Topics

سچا مذہب

’’تم پر اللہ کا نور نازل ہوا ہے۔ یہ کتاب اندھیروں سے نکال کر دنیائے نور کی طرف لے جاتی ہے اور سیدھے راستے پر ڈال دیتی ہے۔‘‘

(القرآن)

’’مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘

(حدیث شریف)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے پاس اللہ کی دی ہوئی ایسی کتاب موجود ہے جو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتی ہے تو ہم زمین پر بدحال اور بے عزت کیوں ہیں؟ کون سی وجہ ہے جس کی بنیاد پر ہمارے بہترین تشخص نے کمترین لباس پہن لیا ہے؟ ہمارے پاس اللہ کا پیغام اور کھلی نشانیاں اپنی صورت میں موجود ہیں اور ہم رسول اللہﷺ کے اسوہ مقدس سے بھی مانوس اور متعارف ہیں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا کہ کل ہمارے اسلاف علمی میدان میں اتنے آگے تھے کہ دوسرے ان کی گرد راہ کو بھی نہیں پہنچ سکتے تھے، دنیا کے اقتدار پر ہمارا قبضہ تھا، حکمرانی ہمارے گھر کی لونڈی تھی، مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق تک اسلام کا غلبہ تھا۔

یورپین ممالک میں مسلمانوں نے کئی صدیاں حکومت کی، عروج ہمارے ماتھے کا نشان تھا اور زوال ہمارے پیروں تلے اپنے سانس گن رہا تھا، پھر کیا ہوا کہ ہماری عظمت خاک میں مل گئی، حکمران غلام بن گئے، علم کی جگہ جہالت ن ے ہمارے اوپر اپنے دبیز سائے ڈال کر اشرف المخلوقات کی صف سے نکال کر حیوانات کے گروہ میں شامل کر دیا۔

شاہراہ حیات پر ہم پیچھے رہ گئے، ہمارا اقتدار تو خاک میں مل گیا تھا، ہم دوسروں کے اس طرح محتاج ہو گئے کہ ہماری حیثیت ایک بھکاری کی بن گئی۔ انتہا یہ کہ ہم علم میں بھی غیر مسلم کے سامنے کاسۂ گدائی لے کر کھڑے ہوئے ہیں، ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی کتاب موجود ہے جس میں معاشرے کے مسائل کا حل تاریخ انسانی کے عبرت آموز واقعات اور قوموں کے عروج و زوال کے اسرار کی نشان دہی کی گئی ہے، ہم جو ایک زمانہ میں باعزت قوم تھے، ہم جو عروج کی نشانی تھے، علم کی تفسیر تھے پیچھے کیوں رہ گئے؟ اللہ کی کتاب ’’کتاب المبین‘‘ کے انوار میں اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

چار سو سال پہلے جب یورپ اللہ کی زمین میں سے فولاد، تیل، کوئلہ اور معدنیات تلاش کر رہا تھا ہم تفرقہ کی بنیاد پر ثابت کرنے پر لگے ہوئے تھے کہ نجات اس بات میں ہے کہ کوئی بندہ دیو بندی، بریلوی ہو، اہل حدیث ہو اور وہابی یا نجدی ہو، ہم لکیر کے فقیر بن کر زمین پر تیز رفتار سے چلنے کے بجائے چوپایوں کی طرح چلتے رہے، ہم نے جمود کا نام قناعت رکھ لیا، آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے قدم اٹھانا اپنے لئے معراج سمجھا، شب و روز فروعی مسائل میں الجھتے رہے، یورپ خداداد صلاحیت کو کام میں لا کر قرآن میں بیان کردہ اللہ کی زمین کے اوپر اور نیچے ترقی کے وسائل تلاش کرتا رہا، نتیجہ میں انہوں نے تیز رفتار ٹرین اور ہوائی جہاز بنائے جس کے ذریعے طویل فاصلے پر دسترس حاصل کر لی جیسی کیلکولیٹر سے ترقی کرتے ہوئے آج سپر کمپیوٹر تک جا پہنچے۔ باہمی رابطے کے لئے ٹیلی فون سے ترقی کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو عام کر کے پوری دنیا کو مواصلاتی اتحاد کی ایک لڑی میں پرو دیا۔ ان کی شعوری ترقی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے ہتھیلی کے برابر ڈسک CDمیں دنیا بھر کی معلومات کو بند کر دیا اور جب اپنی طاقت کا لوہا منوانے کے لئے اہل یورپ آتش گیر مادے کی طرف متوجہ ہوئے تو ایسے مہلک ہتھیار بن گئے کہ خوف و دہشت سے ہماری قومی حمیت تختہ دار پر چڑھ گئی۔

ہم مسلمانوں کے زوال کی داستان اتنی غمناک ہے کہ آج کا نوجوان جب اپنی تاریخ پڑھتا ہے تو اسے اپنے اسلاف کا کردار بدنما اور گھناؤنا لگتا ہے، یورپ نے آپس کی ریشہ دوانیوں سے اور مسلمان قوم کی فرقہ بندیوں سے فائدہ اٹھا کر اسلامی حکومتوں کو پامال کر دیا اور تمام اسلامی ممالک پر قبضہ کر لیا۔ مسلمان ہر جگہ پر پست ہوتا چلا گیا، شکست اس کا مقدر بن گئی جب کہ یہ سب پہلے ہی واضح اور روشن کتاب میں بیان کر دیا گیا ہے، یہ وہی کتاب ہے جس کے بارے میں ہمارا قوی دعویٰ ہے کہ ہم اس کتاب پر یقین رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہمیں عنایت کی گئی ہے، تمام آسمانی کتابیں اور تاریخ اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ بقا صرف ان قوموں کا نصیب ہے جو خود زندہ باقی رہنا چاہتی ہیں۔ جمود، عیاشی، کاہلی، بے یقینی اور اپنے اسلاف کے روشن ورثے سے انحراف قوموں کو ختم کر دیتی ہے، صفحہ ہستی سے ان کا نام مٹ جاتا ہے ایسی قومیں ذلیل و خوار ہوتی ہیں، زمین پر ان کا وجود بوجھ بن جاتا ہے، ہمارے بادشاہوں نے (جب کہ اسلام میں بادشاہت نہیں ہے) اپنے درباروں کو اس طرح سجایا اور آرام و آسائش کے ایسے سامان جمع کئے کہ وہ آرام و آسائش میں ڈوب کر رعایا کی بہبود سے غافل ہو گئے، جب ایسا ہوا تو حکام کے سینے رحم سے خالی ہو گئے، معاشرہ درہم برہم ہو گیا، اخلاق انحطاط پذیر ہوتے ہوتے بداخلاقی اخلاق بن گئی لوگوں نے درندگی کو اپنا شعار بنا لیا، بادشاہوں نے غیر اسلامی قدروں کو ایک کر مطربوں، سرمایہ داروں اور خوشامدیوں کو نوازا لیکن ارباب علم و دانش سے اچھا سلوک نہیں کیا اور ایسی داستان عبارت ہوئی کہ بادشاہت ختم ہو گئی اور قوم مفلوک الحالی کی منہ چڑاتی مثال بن گئی۔

ہم جب اسلام کی قدروں کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اسلام ضعیفوں، معذوروں اور یتیموں کا کفیل بنا، اسلام نے مردہ اسلامی قدروں کو دوبارہ بحال کیا اور خالق سے قریب ہونے کا طریقہ بتایا، اسلام نے سکھایا کہ مخلوق کا احترام اور مخلوق کی عظمت اس میں ہے کہ مخلوق کا رشتہ خالق سے قائم ہو اور اس طرح قائم ہو کہ مخلوق خالق کو جانتی ہو اور خالق مخلوق کو جانتا ہو۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ:

’’جب ایک عابد خدا کے ذکر کو اپنا معمول بنا لیتا ہے، رفتہ رفتہ اسے بدی سے نفرت ہو جاتی ہے اور کوئی ترغیب اسے گناہ کی طرف مائل نہیں کر سکتی یہ وہ منزل ہے جہاں اللہ اس کے دل کو اپنی مٹھی میں لے لیتا ہے، اس کی روح ایک زندہ اور پائندہ روح بن جاتی ہے اور جب بندوں کا اللہ سے رابطہ ہو جاتا ہے تو اللہ ہر قدم پر ان کی مدد کرتا ہے۔‘‘

’’اے ایمان والو! تم اللہ کا وہ احسان یاد کرو جب (جنگ احزاب میں چوبیس ہزار) حملہ آوروں نے تم پر ہلہ بول دیا تھا اس وقت ہم نے ان پر تیز آندھی چلائی اور آسمان سے ایسے لشکر اتارے جنہیں تم نہیں دیکھ سکتے تھے، یہ اس لئے کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا تھا اور تم اس کی امداد کے مستحق تھے۔‘‘

(القرآن)

تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے ظہور اسلام کے بعد پانچ سو برس تک ہمیں ہر ہر میدان میں فتح سے نوازا ہم نے جس سمت رخ کیا فتح نے ہمارے قدم چومے اس لئے کہ اللہ ہمارے ساتھ تھا دوسری طرف قیصر و کسریٰ کو ان کا بے اندازہ سامان اور بے شمار فوج اس لئے تباہی سے نہیں بچا سکے کہ وہ اللہ کے لطف و کرم سے محروم ہو چکے تھے۔ اللہ کے لطف و کرم کے دروازے ہمارے اوپر بند ہو گئے ہیں، اگر ہم اپنا محاسبہ کر کے یقین کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے الل کے احکامات اور رسول اللہﷺ کی تعلیمات پر عمل کر کے نیکو کار زندگی کے پابند ہو جائیں تو اللہ کا وعدہ سچا ہے۔

’’جو لوگ اللہ کے لئے جدوجہد کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں، اللہ کی پھیلائی ہوئی نشانیوں پر تفکر کرتے ہیں، اللہ کو اپنا جانتے ہیں، اپنا مانتے ہیں، اللہ کو اپنے قریب محسوس کرتے ہیں، ایسے لوگوں پر اللہ ہدایت کے راستے کھول دیتے ہیں۔‘‘

اور جب ہم ان راستوں پر چل کھڑے ہوں ے جن راستوں کو اللہ نے ہدایت کا راستہ کہا ہے تو وہی شوکت، وہی عظمت ہمیں مل جائے گی جو پانچ سو سال پہلے ہمارے اسلاف کا ورثہ رہا ہے اور اگر ہم خواب خرگوش سے نہ جاگے، نفرتوں میں بٹی قوم صراط مستقیم پر گامزن نہ ہوئی، اللہ کی رسی کو متحد ہو کر مضبوطی سے نہ پکڑا تو ہم تاریک راستوں پر بھٹکتے رہیں گے، غلامی ہمارے اوپر مسلط ہو جائے گی، ہماری نسلیں بے بس ہو جائیں گی اور دوسری قومیں انہیں نگل جائیں گی۔

اسلام کسی ایک شعبے کا نام نہیں ہے، اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اسلام نظام زندگانی میں ایک مرکز ہے، ایک وحدت ہے، ایک یونٹ ہے، ایک روشن شاہراہ ہے، اسلام ایک ایسا دریا ہے جس میں ہدایت کی  شفاف لہریں نکلتی ہیں، یہ لہریں زبان اور دل کے یقین کے ساتھ ’’ایمان‘‘ ہیں مٹی کی سڑاند سے بنے ہوئے اسفل جذبات کو کنٹرول کر کے اعلیٰ جذبات میں داخل ہونا ’’اسلام‘‘ ہے، اللہ کی مخلوق کو آرام پہنچانا، ذی احتیاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا یتیموں پر دست شفقت رکھنا، بیواؤں کی خبر گیری کرنا، پریشان حال لوگوں کو پریشانیوں سے نکال کر آسائش مہیا کرنا مخلوق کے لئے راحت اور آسائش کے وسائل فراہم کرنا ’’اسلام‘‘ ہے۔

عروج و زوال کے اسباب کو تلاش کرنا وحدانیت کو انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی اور مشاہداتی طور پر تسلیم کرنا، اپنے اسلاف کے شعار کی پیروی کرنا اور اجتماعی مفادات کو پوری اسلامی برادری میں پھیلا دینا ’’اسلام‘‘ ہے، اللہ کے مال، اولاد اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا ’’اسلام‘‘ ہے، اللہ کا حکم ہے:

’’اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘  چند ارکان کو اپنا کر باقی احکامات سے بے نیاز ہونا اسلام ہرگز نہیں۔

 


Sada E Jars

خواجہ شمس الدین عظیمی

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔

 

اُس

گونج

کے نام جو

صدائے جرس

کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے