Topics
تاریخی شواہد یہ ہیں کہ
ساری دنیا ایک ڈرامہ ہے۔ ایسا ڈرامہ جس میں الگ الگ کرداروں کے ساتھ بے شمار
کہانیاں ہیں، ہر کہانی کا آغاز ایک طرح ہوتا ہے اور ہر کہانی ایک ہی انجام پر ختم
ہوتی ہے، کہانی در کہانی یہ دنیا عجیب دنیا ہے، کہانی کا ہر کردار سمجھتا ہے کہ
میں ایک نئی دنیا ہوں لیکن یہاں کوئی بھی بات نئی نہیں ہے، انسان نے تاریخ کے نام
پر کتابوں کے اتنے انبار لگا دیئے ہیں کہ اگر ان سب کو سمندر میں ڈال دیا جائے تو
سمندر میں ایک جزیرہ بن جائے گا اور عربوں کھربوں کتابوں کے مطالعے سے انسانی ذہن
نے یہ نتیجہ اختراء کیا ہے کہ زمین پر تین زمانے محیط ہیں:
ماضی
حال
مستقبل
بڑے بڑے دانشور، فلسفی، حکماء، سائنسدان، ماہر نفسیات، ماہر ارضیات اور نہیں معلوم
کتنے شعبوں کے ماہرین یہ بات ثابت نہیں کر سکے کہ تین زمانے ماضی، حال اور مستقبل
کی کیا حیثیت ہے؟ کیا واقعتاً زمین ان تین دائروں میں مقید ہے؟ کیا کوئی بھی پیدا
ہونے والا انسان ماضی، حال اور مستقبل کے دائروں میں بند ہے؟
میں ایک بندہ بشر ہوں،
میری زندگی ایک کتاب ہے، اس کتاب میں زندگی کے نشیب و فراز، ماہ و سال شب و روز
چھپے ہوئے ہیں، اس طرح زمین پر موجود ہر بشر ایک کتاب ہے، جتنے سال یہ بشر دنیا
میں رہتا ہے کتاب زندگی میں اتنے ہی ورق ہیں، میں اگر ستر سال کا بوڑھا ہوں تو
میری کتاب زندگی میں ستر ورق ہیں، ورق کا ایک صفحہ مظاہراتی دنیا ہے اور دوسرا
صفحہ ماورائی دنیا ہے۔
زندگی کا پہلا ورق یہ ہے
کہ میں نے اس دنیا میں قدم رکھا، ایک سال تک اس ورق پر نقش ابھرتے رہے اور نقوش
زندگی بنتے رہے، دوسرے سال بھی پہلے سال کے نقوش گہرے ہوتے رہے، نتیجہ میں زندگی
کے دو سال دوورق بن گئے، پھر ان اوراق میں اضافہ ہوتا رہا لیکن نقوش میں تبدیلی
واقع نہ ہوئی۔ کتاب زندگی دس صفحہ کی ہوئی، بیس صفحہ کی ہوئی، تیس صفحہ کی ہوئی،
چالیس صفحہ کی ہوئی، ساٹھ صفحہ کی ہوئی اور جب ستر اسی سال کے اوراق پورے ہوئے تو
کتاب بند ہو گئی۔ اس عمل کو اہل دانش ارتقائی عمل قرار دیتے ہیں، ارتقائی عمل بھی
خوب ہے کہ کسی ایک نقطے پر جا کر ختم ہو جاتا ہے اور اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ
وجود ناپید اور ہستی عدم ہو جاتی ہے، دانشوروں کے ارتقائی عمل پر غور و فکر کیا
جائے تو ذہن کی اسکرین پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ ستر، اسی سال کی زندگی، حال اور
مستقبل کس طرح ہوئی؟ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے، ہر
تخلیق، ہر نوع انسانی کا ہر فرد ماضی ہے اور سارا ارتقائی عمل ماضی کا دہرانا ہے۔
ہمیں پیاس لگتی ہے لیکن
اگر ماضی میں پانی موجود نہ ہو تو پیاس نہیں بجھتی، بھوک لگتی ہے لیکن اگر ماضی
میں خورد و نوش کا سامان نہ ہو تو اور تسلسل نہ رہے تو بھوک رفع نہیں ہوتی، نوع
انسان کا پہلا فرد ابو بشر آدم اگر ماضی میں نہ ہوتا تو نسل انسانی کے وجود کا
تذکرہ ہی نہ ہوتا، یہ کیسی منطق ہے کہ ماضی کے دہرانے کو حال اور مستقبل کا نام
دیا جا رہا ہے، جبکہ ماضی پھیل رہا ہے اور سمٹ رہا ہے، ماضی پھیلتا ہے تو اس کو
ارتقاء کہہ دیا جاتا ہے اور ماضی سمٹتا ہے تو اس کا نام تنزل رکھ دیا جاتا ہے،
اندرون بین نظر سے دیکھا جائے تو زمین اور پوری کائنات ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے،
زمین پر پیدا ہونے والا بچہ ابو بشر آدم کی تصویر ہے جو مثبت سے منفی بن رہی ہے۔
مثبت سے منفی تصویر کو حال اور مستقبل کیسے کہا جا سکتا ہے؟
آج پیدا ہونے والا بچہ
میں ستر، اسی سال چپکے ہوئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اس بچے میں کیمیائی تبدیلیاں ہوتی
رہتی ہیں۔ یہ کیمیائی تبدیلیاں پہلے سے موجود روشنیوں میں تبدیلیاں ہیں، ان
تبدیلیوں کی وجہ سے بچہ دو دائروں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک کو محسوس دنیا اور
دوسری کو غیر محسوس دنیا سمجھا جاتا ہے۔
دانشوروں کے نزدیک محسوس
دنیا قابل اعتماد ہے اور غیر محسوس دنیا اس لئے قابل اعتماد نہیں ہے کہ وہ آنکھوں
کے سامنے مظہر نہیں بنتی، حالانکہ غیر محسوس دنیا پیدا ہونے والے بچے کے لئے بنیاد
ہے۔ اس لئے کہ جو بھی بچہ اس دنیا میں آتا ہے وہ اس دنیا سے آتا ہے جو نظروں کے
سامنے نہیں ہے۔
بچے کے اندر بتدریج جب
کیمیائی یا شعاعی تبدیلیاں ہوتی ہیں تو رفتہ رفتہ طبیعت کے لئے یہ تبدیلیاں معمول
بن جاتی ہیں، کبھی حواس کے اوپر ان کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اور کبھی یہ غلبہ کم ہو
جاتا ہے، تبدیلیوں کا کم یا زیادہ ہونا ردعمل ہے۔ جب تک ردعمل رہتا ہے، طبیعت اس
کو نہیں دہراتی اور جب ردعمل ہو چکتا ہے تو طبیعت دہرانے لگتی ہے، قانون یہ ہے کہ
ردعمل محض وقتی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
کہ:
’’لوگوں کی یہ پرانی عادت
ہے کہ جب ہمارا قاصد پیام لے کر ان کے پاس ہوتا ہے تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان
لوگوں کی بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ اگر ہم آسمان کے دروازے کھول دیں اور چڑھنے کے
لئے ان کو زینہ مل جائے اور یہ سارا دن چڑھتے رہیں مگر یہی کہتے جائیں گے کہ ہماری
نگاہ پر جادو کر دیا گیا ہے، ہم تو نظر بندی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ حالانکہ یہ
واقعہ ہے کہ ہم نے آسمانوں کے الگ الگ حصے کر دیئے ہیں اور ان کو مختلف طرزوں پر
آباد کیا ہے البتہ اس آباد کاری کو نظر والے ہی دیکھ سکتے ہیں اور شیطان مردود بے
یقین ہے اس کی نگاہ سے ان آبادیوں کو مخفی کر دیا ہے، وہ ان بستیوں کو نہیں دیکھ
سکتا لیکن جو لوگ چور دروازوں سے ان آسمانوں میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں آگ
کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔‘‘
(القرآن)
کائنات میں ہر چیز کا ایک تشخص ہے۔ یہ تشخص ہی پھیلتا اور سمٹتا رہتا ہے۔ یہ تشخص
کائنات کی تخلیق سے پہلے ہی متعین کر دیا گیا ہے۔ جب ہم کائنات کی تخلیق سے پہلے
کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ تشخص ہی
حقیقی ہے، خواہ وہ ذرے میں ہو، ستارے میں ہو، چاند میں ہو، سورج میں ہو، زمین میں
ہو یا انسان میں ہوں، انسان کا کوئی بھی کردار پہلے سے ماضی میں ریکارڈ ہے۔ ماضی
میں موجود کسی بھی کردار یا صلاحیت کو انسان جتنا بیدار کرے اتنی ہی وہ صلاحیت
بیدار ہو جاتی ہے، مطلب یہ ہے کہ یہاں پر انسان ڈاکٹر بھی ہے، انجینئر بھی ہے،
ٹیچر بھی ہے اور جو شخص انجینئر ہونا چاہئے وہ اپنے اندر موجود ریکارڈ انجینئرنگ کی
صلاحیت کو بیدار کر لے تو وہ انجینئر بن جاتا ہے، اگر کوئی شخص ڈاکٹر بننا چاہتا
ہے تو وہ اپنے اندر موجود ڈاکٹر کی صلاحیت کو بیدار کر لے تو ڈاکٹر بن جاتا ہے۔ جو
شخص اپنی ذات (ماضی) سے بے خبر ہو جاتا ہے وہ ایسی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے جہاں
رنج و الم، عدم تحفظ، پریشانی، بے سکونی اور ذہنی انتشار نہیں ہے، جس درجے میں
جدوجہد اس صلاحیت کو بیدار کرنے میں اجاگر ہو گی اس ہی مناسبت سے وہ کامیاب ہو
جائے گا اور جب کوئی شخص اپنی صلاحیتوں کی حقیقت اور مکمل کارکردگی سے بے خبر رہتا
ہے تو اپنی ذات کا جائزہ نہیں لے سکتا، وہ یہ نہیں جان سکتا کہ اس کی ذات کہاں تک
محیط ہے اور یہی انسان کی سب سے بڑی محرومی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے