Topics
اس
قبیلہ کو اپنی افرادی کثرت ، اپنے نوجوانوں کی شجاعت و بساطت اور فنون سپہ گری
خصوصاً تیر اندازی میں ان کی بے نظیر مہارت کے باعث تمام عرب قبائل میں ایک ممتاز
مقام حاصل تھا۔ اس وادی میں ایک جگہ کا نام اوطاس تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لشکر
اسلام سے ان کی فیصلہ کن جنگ ہوئی تھی۔ سیرت کی کتابوں میں یہ غزوہ، غزوۂ حنین اور
غزوۂ اوطاس کے نام سے مشہور ہے۔ جب حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے مکہ کو فتح کرلیا اور قبائل قریش کی اکثریت نے اسلام قبول
کرلیا تو جزیرۃ العرب کے بیشتر قبائل بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے
لگے لیکن قبیلہ ہوازن اور قبیلہ ثقیف کا معاملہ اس کے برعکس تھااسلام کا غلبہ دیکھ
کر قبیلہ ہوازن اور قبیلہ ثقیف مضطرب ہوگئے کہ اب ان کی باری ہے لشکر اسلام اب ان
پر حملہ کرے گا اور ان کی ریاست اور حکمرانی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ قبیلہ
ہوازن کے رئیس مالک بن عوف النصری نے اور قبیلہ ثقیف کے امیر کنانہ بن عبدیالیل نے
اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے باہمی مشورے کئے۔ مجلس مشاورت میں دونوں قبیلوں کے اہل
الرائے کو بھی مدعو کیا گیا۔ سب نے اتفاق رائے
سے یہ طے کیا کہ اگر ہم نے کوئی قدم اُٹھانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو مسلمان
ہم پرحملہ کر دیں گے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ وہ پہل کریں ہمیں فوری قدم اُٹھانا
چاہیئے اور مسلمانوں پر حملہ کر دینا چاہیے۔ چنانچہ قبیلہ ہوازن، اور قبیلہ ثقیف
کے تمام لوگ اس مہم میں شرکت کے لئے آمادہ ہوگئے۔ اس غزوے میں
تقریباً بارہ ہزار مسلمان شامل تھے، جبکہ دشمن کی تعداد بیس ہزار تھی۔
مالک بن عوف اس
فوج کا قائد تھا۔ اس کی عمر تیس سال تھی وہ بہت ہی جوشیلا جوان تھا۔ اس نے طے کیا
کہ عورتوں، بچوں اور مویشیوں کو بھی میدان جنگ میں لے جائیں، تاکہ لڑنے والوں کے
ذہن میں رہے کہ شکست کی صورت میں ہمارے اہل و عیال اور مویشی بھی دشمن کے ہاتھ لگ
جائیں گے، اس طرح ہر آدمی مرتے مرجائے گا مگر پیچھے ہٹنے کی نہیں سوچے گا۔ جب
تیاریاں مکمل ہوگئیں تو ہوازن اپنے قبیلے کے ایک ضعیف العمر مشیر درید بن الصمہ کو
بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
میدان جنگ میں
پہنچ کر درید نے پوچھا ۔۔۔’’ یہ بچوں،عورتوں اور جانوروں کی ملی جلی آوازیں کہاں
سے آرہی ہیں؟‘‘
مالک
بن عوف نے بتایا’’یہ ہماری عورتیں، بچے اور مویشی ہیں۔‘‘ ’’ہم ان کو اس لئے ساتھ
لائے ہیں کہ ہر لڑنے والا جان لے کہ اس کی جان و مال اور عزت و آبرو سب کچھ داؤ پر
لگا ہوا ہے۔‘‘’’یہ تو بہت غلط کام کیاہے تم لوگوں نے!‘‘ درید نے کہا
’’کیونکہ جب شکست ہوتی ہے تو بھاگنے والوں کو کوئی شئے نہیں روک سکتی۔ اس لئے میری
بات مانو، عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقامات پر بھیج دو۔ اگر تمہیں فتح ہوگئی تو
خواتین خود ہی تم سے آملیں گی اور اگر شکست ہوگئی تو کم از کم تمہارے اہل و عیال
تو دشمن سے محفوظ رہیں گے۔ ‘‘مالک کو درید کے
مشورے پر سخت غصہ آیا اس نے کہا’’ میں جو فیصلہ کر چکا ہوں،اس پر بہر صورت عمل
کروں گا۔
چھ شوال ۸ ہجری کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام لشکر
کی قیادت کرتے ہوئے حنین کی طرف روانہ ہوئے۔لشکر میں دس ہزار تو وہی خوش نصیب تھے
جو مدینہ سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ آئے تھے اور فتح مکہ میں شامل ہوئے
تھے ۔ دو ہزار کے قریب مکہ کے نو مسلم تھے۔ علاوہ ازیں جو لوگ ابھی تک مشرک تھے ،
ان میں سے بھی اسّی افرادشامل تھے۔
حنین کے قریب پہنچ
کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دشمن کے سازو سامان اور پلان وغیرہ سے آگہی حاصل
کرنے کے لئے حضرت عبداللہ ابی حدرد اسلمیؓ کو بھیجا۔ حضرت عبداللہ ابی حدرد اسلمیؓ
کو کسی نے نہیں پہچانا اور وہ ان میں گھل مل گئے۔ اس طرح انہوں نے تمام ضروری
معلومات حاصل کرلیں اور واپس آکر بتایا کہ وہ لوگ تو عورتوں کے علاوہ ہزاروں کی
تعداد میں مویشی بھی ساتھ لائے ہیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’کل انشاء اللہ یہ تمام چیزیں مالِ
غنیمت کے طورپر مسلمانوں کے قبضے میں ہوں گی۔‘‘
دوسری طرف مالک
ابن عوف نے بھی تین آدمیوں کو معلومات حاصل کرنے کے لئے بھیجا، مگر وہ تینوں جلد
ہی ہانپتے کانپتے واپس چلے آئے خوف سے ان کا برا حال تھا۔
مالک نے ان سے
پوچھا ۔۔۔ !’’ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟‘‘
انہوں نے کہا:
’’ ہم نے گورے چٹے
آدمیوں کو دیکھا، جو سفید گھوڑوں پر سوار تھے۔ انہیں دیکھ کر خوف سے ہم پر لزرہ
طاری ہوگیا۔ ہمارا یہ مشورہ ہے کہ اس جنگ سے باز آجاؤ کیونکہ ہم زمین والوں سے
تولڑ سکتے ہیں ، لیکن آسمانی مخلوق سے لڑنا ہمارے بس سے باہر ہے۔‘‘
یہ
سن کر مالک کو غصہ آگیا اور ان کو ڈانٹتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’تم لوگوں نے یہ کیا
کہانیاں شروع کردیں ہیں۔۔۔!! یہ سب تمہاری بزدلی اور کم ہمتی کا شاخسانہ ہے۔‘‘مالک
کو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر یہ خبر مشہور ہوگئی تو لشکر میں خوف پھیل جائے گا۔ اس
لئے اس نے ان تینوں کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فجر کے بعد اپنے صحابہؓ کو صفیں درست کرنے کا حکم فرمایا اور مختلف
دستوں کے سالاروں کوپرچم تقسیم کئے۔ مہاجرین کا ایک جھنڈا حضرت عمر فاروق ؓ کو
دوسرا حضرت علیؓ ابی طالب کو تیسرا حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کو مرحمت فرمایا۔ قبیلہ
اوس کا جھنڈاحضرت اسیدؓ بن حضیر کو اور خزرج کا جھنڈا حضرت خبابؓ بن منذر کو عطا
فرمایا ۔
جس دن لڑائی ہونی
تھی اس سے پہلی رات مالک ابن عوف نے قبیلہ ہوازن و قبیلہ ثقیف کے ماہر تیر اندازوں
کو مناسب مقامات پر بٹھادیا اور کہا کہ جب جنگ شروع ہوجائے تو تم سب یکبار حملہ
کردینا اور تیروں کی بارش کردینا۔ابتدا میں مسلمانوں کو خاصی کامیابی ہوئی دشمن
پسپا ہونے لگا۔ یہ دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ بعض صحابہؓ نے مسلمانوں کی
کثیر تعداد دیکھ کر کہا ’’آج ہم پر کون غالب آسکتا ہے ۔۔۔؟لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ
بات پسند نہیں آئی۔’’اور حنین کے دن ، جب تمہاری کثرت نے
تمہیں غرور میں مبتلا کر دیا ،مگر یہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آسکی اور زمین باوجود
فراخ ہونے کے تم پر تنگ ہوگئی۔اور تم بھاگ گئے۔‘‘(سورۃ التوبہ ۔آیت 25)
اسلامی لشکر جب
وادی حنین کی طرف پیش قدمی کرتا ہوادشمن کی گھاٹیوں میں پہنچا تو گھاٹیوں میں چھپے
ہوئے دشمن کے تیر اندازوں نے ان پر تیربرسائے۔ بنو سلیم کے نوجوانوں کو اس کا گمان
بھی نہیں تھا۔ان کے قدم اس طرح اکھڑے کہ پھر وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے اور جان
بچانے کیلئے انہوں نے راہ فرار اختیار کرلی۔ ان کے پیچھے اسلامی لشکر کے سپاہی
شکست کھا کر بھاگنے لگے۔ تیر مسلسل برس رہے تھے اور تیر انداز کمین گاہوں میں چھپے
ہوئے اور محفوظ تھے۔ جب دشمن نظر ہی نہ آرہا ہو تو۔۔۔ مقابلہ کس سے کیا جائے اور
کیسے کیا جائے؟مگر اس افراتفری اور ہنگامۂ محشر میں بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
گھوڑے پر سوار مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اوراعلان فرما رہے تھے کہ’’میں
نبی ہوں۔ اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘حضرت عباسؓ نے حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کو یوں تیزی سے آگے بڑھتے دیکھا تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے
گھوڑے کی لگام تھام لی ، حضرت ابو سفیانؓ ابن حرث (حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
چچا زاد بھائی) نے رکاب تھام لی اور دونوں مل کرگھوڑے کو روکنے کی کوشش کرنے لگے،
کیونکہ تیروں کی برسات میں آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام فرمارہے تھے لوگو!’’ میرے پاس آؤ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں ، محمد بن
عبداللہ ہوں۔‘‘
حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آس پاس چند جاں نثارتھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ
دعا فرمائی:
’’یااللہ! آپ ہی تعریف کے لائق ہیں
اور آپ ہی سے مدد طلب کی جاتی ہے۔آپ ازل سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یااللہ! آپ نے
فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا ہے یا اللہ! میں اس کو پورے کرنے کی تمنا رکھتا ہوں۔‘‘
دعا کے بعد حضرت
عباسؓ سے فرمایا
’’کہاں چلے گئے ہیں سب۔۔۔ ذرا انہیں
پکاریئے !‘‘
حضرت عباسؓ کی
آواز نہایت بلند تھی۔ انہوں نے پوری قوت سے پکارا’’اے گروہِ انصار! بیعت کرنے والو!‘‘
یہ
صدا سنتے ہی ہر شخص لبیک لبیک کہتے ہوئے اس آواز کی طرف دوڑا چلا گیا۔ اس طرح
منتشر لشکر چند لمحوں میں پھر سے منظم ہوگیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم
پر دوبارہ دشمنوں پر ٹوٹ پڑا۔ مسلمانوں کے اس حملے سے پانسہ پلٹ گیا اور شکست فتح
میں بدل گئی۔جنگ حنین میں چھ ہزار آدمی گرفتار ہوئے۔ چالیس ہزار بکریاں علاوہ ازیں
چاندی اور دیگر سازو سامان بھی بھاری مقدار میں مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔
اس معرکہ کے دوررس
نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ تھا کہ دیہاتوں میں رہنے والے عرب اور وہ قبائل عرب جو
اس معرکہ کے آخری انجام کا انتظار کر رہے تھے تاکہ اسلام سے متعلق اپنے آخری موقف
کا اعلان کریں ، اُن سب نے ہوازن کی اس بد ترین شکست کے بعد اسلام میں داخل ہونے
کا اعلان کر دیا اور طائف اور اس کے مضافات میں اسلام نہایت تیزی کے ساتھ پھیلنے
لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا علاقہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان