Topics
دو ماہ کا آدمی جب
میکانکی طور پر بارہ سال کا ہوا تو اس نے سمجھا کہ حرکت میں خود کر رہا ہوں۔ اس
حرکت کا نام ’’میں‘‘ رکھا گیا۔ ہر آدمی نے بڑوں سے سنا کہ:
میں بول رہا ہوں،
میں کام کر رہا ہوں،
میں خوش نہیں ہوں لیکن
میں خوش رہنا چاہتا ہوں،
میں تندرست نہیں ہوں لیکن
صحت مند رہنا چاہتا ہوں۔
میں نہیں چاہتا کہ میں
زیور عقل سے آراستہ ہوں مگر سرپرستوں نے پرکھوں کے نقش قدم پر چل کر مجھے سخت سست
کہا، مار پیٹ کر دانش گاہ بھیج دیا۔
بزعم خود۔ پڑھے لکھے۔
’’میں‘‘ کے خول میں بند،
استادوں نے مجھے اپنے پیدائشی تشخص اور بچپن سے دور کر دیا۔
بچپن روٹھ گیا۔
تعلیم و ہنر کا تاج سر پر
سجا،
تاج پوشی اس لئے ہوئی کہ
بے عقلی (معصومیت) سے دستبردار ہو کر میں عقلمند بن گیا۔
معصومیت سے دور ہونے کے
لئے مجھے ہر وہ کام کرنا پڑا جو بے عقلی کے متضاد ہے، ابھی دودھ کے دانت ٹوٹے نہ
تھے کہ ابا نے انگلی پکڑ کر قاعدے پر بنی ہوئی ایک لکیر پر رکھی اور کہا پڑھ
’’الف‘‘ پڑھ ’’ب‘‘ ۔بے عقلی نے بتایا یہ سب دلیل کے بغیر ہے، مفروضہ ہے، کھڑی لکیر
الف اور پڑی لکیر کو ب کہا جارہا ہے، پڑی لکیر ’’الف‘‘ کیوں نہیں اور کھڑی لکیر کو
’’ب‘‘ کیوں نہ پڑھا جائے؟ یہ اس وقت کی بات ہے جب دادی اماں زندہ تھیں، جب لکیر
الف اور ب کا مسئلہ لا حاصل نظر آیا تو ابا جی نے لاٹھی دکھائی رعب دار آواز میں
پوچھا یہ کیا ہے؟ توتلی زبان بولی ’’دادی اماں تی لاتھی اے۔‘‘
پھر چھن کر کے دماغ میں
گونجار ہوئی، دادی اماں کی لاٹھی ’’الف‘‘ ہے ، بے عقل شعور خوف زدہ ہو کر سہم گیا
اور ننھی سی جان نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پڑھا ’’الف‘‘ ’’ب‘‘ اور اس طرح بغدادی
قاعدے کے ۲۸
حروف رٹا دیئے گئے۔ دو کم ستر سال گزر گئے مگر آج بھی یہ عقدہ نہیں کھلا کہ الف، ب
کیوں نہیں اور ب الف کیوں نہیں ہے؟ جب کہ الف ’’الف‘‘ ہے، ب ’’ب‘‘ ہے۔ یہ بات ایک
ایسا سوالیہ نشان ہے کہ دنیا کا کوئی دانشور، کوئی مولوی، کوئی علامہ، کوئی مفتی،
کوئی قاضی اور کوئی سائنٹسٹ اس کا جواب نہیں دیتا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے