Topics
ہزاروں سال کی تاریخ دراصل اس راز کی پردہ کشائی ہے کہ قومیں ترقی کے خوشنما دعوؤں
میں اور نئی نئی ایجادات کے پردہ زنگاری میں خود کو تباہ و برباد کرتی رہتی ہیں،
ایک طرف قومیں زمین کو آتش فشاں بنا کر خود ایندھن بن جاتی ہیں اور دوسری طرف خالق
و مالک ہستی اللہ تعالیٰ از سر نو زمین پر باغ کی آبیاری کرتا ہے، قوموں کے عروج و
زوال کے مشاہدات یہ ہیں کہ جو قوم سب سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ افراد کو موت
کے منہ میں دھکیل دے وہ ترقی یافتہ ہے اور جب اس ترقی کا فسوں ٹوٹتا ہے تو زمین
آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتی ہے اور چھ ارب کی آبادی سمٹ کر ایک ارب رہ جاتی ہے، پھر
بچے کھچے خستہ حال اپاہج، معذور، ادھڑی ہوئی کھال اور زخموں سے نڈھال افراد زمین
کی اجڑی ہوئی امنگ مین سندور بھرتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ زمین میں سے پیدا
ہونے والے لوگ اس سندور کو اتار کر زمین کو دوبارہ اجاڑ دیتے ہیں۔
تجرباتی دنیا یہ ہے کہ
انسان کہیں سے آتا ہے یعنی وہ پہلے سے کہیں موجود تھا جب وہاں کی موجودگی ختم ہوئی
تو اس دنیا میں پیدا ہو گیا یعنی اس دنیا میں آنے سے پہلے اس پر موت وارد ہوئی،
پہلے موت وارد ہوئی پھر پیدا ہوا اس دنیا سے جانے کے بعد دوسری دنیا میں پیدا ہوا
اس کا منطقی استدلال یہ ہوا کہ اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ہم کہیں پیدا ہوئے تھے
یعنی موت سے زندگی پیدا ہوئی اور زندگی سے موت پیدا ہوئی، اس کو اس طرح بھی کہا جا
سکتا ہے کہ موت زندگی میں داخل ہوئی اور زندگی موت میں داخل ہو گئی، زندگی سے موت
کا پیدا ہونا اور موت سے زندگی کا پیدا ہونا یا زندگی کا موت میں داخل ہو جانا اور
موت کا زندگی میں داخل ہو جانے کا پروسیس یہ ظاہر کرتا ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہے جو
اس پر اسیس کو جاری رکھے ہوئے ہے اور بغیر کسی تبدیلی اور تعطل کے جاری رکھے ہوئے
ہے۔
جس قوم نے بھی ذاتی مفاد
کے تحت گروہی تعصب کو ہوا دی ملت میں تفرقہ ڈالا اور اس تفرقے کی بنیاد پر خود کو
جنتی اور دوسروں کو دوزخی قرار دیا وہ تباہ کر دی گئی۔ اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ
گیا اس کو ذلیل و خوار کر کے زمین پر دربدر کر دیا گیا۔ اللہ کہتا ہے:
’’جو قوم اپنی حالت میں
بہتری پیدا نہیں کرتی اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے اور اس قوم کا شیرازہ
بکھر جاتا ہے۔‘‘
ایسی قوم دربدر کی
ٹھوکریں کھا کر بالآخر اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے، جس نسل، جس ملک، جس قوم نے
اللہ تعالیٰ کے قانون کو توڑا اور اجتماعی سوچ کو نظر انداز کر کے ریشم کے کیڑے کی
طرح انفرادی سوچ کے غلاف میں بند ہو گئی، وہ ختم ہو گئی ہے، اپنے کوتاہ نظری کو،
کوتاہ اندیشی سے حرف غلط کی طرح مٹ گئی، ایسی قوموں کی زندگی کا تاروپود بکھر جاتا
ہے۔
کیا ایسا ہونا عقلی
اعتبار سے صحیح نہیں ہے کہ مذہب کو سائنسی بنیادوں پر سمجھا جائے اور سائنسی
بنیادوں پر مذہب کی عمارت کی تزئین کی جائے اور اللہ تعالیٰ کو کائنات کی حیات کے
اندر تلاش کیا جائے، کیا رات دن کا اختلاف، کہکشانی نظام اور ان نظاموں میں مسلسل
حرکت اس لئے قائم نہیں ہے کہ انسان ان کے اندر تفکر کرے۔
جو انسان پیدا ہوتا ہے اس
کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ میں پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا؟ کیوں پیدا ہوا؟
جس دنیا میں پیدا ہوا یہ سارا عالم خوشبو اور رنگ سے معمور عالم کی حیات عارضی اور
فانی کیوں ہے؟ فانی حیات کے بعد اگر دوسری زندگی ہے تو وہ کہاں ہے؟ کیا وہ دنیا
بھی اس دنیا کی طرح فنا ہونے والی ہے؟
لیکن جیسے جیسے آدم زاد
زندگی کے شب و روز میں سانس لیتا ہے ایسے نظریات سے دوچار ہوتا ہے کہ بالآخر وہ
ہارے ہوئے جواری کی طرح اصلیت اور ماہیت کے بارے میں کوئی رائے نہیں قائم کر سکتا
کیونکہ وہ نہیں سمجھتا کہ دنیا میں پھیلی ہوئی لاکھوں چیزوں کا آپس میں کیا تعلق
ہے۔ یہ سب اپنے اپنے محور پر ایک توازن کے ساتھ کیوں حیات و ممات کے دوش پر سفر کر
رہی ہیں، ان کی ماہیت میں کیوں تبدیلی واقع نہیں ہوتی، اس وقت آدم زاد ایسے لوگوں
کی طرف دیکھتا ہے جنہوں نے زندگی کے تجربات سے کوئی نتیجہ اخذ کر لیا ہے ہر آدم
زاد کے طرز عمل کی بنیاد یہ بنتی ہے کہ وہ ان سوالوں کا جواب چاہتا ہے۔
میں کون ہوں؟
میں کیا ہوں؟
عقل کیا ہے؟
شعور کیا ہے؟
عقل و شعور میں جو باتیں
وجدان کی صورت میں نازل ہوتی ہیں ان کا میری ذات سے کیا رابطہ ہے؟ میں زندگی کے
بارے میں جو فیصلہ کرنا چاہتا ہوں، ان فیصلوں کے نتائج میرے حق میں ہونگے یا مجھے
نقصان پہنچائیں گے؟
مستقبل اگر ہے تو کیا میں
اپنے مستقبل سے مطمئن ہو سکتا ہوں؟
میں جو کچھ کرتا ہوں اس
کی باز پرس ہو گی؟
اگر باز پرس ہو گی تو کیا
عمل میں تبدیلی ممکن ہے؟
راکٹوں، میزائلوں اور
لانچرز کی تباہی اور بربادی کے آتشیں بوچھاڑ سے کسی نے اپنی شیر خوار بچی کو بچانا
چاہا اور کوئی اپنی ضعیف اور بوڑھی ماں کا ہاتھ تھامے خالی ہاتھ محفوظ جگہ کی تلاش
میں سرگرداں ہو گیا، خوبصورت طویل و عریض گھر ان گھروں میں آرائشی سامان اور قیمتی
سامان ٹوٹ پھوٹ کر زمین پر اس طرح بکھر گیا جیسے کوئی بے وقعت چیز ہے، خلاء سائنس
آتش فشاں کے دھوئیں سے اس طرح بکھر گیا کہ زمین سورج کی کرنوں سے محروم ہو گئی،
دیکھنے والوں نے قیامت کا جو منظر دیکھا ان کے دل ڈوب ڈوب گئے اور آنکھوں میں خون
آنسو بن گیا، دل کی دنیا زیر و زبر ہو گئی۔
نوع انسانی کے دانشوروں،
عقلمندوں اور بذات خود ہیومن رائٹس کا پرچار کرنے والوں نے اپنی چودھراہٹ قائم
کرنے کے لئے زمین پر آتش فشاں مادے کا ایسا پہاڑ کھڑا کر دیا جس کے سامنے زمین کی
کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی، سائنسدانوں نے اپنی نوع کو برباد کرنے کے لئے ایسی
ایسی اختراعات کیں کہ زمین کا کلیجہ چھلنی ہو گیا، نوع انسانی سے بزعم چند باشعور
انسانوں نے خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے نوع انسانی پر ایسا جال پھینک دیا جس کا
ہر سورس ایک مہلک ہتھیار ہے، نوع انسانی کے ان دانشوروں نے جو بلاشبہ اللہ کے دوست
نہیں ہیں، نت نئے مہلک ہتھیاروں کی ایجاد سے خود اپنی پیشانیوں کو داغ دار بنا لیا
ہے، ترقی یافتہ قوم کے باشعور افراد کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں چالیس ہزار
ایٹم بم موجود ہیں، دیگر چھوٹے اور بڑے اسلحوں کا کوئی شمار نہیں۔ یہ کہنا بے جا
نہ ہو گا کہ لوگ ترقی کے نام پر زمین کو اجاڑ رہے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے