہے اور پھر اس لباس کو اتار کر کہاں چلا جاتا ہے۔ قدرت نے انسان کو اصل انسان سے متعارف کرانے کے لئے بہت اہم اور مختصر فارمولے بنائے ہیں تا کہ نوع انسانی خود آگاہی حاصل کر کے اپنی اصل سے واقف ہو جائے۔

ہر مخلوق باشعور اور با حواس ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے قائم، زندہ اور متحرک ہے۔ نباتات، جمادات آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ نباتات، جمادات اور زمین پر موجود دوسری مخلوق کی آپس میں گفتگو ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ زمین اور زمین کے اندر تمام ذرات شعور رکھتے ہیں۔ زمین ایک ماں کی طرح تخلیقی قوتوں کی حامل ہے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچے کو جنم دیتی ہے اس طرح زمین تخلیقی عوامل سے گزر کر ایسے ایسے رنگ بکھیرتی ہے جو عقل و دانائی کے لئے لمحہ فکریہ ہے، دھوپ ایک ہے، ہوا ایک ہے، چاندنی ایک ہے اور فضا میں بکھری ہوئی گیسیں ایک ہیں مگر جب پانی زمین کی کوکھ میں جذب ہوجاتا ہے تو اتنی تخلیقات ظہور پذیر ہوتی ہیں جن کا شمار انسان کے بس سے باہر ہے۔ زمین کے پیٹ میں کروڑوں سانچے ہیں، جس سانچے میں پانی ٹھہر جاتا ہے پانی ڈائی کے مطابق نیا رخ اختیار کر لیتا ہے یہی پانی کبھی کیلا بن جاتا ہے، کبھی سیب بن جاتا ہے، کبھی انگور بن جاتا ہے اور کبھی پھولوں کے نقش و نگار بن کر سامنے آتا ہے، برگد کا ایک بیج جو خشخاش کے دانے سے بھی چھوٹا ہوتا ہے جب زمین کے پیٹ میں ڈال دیا جاتا ہے تو زمین اس بیج کی پرورش کر کے تناور درخت بنا دیتی ہے، ایسا تناور درخت جس کے سائے میں سینکڑوں آدمی قیام کرتے ہیں، زمین پر موجود پھیلی ہوئی مادی کائنات نے انسان کو اس بات کا شعور بخشا ہے کہ انسان اپنی عقل و شعور کو استعمال کرے اور یہ سوچے کہ انسان، حیوانات، نباتات اور جمادات سے کس طرح ممتاز ہے۔

سائنسی دنیا نے جو علمی اور انقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اور فزیالوجی ہیں اور پیرا سائیکالوجی (روحانیت) کا علم ہے، روحانیت دراصل تفکر، فہم اور ارتکاز کے فارمولوں کی دستاویز ہے۔ اس دستاویز کا مطالعہ کرنے کا بہترین ذریعہ مراقبہ ہے۔


Sada E Jars

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اُس

گونج

کے نام جو

صدائے جرس

کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے