Topics
۱۔ پہلے مہاجر حضرت
ابوسلمہؓ تھے۔ ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچے بھی تھے۔ جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا
توان کے سسرال والوں نے ان کے ساتھ بیوی کو جانے نہیں دیا اور حضرت ابوسلمہؓ کے
والدین نے بچہ لے لیا۔ ان کی بیوی نے شوہر اور بچے کی جدائی میں پورا سال رو رو کر
گزار دیا۔ بالآخر ان کے گھر والوں نے انہیں ان کے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی
اور انہوں نے دادا دادی سے بچے کو لیا اور مدینہ پہنچ گئیں۔
۲۔ حضرت صُہیبؓ کی ہجرت
کا کفار مکہ کو جب پتہ چلا تو قریش نے کہا:
’’تم ہمارے پاس آئے تھے تو مفلس تھے۔ یہاں تم
نے مال و دولت کمایا۔ اب تم یہ چاہتے ہوکہ مال اور جان بچا کر یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘
حضرت صہیبؓ نے کہا:
’’اچھا یہ بتاؤ اگر میں اپنا مال چھوڑ دوں،
توتم میرے راستے سے ہٹ جاؤگے؟‘‘
قریش نے کہا:
’’ہاں،ہم تمہیں نہیں روکیں گے۔ ‘‘
لہٰذا حضرت صہیبؓ نے اپنا تما م مال و اسباب ان کے حوالے کردیا ۔
۳۔ مسلمانوں کے لئے ہجرت
آسان نہیں تھی۔ حضرت عیاشؓ ابن ربیعہ نے حضرت عمرؓ اور حضرت ہشامؓ ابن العاص کے
ساتھ ایک مخصوص مقام پر ملاقات کا وعدہ کیا۔ تینوں نے ایک دوسرے کا انتظار کیے
بغیر ایک مقررہ وقت پر روانہ ہونے کامنصوبہ بنایا۔ تاہم حضرت ہشامؓ ابن العاص نہ
آئے۔ ان کے اہل خانہ نے ان کی تیاریوں کو بھانپ لیا اور انہیں جانے سے روکنے کے
لئے ان کے پاؤں میں زنجیریں ڈال دیں۔ ابوجہل ان کے رشتہ دار کے ہمراہ خود مدینے
منورہ گیا۔ انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ حضرت عمر ؓ کا ذہن بدل سکیں گے اس لئے وہ
حضرت عیاشؓ ابن ربیعہ کے پاس گئے اور ان سے کہا: ’’تمہاری والدہ تم سے جدا ہوکر
سخت رنجیدہ ہیں۔ انہوں نے قسم کھائی ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے آپ کو سورج کی
چلچلاتی دھوپ میں جلاتی رہیں گی اور اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کریں گی جب تک تم
واپس نہیں آجاتے۔‘‘
حضرت عمر ؓ کا خیال تھا کہ یہ ایک چال ہے۔ انہوں نے حضرت عیاشؓ ابن
ربیعہ کو ہدایت کی کہ وہ گھر واپس نہ جائیں لیکن حضرت عیاشؓ ابن ربیعہ چونکہ اپنی
والدہ سے بہت محبت کرتے تھے انہوں نے کوئی بات نہیں سنی۔ حضرت عمرؓ کی بات صحیح
تھی کیونکہ جیسے ہی وہ مدینہ منورہ کی حدود سے باہر نکلے دونوں نے حضرت عیاشؓ ابن
ربیعہ پر حملہ کیا۔ انہیں زنجیروں میں جکڑا اور انہیں قیدی بنا کر مکہ مکرمہ لے
آئے۔ انہوں نے حضرت عیاشؓ ابن ربیعہ کو بغیر چھت کے ایک مکان میں قید کردیا۔ جب کہ
ان کے دوست حضرت ہشامؓ بن العاص جوکہ شروع ہی سے مدینہ جانے سے رُک گئے تھے انہیں
بھی اسی طرح قید کردیا گیا۔ ان دونوں نے قید میں ایک لمبا عرصہ گزارا حتیٰ کہ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بذاتِ خود مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے ایک خفیہ مشن ان کی رہائی کے لئے مکہ مکرمہ بھیجا اور وہ مدینہ منورہ
آگئے۔ عازمینِ ہجرت کے ساتھ مشرکین جو سلوک کرتے تھے اس کے یہ چند نمونے ہیں ۔لیکن
مشرکین کو بہت قلق اور رنج ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ ان کی زیادتیوں کے باوجود
مسلمان مال، دولت ، اولاد ، گھربار کی پروا کیے بغیر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے
فرمان پر بلا چوں چرا عمل کرتے ہیں۔
چنانچہ بیعت عقبہ کے صرف دو ماہ بعد مکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام، حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت علیؓ کے علاوہ ایسے مسلمان مکہ میں رہ گئے
تھے جنہیں مشرکین نے زبردستی روک رکھا تھا۔ ان دونوں حضرات حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور
حضرت علی ؓ کوبھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے روک لیاتھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام روانگی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق
ؓ کا رختِ سفر بھی بندھا ہوا تھا۔ لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے فرمایا:
’’تم ابھی مکہ میں قیام کرو، توقع ہے کہ مجھے
بھی اجازت مل جائیگی ۔‘‘
حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا:
’’میرے ماں باپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر
قربان، کیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس کی امید ہے؟‘‘
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:’’ہاں‘‘۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فرمان کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے
مکہ میں ہی قیام فرمایا، ان کے پاس دواونٹنیاں تھیں۔
قریش نے جب دیکھا کہ صحابہ کرامؓ رفتہ رفتہ ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے
ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی آجکل میں جانے والے ہیں تومشورہ کیلئے
دارالندوہ میں سردارانِ قریش جمع ہوئے۔ وہاں پر ابلیس ایک بوڑھے شخص کی صورت میں
آیا۔
لوگوں نے پوچھا: ’’یہ کون صاحب ہیں ؟‘‘
ابلیس نے کہا:’’میں اہلنجد کا ایک شیخ ہوں اور آپ لوگوں کو مشورہ
دینا چاہتا ہوں۔ ‘‘
لوگوں نے کہا،’’بہتر ہے آپ بھی شامل ہوجائیں۔‘‘
چنانچہ اجتماع میں تجاویز پیش کی گئیں اوردیر تک بحث جاری رہی۔ کسی
نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زنجیروں میں جکڑکر قید کرنے اورکسی نے جلا وطن کر
نے کی تجویز پیش کی مگر اس پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر بات اتنی
عمدہ اور بول اتنے میٹھے ہوتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں لوگوں کا دل جیت لیتے
ہیں۔ اس کے بجائے کوئی اور تجویز سوچو۔‘‘یہ تجویز رد ہونے کے بعد ایک اور مجرمانہ تجویزپیش کی گئی۔اس تجویز
سے قریش نے اتفاق کیا ۔ یہ تجویز پیش کرنیوالا ابو جہل تھا۔
ابوجہل نے کہا:
’’ہر قبیلہ سے ایک تندرست و توانا آدمی لیا
جائے ،سب مل کر محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام )پرحملہ کریں اور تلواروں کے پے درپے وار
کر کے ان سے نجات حاصل کرلیں۔ اس طرح محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کا خون کسی ایک
قبیلے کے سر نہیں ہوگا۔ محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے قبیلے کے لوگ اور ان کے
اتحادی پورے عرب سے جنگ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔‘‘یہ سن کر شیخ نجدی بولا اس نے جو مشورہ دیا ہے یہ صحیح تدبیر ہے اس
کے علاوہ اور کوئی طریقہ قابل عمل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ اس رائے پر عمل کرنے کا منصوبہ منظور کر لیا گیا ۔
’’ وہ موقع یاد کرو جب کفار تمہارے خلاف سازش
کر رہے تھے تاکہ تمہیں قید کردیں یا قتل کردیں یانکال باہر کریں اور وہ لوگ تدبیر
کررہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کررہا تھا اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر تدبیر کرنے
والا ہے۔‘‘ ( سورۃ الانفال۔آیت 30)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان