Topics
نظام تکوین میں اللہ کے بندے کام کرتے ہیں اور ان بندوں کی معاونت فرشتے کرتے ہیں۔
دراصل یہ وہی بندے ہیں جو اللہ کے ارشاد کے مطابق ’’فی الارض خلیفہ‘‘ ہیں۔ تکوینی
نظام میں اللہ تعالیٰ کے اختیارات استعمال کرنے والے بندوں میں سب سے اعلیٰ عہدہ
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس ہے۔ کسی صوفی نے کیا خوب فرمایا ہے:
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ
مختصر
رب المشرقین و رب
المغربین کے محبوب رحمتہ اللعالمین، باعث تخلیق کائنات، سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام مقام محمود میں اس طرح قیام فرما ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات جب کن کا
مظاہرہ کرتی ہیں تو پہلے تجلیات کا نزول رحمت اللعالمینﷺ کے اوپر ہوتا ہے پھر یہ
جلال تجلی حضورﷺ کی رحمت سے جمال میں تبدیل ہو کر کتاب المبین پر نزول فرماتا ہے۔
یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، اللہ تعالیٰ اور کائنات کے درمیان واسطہ (Medium)
ہیں۔ حضورﷺ نے خود فرمایا:
’’اللہ نے سب سے پہلے
میرا نور تخلیق کیا۔‘‘
موجودہ سائنس تلاش و
جستجو کے اس راستے پر پہنچی ہے کہ پوری کائنات ایک ہی قوت کا مظاہرہ ہے۔ یہ انکشاف
نیا نہیں ہے۔ ہمارے اسلاف میں کتنے ہی لوگ اس بات کو بیان کر چکے ہیں کہ کائنات کے
تمام مظاہر کو ایک ہی توانائی کنٹرول کر رہی ہے اور اس قوت کا براہ راست اللہ
تعالیٰ کے ساتھ ربط ہے۔ قرآن اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
’’اللہ آسمانوں اور زمین
کا نور ہے۔‘‘
ہم مادی سائنس اور اپنے
اسلاف کے علوم کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمارے اوپر حیرت کے باب کھل جاتے
ہیں کہ اب سے تقریباً آٹھ صدی پہلے حضرت شاہ عبدالقادر جیلانیؒ ایک ایسے عظیم
سائنس داں تھے جو فطرت کے قوانین کو جانتے تھے جن کے وجود مسعود سے آفاقی قوانین
کے راز ہائے سر بستہ کا انکشاف ہوا ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادر جیلانیؒ فطرت کے قوانین
کے استعمال کا جو طریقہ بتا گئے ہیں اور انہوں نے ان قوانین کو سمجھنے کی جو راہ
متعین کی ہے وہاں آج کی سائنس کھربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں پہنچ سکتی ہے اور اب
یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ ہر شئے میں برقی مقناطیسی Electromagneticلہریں
موجود ہیں۔ مختلف اشیاء میں یہ لہریں مختلف تناسب اور مقداروں میں کام کرتی ہیں
جبکہ ان لہروں کو ایک بنیادی قوت زندگی مہیا کر رہی ہے۔ یہی لہریں ہیں جو زندگی
اور زندگی کے تمام عوامل و حرکات کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
شیخ محی الدین عبدالقادر
جیلانیؒ نے بتایا ہے کہ زمین اور آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جس کو اللہ کا
نور فیڈ کرتا ہے۔ اگر نوع انسانی کا ذہن مادہ سے ہٹ کر اس روشنی میں مرکوز ہو جائے
تو وہ یہ سمجھنے پر قادر ہو جائے گا کہ انسان کے اندر عظیم الشان ماورائی صلاحیتیں
ذخیرہ کر دی گئی ہیں جن کو استعمال کر کے نہ صرف یہ کہ وہ زمین پر پھیلی ہوئی
اشیاء کو اپنا مطیع و فرمانبردار کر سکتا ہے بلکہ ان کے اندر کام کرنے والی قوتوں
اور لہروں کو حسب منشاء استعمال کر سکتا ہے۔ پوری کائنات اس کے سامنے ایک نقطہ یا
دائرہ بن کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس مقام پر انسان مادی وسائل کا محتاج نہیں رہتا۔
وسائل اس کے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں۔ ہم جب قرآن کی تعلیم اور رسول اللہﷺ کی
سیرت کو دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو سوائے افسوس کے کچھ
حاصل نہیں ہوتا اس لئے کہ قرآن کی حقیقی تعلیم اور مسلمانوں کے عمل میں بہت بڑا
تضاد واقع ہو چکا ہے۔ قرآن جس راہ کا تعین کرتا ہے۔ مسلمان جس راستہ پر چل رہا ہے
یہ دونوں دو ایسی لکیروں کی طرح ہیں جو آپس میں کبھی نہیں ملتیں۔
اللہ نے انسان کو اپنا
نائب بنایا ہے اس کے اندر اپنی صفات کا علم پھونکا ہے اس کو اپنی صورت پر تخلیق
کیا ہے۔ نائب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ اگر ایک مملکت کا صدر اپنے اختیارات کو
استعمال کرنے میں کاغذ قلم کا محتاج نہ ہو تو اس کا نائب اختیارات استعمال کرنے
میں کاغذ قلم کا محتاج ہو۔ اللہ وسائل کی محتاجی کے بغیر حاکم ہے تو اس کا نائب
بھی وسائل کا دست نگر نہیں ہوتا جس طرح خدا نے کن کہہ کر کائنات کو وجود بخشا ہے
خدا کا نائب بھی اپنے ذہن کو حرکت دے کر خدا کی تخلیق میں تصرف کر سکتا ہے۔ کیونکہ
اللہ کا نائب اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام مظاہر ایک ہی ذات
سے ہم رشتہ ہیں۔
مسلمان کے پاس ماورائی
علوم کا جتنا بڑا سرمایہ موجود ہے، وہ اسی مناسبت سے مفلوک الحال ہے۔ مسلمان کے
اسلاف نے اس کے لئے حاکمیت اور تسخیر کائنات کے بڑے بڑے خرانے ترکہ میں چھوڑے ہیں
لیکن یہ وہ بدنصیب قوم ہے جس نے ہیرے کو پتھر کہہ کر پھینک دیا ہے اور اس خزانے سے
مستفیض ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھی ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ مصلحتوں کے پیش نظر
مسلمان کو تفکر کی راہ سے دور ہٹا دیا گیا ہے اور اس کے سامنے ایسی نہج آ گئی ہے
جہاں اس کا ہر عمل کاروبار بن گیا ہے۔ کتنی مضحکہ خیز ہے یہ بات کہ قرآن کائنات پر
ہماری حاکمیت اور سرداری کو تسلیم ر رہا ہے، ہمارے اوپر حاکمیت اور سرداری کے
دروازے کھول رہا ہے اور ہم قرآن کو محض برکت کی کتاب سمجھ کر طاقوں میں سجائے
رکھتے ہیں۔ جب کوئی افتاد پڑتی ہے تو اس کی آیات کی تلاوت کر کے دنیاوی مصائب سے
نجات کی دعائیں مانگتے ہیں مگر اس طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی کہ قرآن میں تفکر
اگر ہمارا اشعار بن جائے اور ہم اس تفکر کے نتیجے میں میدان عمل میں اتر آئیں تو
ساری کائنات پر ہماری سرداری مسلم ہے۔ افسوس کہ ہم ان خزانوں کو نظر انداز کر کے
دوسروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق اللہ نے ہمیں شمس و قمر،
نجوم، ارض و سماوات سب پر حاکم بنا دیا ہے اور اس حاکمیت کو حاصل کرنے کے طریقے
بھی بتائے ہیں۔
لیکن ہم ہیں کہ ہر شعبۂ
زندگی میں دوسروں کے پس خردہ نوالوں کو اپنی زندگی کا حاصل مقصد سمجھ بیٹھے ہیں۔
ہماری زندگی محض دنیا کے حصول تک محدود ہو گئی ہیں۔ ہم اعمال کے ظاہری پہلو کو تو بہت
اہمیت دیتے ہیں مگر باطن میں بہتے ہوئے سمندر میں سے ایک قطرہ آب بھی نہیں پیتے۔
آسمان علم و آگاہی کے خورشید منفرد اور تسخیر کائنات کے فارمولوں کے ماہر شیخ
عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں۔
اے منافقو!
کلام نبوت سنو۔ آخرت کو
دنیا کے عوض فروخت کرنے والو! حق کو مخلوق کے عوض بیچنے والو! فانی کا باقی کے
بدلے کاروبار کرنے والو! تمہارا بیوپار سراسر خسارے کا سودا ہے، تمہارا سرمایہ
تمہیں بربادی کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے۔ افسوس تم پر۔ تم اللہ کے غضب کا ہدف بن
رہے ہو۔۔۔۔۔۔!
خواجہ شمس الدین عظیمی
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں عظیمی صاحب کے سینکڑوں اوراق پر پھیلے ہوئے مستقل کالم " صدائے جرس" کو کتابی شکل میں پیش کرنے کے لئے ڈائجسٹ کے 65سے زائد شماروں کا انتخاب صحیح معنوں میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔
اُس
گونج
کے نام جو
صدائے جرس
کے مطالعے سے انسان میں پیدا ہوتی ہے