Topics
معلم اعظم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چند برسوں کے اندر مدینے میں
ایسا علمی ماحول قائم کیا جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے صحابہؓ کی تربیت اس طرح فرمائی کہ ان کا باطن منور ہوگیا۔
مدینہ میں تشریف آوری کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سب سے
پہلا کام عبادت گاہ کی تعمیر کے سلسلے میں کیا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قبا
پہنچے تو یہاں ایک مسجد بنائی گئی پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بنو نجار کے
علاقے میں پہنچے تو وہاں پر مسجد نبوی کی تعمیر شروع ہوئی۔ اس مسجد کا ایک حصہ
تعلیم گاہ کے طور پر مخصوص کردیا گیا اس مقام کو ہم ’’صُفہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
صفہ پلیٹ فارم، ڈائس یا بلند مقام کو کہتے ہیں یہ مقام اس غرض کے لئے مخصوص کیا
گیا کہ دن کو درسگاہ کا کام کرے اور رات کو ان طالب علموں کی اقامت گاہ یعنی ہاسٹل
کا کام انجام دے سکے۔
یعنی صفہ ایک Residential University تھی، وہاں طلبا کی رہائش اور تعلیم و تربیت کے انتظامات تھے۔ صفہ میں
تعلیم پانے والے طالب علم دو قسم کے تھے کچھ تو وہ تھے جو شہر میں رہتے تھے اور
پڑھ کر چلے جاتے تھے لیکن کچھ ایسے تھے جن کا کوئی گھر نہیں تھا یا پھر وہ دور
دراز ممالک سے اکتساب علم کے لئے آتے تھے ۔
صُفَّہ کا نصاب (Syllabus)
قرآن حکیم تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بہ نفس نفیس تعلیم دیا
کرتے تھے۔ صُفَّہ میں دوسرے صحابہ کرامؓ بھی تعلیم دینے کے لئے مقرر تھے۔ علوم کے
سرچشمہ قرآن حکیم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بے شمار علوم
ہیں۔ قرآن حکیم میں صرف دین و عقائد، عبادات اور متعلقہ اخلاقی چیزوں ہی کاذکر
نہیں ہے بلکہ اس میں تاریخ کابھی ذکر ہے۔ اس میں ان علوم کا بھی ذکر ہے جنہیں ہم
سائنس کا نام دیتے ہیں۔
قاضی ابو بکر بن عربی ؒ اپنی کتاب قانون التاویل میں لکھتے ہیں کہ’’
قرآنی علوم کی تعداد ستتر ہزار چار سو پچاس (77450) ہے۔ ‘‘
مضامین کے اعتبار سے قرآن حکیم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
۱ ۔۔۔ شریعت
۲ ۔۔۔ تاریخ
۳۔۔۔ معاد
شریعت اس امر سے متعلق قوانین ہیں کہ مسلمان اپنی زندگی کیسے گزاریں۔
کاروبار کس طرح کریں۔ والدین اور بیوی بچوں کے حقوق کیسے ادا کریں۔ قوم اور ملک کے
حقوق کیا ہیں۔
مسلمانوں کی معاشرت کیسی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کے پورے
قوانین بیان کیے ہیں۔
تاریخ
قرآن پاک کا ایک حصہ تاریخ ہے۔ جتنے بھی پیغمبران علیہم الصلوٰۃ
السلام تشریف لائے ان کی اقوام اور ادوار کا تذکرہ اس میں شامل ہے۔
*حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے دور میں جادو کا تذکرہ۔
*حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے دور میں
خواب کی زندگی کاخصوصیت کے ساتھ تذکرہ ۔
*حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے دور میں
زمان و مکان سے آزادTimelessness (لازمانیت )کا خصوصیت کے
ساتھ تذکرہ۔
*حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعہ میں Preservation اورRefrigeration
کا مکمل قانون اور فارمولا۔
معاد
قرآن پاک کا تیسرا حصہ معاد سے متعلق ہے۔
* انسان اس دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے کہاں
تھا؟
* اس دنیا میں کیوں آیا؟
* ہر پیدا ہونے والا انسان اس دنیا سے کہاں
چلا جاتا ہے؟
اس Cycle کے
بہت سے ادوار ہیں۔ اگر اس کا مختصراً تذکرہ کیا جائے تو ترتیب یہ بنتی ہے۔
انسان عالم ارواح میں تھا۔
عالم ارواح کے بعد کتاب المبین میں
کتاب المبین کے بعد لوح محفوظ میں
لوح محفوظ کے بعد بیت المعمور میں
بیت المعمور کے بعد عالم برزخ میں
اور
عالم برزخ کے بعد وہ عالم ناسوت میں آگیا۔
عالم ناسوت سے عالم اعراف میں
عالم اعراف سے نفخِ صورمیں
عالم نفح صور سے عالم حشر ونشرمیں
عالم حشر و نشر سے یوم میزان میں (یوم الحساب)
یوم الحساب سے جنت یا دوزخ میں
اور
پھر ابد اور ابدالآبادہے۔
یہ سارے علوم اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے
ہیں۔
مملکت کے حاکم اعلیٰ کی حیثیت سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو
مترجمین کی بھی ضرورت ہوا کرتی تھی، جو دوسری زبانیں جانتے ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے پاس غیر زبانوں میں بھی خطوط آتے تھے جنہیں غیرمسلموں اور بالخصوص
یہودیوں کی مدد سے پڑھوایا جاتا تھا ان خطوط میں بعض معاملات مخفی ہوتے تھے۔ اس
لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ ضرورت محسوس کی کہ قابلِ اعتماد صحابہؓ ان
غیر زبانوں کی تعلیم حاصل کریں۔ حضرت زیدؓ بن ثابت فرماتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’میرے پاس مختلف خطوط آتے رہتے
ہیں اور میں یہ بات پسند نہیں کرتا ہوں کہ ان خطوط کو ہر کوئی پڑھے۔ تو کیا تم
عبرانی زبان کا لکھنا پڑھنا سیکھ سکتے ہو ‘‘ میں نے عرض کیا: ’’جی‘‘(سیکھ سکتا ہوں)
چنانچہ میں نے سترہ دن میں وہ زبان سیکھ لی۔‘‘
(مشکوٰۃ شریف ۔جلد4۔حدیث588)
مؤرخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت زیدؓ بن ثابت نے صرف عبرانی
اور سریانی زبانیں ہی نہیں سیکھی تھیں بلکہ انہیں غیر زبانوں کو جلد سیکھنے میں
مہارت حاصل تھی۔ وہ فارسی، رومی، قبطی اور حبشی زبانیں بھی جانتے تھے اور حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ان زبانوں کی ترجمانی کے فرائض بھی انجام دیتے
تھے، انہوں نے یہ زبانیں ان آزاد کردہ غلاموں سے سیکھی تھیں جو ایسی قوموں سے
متعلق تھے اور مدینہ منورہ میں رہتے تھے۔ حضرت زیدؓ بن ثابت مختلف زبانیں جاننے کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے پاس آنے والے خطوط کے ترجمان تھے اور کاتب وحی بھی تھے۔حضرت عبداللہؓ
بن زبیر کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی بہت سی زبانیں جانتے تھے ۔
عرب میں خطوط پر مہرلگانے کا رواج حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے شروع
ہوا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خط کی صفائی اور وضاحت کا جس قدر لحاظ
تھا، اس کا اندازہ ان چند احادیث سے کیا جاسکتا ہے ،حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد فرمایا ہے:
’’کاغذ کو موڑنے سے پہلے اس کی سیاہی کو ریت
ڈال کر خشک کرلو۔‘‘(کتانی، 1/129)
’’ ’’س‘‘ کے تینوں شوشے برابر لکھا کرو ۔‘‘(کتانی،
1/125)
جنگ بدر کی فتح کے موقع پر قریش کے ستر(70) افراد گرفتار ہوکر آئے۔
ان میں سے کچھ قیدی ایسے بھی تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اس موقع پر ان کا
فدیہ یہ مقرر کیا گیا کہ اگر ان میں ہر قیدی دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا
دے تو وہ رہا کردیا جائے گا۔
مدینہ منورہ میں صفہ واحد درس گاہ نہیں تھی بلکہ یہاں کم از کم نو
مسجدیں خود عہد نبویؐ میں بن گئی تھیں اور ہر مسجد اپنے آس پاس کے محلہ والوں کے لئے درس
گاہ تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد قبا میں وقتاً فوقتاً تشریف لے جاتے اور
وہاں مسجد کی درسگاہ کی نگرانی فرماتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مسجد نبویؐ کے حلقہ ہائے درس کا اکثر
معائنہ کیا رتےتھے۔اگروہاںکوئی بےعنوانی نظرآتی
تو فوراًتدارک فرمادیا کرتے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جب بھی کوئی قبیلہ تعلیم وتربیت کےسلسلےمیں عرض کرتاتوحضورعلیہ
الصلوٰۃوالسلام صحابہ کرامؓ کی جماعت کو ہمراہ بھیجتے تھے ۔رفتہ رفتہ اسلامی مملکت
جو ابتدا میں ایک شہر مدینہ کے کچھ حصہ پر مشتمل تھی، پھیلتی گئ یاورنہ صرف خانہ بدوش بدوی بلکہ شہروںمیں
مستقل طور سے سکونت کرنے والے عربوں نے بھی بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنا شروع کیا۔ نئے دین کے قبول کرنے کا ناگزیر
نتیجہ تھا کہ ایک وسیع تعلیماتی نظام قائم ہو، جو دس لاکھ مربع میل کے رقبے کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔
اسلامی حکومت وسیع رقبے پر مشتمل ہونے کے باوجودقرآن کی تعلیم کی
ضرورتوں سے اچھی طرح عہدہ برآ ہونے لگی تھی۔ کچھ تو مرکز مدینہ سے بڑے بڑے مقامات
پر تربیت یافتہ معلم بھیج دیئے جاتے تھے اور کچھ صوبہ دار گورنر کے فرائض منصبی
میں یہ امر شامل کردیا جاتا تھا کہ وہ اپنے ماتحت علاقے کی تعلیمی ضرورتوں کا
مناسب انتظام کریں۔ یمن کے گورنر عمرو ابن حزم کے نام جو طویل تقرر نامہ یا ہدایت نامہ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایاتھا۔اس میں بھی گورنر کو ہدایت ہے کہ لوگوں کے لئے قرآن حکیم کی تعلیم کا بندوبست
کریں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اوردرسگاہ کے دیگر معلّمین کا طریقۂ تعلیم
نفسیاتی نقطۂ نگاہ سے عمدہ اور مؤثر تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نہایت آسان اور دل نشین انداز میں لوگوں
کو تعلیم دیتے تھے ۔ جو باتیں ضروری اور اہم ہوتی تھیں انہیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تین دفعہ دہراتے تھے تاکہ ایک کم
فہم انسان بھی انہیں اچھی طرح سمجھ سکے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر شخص کو اس کی
صلاحیت اور عقل و دانش کے مطابق تعلیم دیتے تھے۔ بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م
معلّموں کو بار بار یہ ہدایت فرماتے تھے ۔
’’ تم لوگوں سے ان کی ذہنی استطاعت کے مطابق
بات کیا کرو۔‘‘
اسی اصول کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نہایت آسان زبان میں
مختصر گفتگو فرماتے تھے سمجھانے کے لئے اگرمثالوں کی ضرورت ہوتی تھی تو ان سے بھی کام لیتے تھے
اور جو باتیں اہم اور ضروری ہوتی تھیں ان کو بار بار دہراتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محفل میں اکثر جاہل اور عرب
بدو آیا کرتے تھے اور وہ اکثر آداب محفل کا لحاظ کئے بغیر ناشائستہ طور پر گفتگو کرتے تھے اورسوالات کرتے تھے۔ مگرحضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام ان کے سوالات کو نہایت نرمی اور توجہ سے سنتے اور ان کے مزاج اور
ذہنیت کے مطابق تسلی بخش جواب دیتے تھے۔
قرآن کریم اور احادیثِ نبوی میں علم کو خواتین کے لئے بھی اسی قدر
ضروری قرار دیا گیا ہے جس قدر مردوں کے لئے ضروری ہے۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر
فرض ہے۔‘‘
مسجد نبویؐ مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی تعلیمی درسگاہ تھی جہاں حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ کرامؓ کو تعلیم دیتے تھے۔
مسلم خواتین بھی کثیر تعداد میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مجالس
میں حاضر ہوتی تھیں اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تعلیمات سے مستفید ہوتیں تھیں۔ خواتین کو تعلیم دینے میں
حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی ازواج مطہراتؓ بھی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی شریک
رہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ نہ صرف خود
تعلیم حاصل کریں بلکہ دیگر مسلم خواتین کو بھی تعلیم دیں۔
ان تمام سہولتوں کے باوجود مسلم خواتین نے یہ محسوس کیا کہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام سے ہفتہ میں ایک دن صرف خواتین کے لئے مخصوص کرالینا چاہیے چنانچہ ان کی
درخواست پرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ہفتہ میں ایک دن صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے مخصوص کردیا تھا۔ اس دن
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ان کو تعلیم دیتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے امہات المومنینؓ کی تعلیم کے لئے
انتظام فرمایاحضرت شفا ؓ بنت عبداللہ عدویہ سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م نے فرمایا کہ وہ ازواج مطہراتؓ
کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ ، حضرت حفصہؓ اور حضرت اُم سلمہؓ علم حدیث میں یدطولیٰ رکھتی تھیں۔ حج کے ایام
میں پہاڑوں کے دامن میں حضرت عائشہؓ کا خیمہ نصب ہوتا اور دور دراز سے آنے والی خواتین آپؓ سے تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ کو فقہ اور دیگر اسلامی علوم،
نیز ادب، شاعری اور طب میں عبور حاصل تھا۔ قرآن نے بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ازواج پر ایک خصوصی فریضہ عائد کیا کہ وہ دوسروں کو تعلیم دیا کریں۔
’’یا د رکھو اللہ تعالیٰ کی آیات اور حکمت کی
ان باتوں کو جو تمہار ے گھروں میں سنائی جاتی ہیں۔‘‘(سورۃ الاحزاب۔ آیت 34)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فر ما ن ہے :
’’والد کی طرف سے اولاد کے لئے بہترین تحفہ
علم سکھا نا ہے ۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قو م کے نونہا لو ں کی تعلیم و تر بیت
پر بھر پو ر تو جہ دی ۔اگر چہ اسلام سے پہلے بھی مد ینہ منو رہ میں یہو د نے بچو ں
کے اسکو ل قا ئم کر رکھے تھے، جن میں تجر بہ کا راساتذہ متعین تھے ۔ شر بن عبد
الملک السکو نی،ابی قیس بن عبد منا ف بن زہر ہ اور عمر و بن زرارہ المعر وف
’’الکاتب ‘‘ جیسے مشہو ر اسا تذہ تعلیم پر ما مو ر تھے ۔مد ینہ منور ہ میں وا قع 9
مسا جد میں بچو ں کے لئے تعلیمی درسگاہیں تھیں ٗ جن میں قر آن کریم کی تعلیم کے
علاوہ لکھنے کی مشق بھی کر ائی جا تی تھی اور لکھا ئی کی مشق کر نے کے لئے تختی
استعمال کی جا تی تھی ۔
روایت ہے کہ سید ہ ام الد ردا ءؓ تختی لکھا کر تی تھیں ۔
حضرت انس بن مالکؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کی خد مت میں آنے سے
پہلے لکھناپڑھنا جانتے تھے۔ دس سال کی عمر میں ان کی والدہ سیدہ ام سلیمؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی خد مت میں یہ کہتے ہو ئے پیش کیا تھا:’’یہ میرا بیٹا ہے اور یہ لکھنا
پڑھنا جا نتا ہے ۔‘‘
مسلسل دس سا ل تک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خد مت و تر بیت میں
گھر کے ایک فرد کی طرح رہے ۔
حضرت ز ید بن ثا بت فرماتے ہیں کہ’’ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
ہجر ت کر کے مد ینہ منو ر ہ تشریف لائے ۔ اس وقت میری عمر گیا رہ سال تھی ۔ مجھے حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی خد مت میں پیش کیا گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کویہ خو
ش خبر ی بھی سنا ئی گئی کہ اس بچہ کو قرآن حکیم کی سو لہ سورتیں یا د ہیں۔‘‘حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے قر آن کریم سنا اور خو شی کا اظہا ر فر مایا ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیمات سے مسلمان صحرا
نشینوں کی زندگی بدل دی۔ عربوں پر علم و دانش آشکار ہوگئی اور جب مسلمان علم کی تلاش میں صف بستہ
ہوگئے تو انہوں نے علم کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا، جوان کی تحقیقات سے تشنہ رہا ہو۔
ان کی تحقیقات پوری امت مسلمہ کے لئے سبق آموز ہیں اور عبرت انگیز بھی۔ مغربی
ممالک کی لائبریریز آج بھی مسلمان اسلاف کی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ انہوں نے
تحقیق وتلاش کے بعد سائنسی علوم کی بنیاد رکھی۔
عربوں سے پہلے یورپ، ایران،روم، مصر اور ایشیائی ممالک چین ،
ہندوستان اور جاپان وغیرہ میں سائنس کا عمل دخل نہیں تھا۔ علمی تحقیقات کی طرف
رغبت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔قرآن کے علم اور قرآن کے
بتائے ہوئے روشن راستے پر چل کر پچاس سال کی مختصر مدت میں مسلمانوں نے آدھے سے
زیادہ دنیا فتح کرلی تھا۔ قیصر و کسریٰ کی سلطنتیں مسلمانوں کے قدموں پر جھک گئیں۔
قرآنی آیات کے انوار سے روشن دل مسلمانوں نے دنیا میں انقلاب برپا کردیا اور دنیا
کو ایک نئی تہذیب و تمدن سے آراستہ کردیا۔
قرآنی نظریہ کے مطابق مسلم اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں کے ترجمے ہوئے
تو ان تحریروں کو یورپ میں اتنی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی کہ وہاںیونیورسٹیاں قائم
ہوگئیں۔ مختلف علوم سائنس و فلکیات اور ریاضی پر لکھی ہوئی کتابیں چار سو سال تک
وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل رہیں۔ یورپ کے مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ
عرب نہ ہوتے تو یورپ علم کی روشنی سے محروم رہ جاتا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان