Topics
’’اے ابو زیب کی بیٹی! کیا
یہ وہی سواری ہے؟‘‘
اماں حلیمہؓ نے جواب دیا۔
’’واللہ! سواری تو وہی ہے
سوار بدل گیا ہے‘‘۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر دو سال ہوگئی تو اماں حلیمہؓ حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلا م کو والدہ کے پاس مکہ واپس لے آئیں۔ ان دنوں مکہ میں وبا
پھیلی ہوئی تھی۔ اماں حلیمہؓ نے حضرت آمنہ سے عرض کیا :
’’بہتر ہوگا آپ اپنے بیٹے
کو مزید کچھ عرصہ میرے پاس اور رہنے دیں تاکہ محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام) یہاں کی
وبا سے محفوظ رہیں‘‘۔
حضرت آمنہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو
اماں حلیمہؓؓ کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ ایک روزحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رضاعی
بھائی عبد اللہ کے ساتھ بھیڑیں چرانے گئے ہوئے تھے۔ عبد اللہ دوڑتا ہوااماں حلیمہؓ
ؓ کے پاس آیا اور چلّا کر کہا،
’’اماں جان! جلدی آئیے میرے
قریشی بھائی کو دو اجنبی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ ‘‘
یہ سن کر اماں حلیمہؓ اور ان کے شوہر بھاگ کر چراگاہ پہنچے تو دیکھا
کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہیں اور چہرے کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ اماں حلیمہؓ
فرط محبت سے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لپٹ گئیں۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
بتایا :
’’ سفید لباس پہنے دو اجنبی
شخص میرے پاس آئے۔ انہوں نے مجھے زمین پر لٹا دیا۔ ایک نے میرے پیٹ کو سینے تک چاک
کردیا۔ پھر اس نے میرے سینے سے دل نکالا اور اس میں سے خون کا ایک سیاہ قطرہ نکال
کر پھینک دیا۔ پھر دوسرا شخص آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں چاندی کی طرح پانی سے بھرا
ہوا طشت تھا اس نے میرے دل کو دھو کر سینے میں واپس رکھ دیا اور دل پر مہر لگا کر
پیٹ اور سینے کو سی دیا۔
اماں حلیمہؓ اور انکے شوہر نے حیران ہوکر
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا کیونکہ نہ تو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لباس
پر خون کا کوئی دھبہ تھا اور نہ جسم پر کوئی نشان تھا۔
***
روحانی نقطہء نظر سے ہر انسان میں دو دماغ کام کرتے ہیں۔ جب کوئی بچہ
دنیا میںآتا ہے تو بتدریج اس کے اوپر مادی حواس کا غلبہ ہوجاتا ہے اور مادّی حواس
کا غلبہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ غیب کی چیزیں نہیں دیکھ سکتا۔سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے بچپن کے ان واقعات میں یہ اسرار ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام بچپن میں بھی غیب دیکھتے تھے۔ اس لئے کہ فرشتوں کا نظر آنا، سینہ ء مبارک
کا شق ہونا، قلب مطہر کو طشتری میں رکھنا، اس کو دھونا اور سینۂ مبارک میں رکھ کر
شگاف کو بند کرنا یہ سب غیب ہے۔ اس سارے واقعہ میں یہ بات بڑی فکر طلب ہے کہ اماں
حلیمہ ؓ انکے شوہر اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رضائی بھائی عبداللہ نے جب
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تو سینے کے شق ہونے اور دل باہر نکالنے کے
اثرات موجود نہیں تھے۔ انتہا یہ ہے کہ لباس پر خون کا کوئی داغ دھبہ نہیں تھا۔ اس
کا مطلب یہ ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بچپن میں ماورائی حالت کا مشاہدہ
فرمایا۔
ابولہب اور اس کی بیوی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا چچی تھے۔ جب
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دعوت حق دیتے تو ابولہب مجمع کے پاس جاکر کہتا تھا کہ
اس کی بات نہ سنو یہ مجنوں اور دیوانہ ہے۔ اس کی بیوی امّ جمیل جنگل سے کانٹے دار
لکڑیاں چن چن کر لاتی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے راستے میں ڈال دیتی تھی۔
اس کے بارے میں سورۃ لہب نازل ہوئی۔
’’ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور وہ نامراد ہوا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کچھ کام آیا اور نہ جو اس نے کمایا۔ ضرور وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی جو ایندھن سرپر اٹھائے پھرتی ہے۔ اس کے گلے میں مونج کی رسی ہوگی۔‘‘ (سورۃ الھب)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان