Topics
’’اَللّٰہُمَّ
اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَالْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ۔‘‘
یااللہ !میری مغفرت فرما،اور پھر مجھ پررحم فرمااورمجھے رفیق اعلیٰ
سے ملادے۔
مسلمانوں کو جب علم ہوا کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وصال
ہوگیا تو لوگوں میں کہرام مچ گیا اور سب لوگ بے اختیار ہوکر رونے لگے۔
حضرت عمرؓ نے جب دیکھاکہ لوگ رو رہے ہیں۔تو انہوں نے فرمایا:
’’کیوں روتے ہو ؟‘‘
پھرانہوں نے میان سے اپنی تلوار نکال لی اور بولے !
’’جوکوئی یہ کہے گا سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام انتقال فرماگئے ہیں تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا۔ہمارے رسول علیہ
الصلوٰۃوالسلام فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ کے پاس گئے ہیں اورجلد ہی واپس
آجائیں گے ۔‘‘
یہ مکالمہ جاری تھاکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تشریف لائے اور حضرت عمرؓ
سے مخاطب ہوئے، ’’یا عمرؓ خاموش رہواور اپنی تلوار میان میں رکھ لو۔‘‘
پھر انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرکے کہا:
’’اے لوگو! تم میں سے جوحضرت محمد رسول اللہ
علیہ الصلوٰۃوالسلام کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ حضرت محمد علیہ
الصلوٰۃوالسلام کا وصال ہوگیاہے اور تم میں سے جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا
تھا تو وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے قائم ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گے۔ ‘‘
پھر سورۃ آل عمران کی یہ آیات تلاوت فرمائی:
’’اور محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام )تو ایک
رسول ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے ہیں۔ کیا اگر وہ انتقال کر جائیں یا شہید
ہوجائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤگے؟اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اللہ تعالیٰ کا کچھ
نقصان نہیں کرے گا اور عنقریب اللہ شکر ادا کرنے والوں کو اجر دیں گے۔‘‘(سورۃ آل
عمران۔آیت 144)
قرآن پاک کی ان آیات کوسن کر صحابہ کرامؓ کوحوصلہ ملا اور انہوں نے
محسوس کیا کہ جیسے یہ آیات آج ہی نازل ہوئی ہیں۔حالانکہ یہ آیات تقریباًسات سال
پہلے غزوہ احد میں نازل ہوئی تھیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسد مبارک کوحضور علیہ الصلوٰۃ والسلا
م کی وصیت کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م کے اہلِ بیت نے غسل دیا۔
غسل دینے والوں میں درج ذیل افراد موجود تھے:
۱۔ حضرت علیؓ ۲۔ حضرت عباسؓ اور ان کے
دونوں بیٹے
۳۔ حضرت فضلؓ ۴۔ حضرت قاسمؓ
حضرت علیؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے سینے سے لگاکر غسل دے
رہے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کپڑوں سمیت غسل دیا گیا، کیونکہ حکم یہی
تھا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تین چادروں میں دفنایا گیا۔ دو سفید
کپڑے تھے اور ایک یمنی چادر تھی۔
غسل کے بعد قبر شریف کھودنے کا سوال اٹھا ۔حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے
فرمایا:
’’ میں نے یہ ارشادکئی بار سنا ہے کہ نبی جہاں
وفات پاتے ہیں انہیں اسی جگہ دفن کیاجاتاہے۔‘‘
چنانچہ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں قبر بنانے کافیصلہ ہوا۔جب جنازہ تیار
ہوگیا ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بچھونے کے ارد گرد زمین پر ایک نشان کھینچا
گیااور نشان کے اندر حضرت ابو طلحہؓ نے قبر کھودی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق پہلے اہل بیت نے نماز
جنازہ ادا کی ۔ پھر مردوں نے نماز جنازہ ادا کی،اس کے بعد عورتوں نے اور آخر میں
بچوں نے نماز جنازہ ادا کی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کاجسد مبارک جہاں رکھا تھا،وہاں جگہ تنگ
تھی۔ نماز جنازہ اس طرح ادا کی گئی کہ دس افراد کی جماعت آتی اورنماز جنازہ ادا
کرتی اور چلی جاتی ۔
اس
طرح نماز جنازہ ادا کرنے کی تجویز حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے پیش کی تھی۔ اس کی تائید
علی المرتضیٰؓ نے کی ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نماز جنازہ میں کوئی امام نہیں
تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نماز جنازہ پڑھنے کا کام دن رات جاری رہا اور
منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو تدفین کی گئی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان