Topics
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد ہم پیغمبر بھیجتے
رہے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو واضح معجزے دے کر بھیجا اور ہم نے اس کی روح پاک
کو (جبرائیل) کے ذریعے قوت و تائید عطا کی۔ کیا جب تمہارے پاس پیغمبر ایسے احکام
لے کر آیا جن پر عمل کرنے کو تمہارا دل نہیں چاہتا تو تم نے غرور کو شیوہ (نہیں)
بنالیا؟ پس (پیغمبر کی) ایک جماعت کو جھٹلاتے ہوتو ایک جماعت کو قتل کردیتے ہو اور
کہتے ہو کہ ہمارے دل (قبول حق کے لئے ) غلاف میں ہیں (یہ نہیں) بلکہ ان کے کفر
کرنے پر اللہ نے ان کو ملعون کردیا
ہے، پس بہت تھوڑے سے ہیں جو ایمان لائے ہیں۔‘‘ (سورۃالبقرہ۔آیت87تا88)
’’اور میں تصدیق کرنے والا ہوں تورات کی جو
میرے سامنے ہے اور (اسی لئے آیا ہوں) تاکہ تمہارے لئے بعض وہ چیزیں حلال کردوں جو
تم پر حرام کردی گئی تھیں اور میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی نشانی لے کر آیا
ہوں، پس اللہ تعالیٰ کا خوف کرو اور میری پیروی کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ میرا اور
تمہارا پروردگار ہے، پس اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے، پس جب عیسیٰ نے ان سے
کفر محسوس کیا تو فرمایا اللہ کے لئے کون میرا مددگا ر ہے؟ تو شاگردوں نے جواب دیا
ہم اللہ کے (دین کے) مددگار ہیں۔‘‘
(سورۃ آل عمران۔آیت50تا52)
مخلص اور وفادار حواریوں کی جماعت صادق الایمان اور راسخ الاعتقاد
تھی۔ مگر سادہ لوح غربا پر مشتمل تھی انہوں نے سادگی اور سادہ دلی کے ساتھ عرض
کیا،
’’اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہے، جس کا ثبوت
آپؑ کی ذات اقدس ہے، اللہ تعالیٰ یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ ہمارے لئے غیب سے ایک
دسترخوان نازل کردے تاکہ ہم روزی کمانے کی فکر سے آزاد ہوجائیں اور اطمینان قلب کے
ساتھ دین حق کی دعوت و تبلیغ میں مصروف رہیں۔‘‘
حضرت عیسیٰ ؑ نے انہیں نصیحت کی،
’’بیشک اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے
اپنے آرام کے لئے اللہ تعالیٰ کو آزمانا صحیح نہیں ہے، یہ خیال دل سے نکال دو۔‘‘
حواریوں نے کہا،اللہ تعالیٰ کو آزمانا ہمارا مقصد نہیں ہے ہم تو صرف
یہ چاہتے ہیں کہ خوان کو اللہ تعالیٰ کا تحفہ سمجھ کر زندگی کا سہارا بنالیں اس
طرح ہمارا اللہ پر یقین راسخ ہوجائے گا اور ہم تمہارے پیغام کی تصدیق کرنے والے
ہوجائیں گے۔‘‘
حضرت عیسیٰ ؑ نے ان کا بڑھتا ہوا اصرار دیکھ کر بارگاہ الٰہی میں دعا
کی،
’’یا اللہ! تو ان کے سوال کو پورا کر آسمان
سے ایسا مائدہ (دسترخوان نعمت) نازل فرما کہ وہ ہمارے لئے تیرے غیض و غضب کا مظہر
ثابت نہ ہو بلکہ ہمارے اول و آخر سب کے لئے خوشی کی یادگار بن جائے اور تیرا
’’نشان‘‘ کہلائے اور اسکے ذریعے ہمیں غیبی رزق سے شاد کام کردے، بے شک تو ہی رزق
رساں ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی:
’’تمہاری دعا قبول ہے میں’’خوان نعمت‘‘ ضرور
اتارونگا لیکن یہ واضح نشانی دیکھنے کے بعد اگر کسی نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی
کی تو پھر انکو ایسا ہولناک عذاب دونگا جو کسی اور انسان کو نہیں دیا جائے گا۔اور
دیکھو جب ایسا ہوا تھا کہ حواریوں نے کہا تھا اے عیسیٰ ؑ بن مریم ! کیا تمہارا
پروردگار ایسا کرسکتا ہے کہ آسمان سے تم پر ایک خوان اتارے ، عیسیٰ نے کہا اللہ سے
ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو تو ۔ انہو ں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں
اور ہمارے دل آرام پائیں اور ہم جان لیں کہ تو نے ہمیں سچ بتایا تھا اور اس پر ہم
گواہ ہوجائیں۔ اس پر عیسیٰ بن مریم نے دعا کی، اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر
آسمان سے ایک خوان بھیج دے کہ اس کا آنا ہمارے لئے اور ہمارے اگلے اور پچھلوں سب
کے لئے عید قرار پائے تو تیری طرف سے ایک نشانی ہو، ہمیں روزی دے تو سب سے بہتر
روزی دینے والا ہے ۔ اللہ نے فرمایا میں تمہارے لئے خوان بھیجوں گا لیکن جو شخص اس
کے بعد بھی انکار کرے گا تو میں اسے عذاب دوں گا، ایسا عذاب کہ دنیا میں کسی آدمی
کو ویسا عذاب نہیں دیا جائے گا۔‘‘(سورۃالمائدہ۔آیت112تا115)
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کی دعا قبول فرمائی، لوگوں نے دیکھا کہ
فرشتے آسمان سے خوان لے کر زمین پر اترے، حضرت عیسیٰ ؑ نے دو رکعت نماز شکرانہ ادا
کی، پھر خوان کھولا تو اس میں تلی ہوئی مچھلیاں، تازہ پھل اور روٹیاں تھیں، خوان
کھلتے ہی ایسی نفیس خوشبو مہکی کہ جس نے سب کو مست کردیا۔ حضرت عیسیٰ نے لوگوں کو
کھانے کی دعوت دی، لوگوں نے کہا آپ ؑ ابتدا کریں آپ ؑ نے فرمایا یہ میرے لئے نہیں
ہے تمہاری طلب پر نازل ہوا ہے یہ سن کر سب پریشان ہوگئے کہ کھانا کھانے کا نہ جانے
کیا نتیجہ نکلے۔ آپ ؑ نے یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ، ’’اچھا فقرا، مساکین،
معذوروں اور مریضوں کو بلاؤ یہ ان کا حق ہے۔‘‘
ہزاروں لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا مگر خوان میں کوئی کمی نہیں
آئی۔بتایا جاتا ہے کہ غریب نے کھانا کھایا تو وہ غنی ہوگیا، نابینا نے کھایا تو وہ
بینا ہوگیا، مریض نے کھایا تو صحت مند ہوگیا۔ رات کے وقت کھانا واپس آسمان پر چلا
گیا، جو لوگ خوان نعمت سے محروم ہوگئے تھے انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا ہم بہشت کی
نعمتوں سے محروم رہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوسرے دن پھر ’’خوان نعمت‘‘ لوگوں کے
لئے آیا، کثیر تعداد میں لوگوں نے کھایا، جس کو جو ذائقہ پسند تھا وہ اسے محسوس
ہوا، چالیس دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
براہ راست آسمان سے آنے والے کھانے کے لئے شرط تھی کہ اس کو صرف
فقیر، مسکین اور مریض کھائیں دولت مند اور صحت مند افراد کے لئے ممانعت تھی، چند
روز کے بعد اس حکم کی خلاف ورزی شروع ہوگئی تو یہ حکم آیا کہ سب لوگ اس کو کھائیں
لیکن دوسرے دن کے لئے بچا کر نہ رکھیں کچھ عرصہ بعد لوگوں نے اس حکم کو فراموش
کردیا اور خلاف ورزی شروع کردی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
آسمان سے خوان آنا بند ہوگیا، سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے خلاف
ورزی کرنے والوں کی شکلیں سوَر اور بندروں کی کردی۔
حضرت عیسیٰ ؑ لوگوں کو اللہ کی آیات کے ذریعہ دین حق کی تعلیم دیتے
رہے، اللہ اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان، انبیاء و رَسُل کی تصدیق، آخرت پر ایمان،
ملائکہ پر ایمان، قضاء و قدر پر ایمان، اللہ کے رسولوں اور کتابوں پر ایمان، اخلاق
حسنہ کو اپنانے اور برائیوں سے پرہیز، عبادت کرنے کی ترغیب، دنیا میں انہماک سے
اجتناب اور اللہ کی مخلوق سے محبت کی تلقین کرتے رہے۔ مگر صدیوں سے بغاوت ان کی
گھٹی میں پڑی ہوئی تھی لوگوں نے حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کے حواریوں کی مخالفت کو اپنا
شعار بنالیا۔ دنیاوی جاہ و جلال کے لحاظ سے کمزور اور ناتواں لوگوں کا طبقہ اگر
اخلاص و دیانت کے ساتھ حق کی آواز پر لبیک کہتا تو بنی اسرائیل کا سرکش اور مغرور
حلقہ اللہ کے پیغمبر کی شان میں گستاخی کرتا، توہین، تذلیل و تکذیب کا مظاہرہ
کرتا۔
حضرت عیسیٰ ؑ نے شادی نہیں کی اور گھر بھی نہیں بنایا اور شہر شہر
،گاؤں گاؤں ،اللہ کا پیغام لوگوں کو سناتے اور دین حق کی دعوت دیتے رہے ،رات ہوتی
تو زمین پر سوجاتے ۔آپ ؑ کی ذات اورپاکیزہ طبیعت سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق روحانی
تسکین اور جسمانی شفاپاتی تھی۔آپ ؑ جس جگہ سے گزرتے لوگوں کا ہجوم ہوجاتا اورلوگ
آپؑ سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے تھے۔حضرت عیسیٰ ؑ کی بڑھتی ہوئی
مقبولیت کو مخالفین نے حسد کی نگاہ سے دیکھا،سرداروں فقیہوں ،دانشوروں نے اللہ کے پیغمبر کے خلاف سازشیں شروع کر
دیں ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس طرح ان کو راستے سے ہٹادیں ،بالآخر یہ طے
پایا کہ بادشاہ وقت سے ان کی شکایات کی جائے۔
ان لوگوں نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کیا:
’’عالی جاہ! عیسٰی ؑ حکومت کے لئے خطرہ بن
گیا ہے اگر فوری طور پر اس کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو ہمارے آباؤاجداد کا دین
باقی نہ رہے گا۔ اندیشہ ہے کہ آپ کا اقتدار بھی باقی نہیں رہے گا، اس شخص نے عجیب
و غریب شعبدے دکھا کر عوام کو اپناگرویدہ بنالیا ہے وہ عوام کو اپنے ساتھ ملا کر
بنی اسرائیل کا بادشاہ بننا چاہتا ہے، اس نے لوگوں کے شعور پر غلبہ حاصل کرلیا ہے
ان کی عقل ختم کردی ہے اور دین میں تحریف کررہا ہے، اس فتنہ کا فوری تدارک نہ کیا
گیا تو ملک ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘
کافی بحث و مباحثہ کے بعد پلاطیس نے اجازت دے دی کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ
کو گرفتار کرکے شاہی دربار میں پیش کریں۔ سردار، فقیہہ اور کاہن یہ فرمان حاصل
کرکے بہت خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ طے ہوا کہ کسی خاص وقت کا
انتظار کیا جائے اور حضرت عیسیٰ ؑ کو ایسے وقت گرفتار کیا جائے جب وہ تنہا ہوں
تاکہ ہم عوام کے غیض و غضب سے محفوظ رہیں۔
’’اور اپنے اس قول پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ ؑ
بن مریم پیغمبر خدا کو قتل کردیا حالانکہ انہوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ سولی
پر چڑھایا بلکہ اصل معاملہ ان پر مشتبہ ہوکر رہ گیا۔ اور جو لوگ اس کے قتل کے بارے
میں جھگڑرہے ہیں بلاشبہ وہ اس کی جانب شک میں پڑے ہوئے ہیں، ان کے پاس حقیقت حال
کے بارے میں گمان کی پیروی کے سوا علم کی روشنی نہیں ہے اور انہوں نے عیسیٰ ؑ کو
یقیناًقتل نہیں کیا بلکہ ان کو اللہ نے اپنی جانب اٹھالیا اورا للہ غالب حکمت والا
ہے۔‘‘(سورۃ النساء۔آیت157تا158)
نبی اور رسول کی بعثت کا مقصد رشد و ہدایت، خیر اور فلاح ہے۔ نبی اور
رسول یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اصلاح احوال میں ان کا ذاتی عمل دخل ہے وہ برملا اس
بات کا اعلان فرماتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ من جانب اللہ ہے۔ انبیاء کرام ؑ
اللہ تعالیٰ کی طرف سے سپرد کردہ فرائض کو دلیل و برہان کے ساتھ لوگوں کے سامنے
پیش کرتے ہیں۔ نبی اور رسول اس فرض کو پورا کرتے ہیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے
اُنہیں منتخب اور مامور کیاہے۔معجزہ اس لئے صادر ہوتا ہے کہ لوگوں کے لئے اللہ
تعالیٰ کی ’’حکمت‘‘ سند بن جائے، ہر معجزہ کے پس پردہ نوع انسانی کے لئے اللہ
تعالیٰ کی ربوبیت، حاکمیت اور قدرت کاملہ کا ظہور ہوتا ہے۔
’’اے پیغمبر! جو تم پر نازل کیا گیا ہے تم اس
کو پورا پورا پہنچا دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیاتو منصب رسالت کو ادا نہ کیا۔‘‘(سورۃ
المائدہ۔آیت67)
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں اور رسولوں کی تائید و تقویت کے لئے
معجزات عطا کئے ہیں۔پیغمبروں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم اللہ کی جانب سے فقط نذیر،
مبین بشیر اور ’’رسول و نبی‘‘ ہیں کسی پیغمبر نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ کائنا ت
میں تغیرات پر مامور ہیں۔ ہر پیغمبر نے یہی کہا ہے کہ اللہ کے عطا کردہ اختیارات
سے وہ ایسا کرسکتے ہیں مگر اس وقت جب اللہ تعالیٰ چاہیں۔
’’اور انہوں نے کہا، ہم اس وقت تک ہر گز تیری
بات نہیں مانیں گے کہ تو ہمارے لئے زمین سے چشمہ ابال دے یا تیرے واسطے کھجوروں کا
اور انگوروں کا باغ ہو اور تو اس کے درمیان زمین پھاڑ کر نہریں بہادے یا تو جیسا
گمان کرتا ہے ہمارے اوپر آسمان گرادے۔ یا تو اللہ اور اس کے فرشتوں کو (ہمارے)
مقابل لائے۔ یا تیرے واسطے ایک سونے کا مکان ہو اور یا تو چڑھ جائے آسمان پر اور
ہم تیرے چڑھ جانے کو بھی ہر گز اس وقت تک نہیں تسلیم کریں گے جب تک تو ہمارے پاس
کتاب لے کر نہ آئے کہ اس کو ہم پڑھیں۔ (اے محمدؐ ) کہہ دیجئے پاکی ہے میرے
پروردگار کے لئے میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان ہوں، خدا کا پیغمبر ہوں۔‘‘(سورۃ
بنی اسرائیل۔آیت 90تا93)
’’اور اگر کھول دیں ہم ان پر آسمان کا ایک
دروازہ اور یہ اس پر چڑھنے لگیں تب بھی ضرور یہی کہیں گے کہ اس کے سواکچھ نہیں ہے
کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔‘‘(سورۃ
الحجر۔آیت14تا15)
’’اور اگر یہ ہر قسم کے نشان بھی دیکھ لیں تب
بھی (ضد اور تعصب کی بنا پر )ایمان لانے والے نہیں ہیں۔‘‘(سورۃ الانعام۔آیت25)
’’ اور اللہ تعالیٰ سکھاتے ہیں اس (عیسیٰ ؑ )
کو کتاب حکمت ، تورات اور انجیل اور وہ رسول ہے بنی اسرائیل کی جانب (وہ کہتاہے)
بے شک میں تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی جانب سے’’ نشان ‘‘لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ
میں تمھارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل بناتا ہوں پھر اس میں پھونک دیتا ہوں اور وہ
اللہ کے حکم سے زندہ پرندہ بن جاتا ہے اورپیدائشی اندھے کو بینا کردیتا ہوں اور
سپید داغ کے جزام کو اچھا کردیتا ہوں اور خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتا ہوں
اور تم کو بتادیتا ہوں جو تم کھا کر آتے ہوں اور جو تم گھر میں ذخیرہ رکھ آئے ہوسو
اگر تم حقیقی ایمان رکھتے ہوتوبلاشبہ ان امور میں پوری نشانی ہے اور میں تورات کی
تصدیق کرنے والا ہوں تاکہ بعض ان چیزوں کو جو تم پر حرام ہوگئی ہیں تمھارے لئے
حلال کردوں تمھارے لئے پروردگار ہی کے پاس سے’’ نشان ‘‘لایا ہوں ۔پس تم اللہ سے
ڈرو، میری اطاعت کرو بلاشبہ اللہ میرا اور تمھارا مددگار ہے سو اس کی عبادت کرویہی
سیدھا راستہ ہے۔(سورۃ آل عمران ۔آیت 48تا51)
اور (اے عیسیٰ ؑ ؑ بن مریم! تو میری اس نعمت کو پاکر) جبکہ تو میرے
حکم سے گارے سے پرند کی شکل بنادیتا اور پھر اس میں پھونک دیتا اور وہ میرے حکم سے
زندہ پرند بن جاتا تھا اور جبکہ تم میرے حکم سے پیدائشی اندھے کو بینا اور سپید
داغ کے کوڑھ کو اچھا کردیتا تھا اور جبکہ تو میرے حکم سے مردہ کو زندہ کرکے قبر سے
نکالتا تھا۔(سورۃ المائدہ۔آیت110)
اور اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہہ دیتے
ہیں کہ یہ تو پہلے سے چلا آتا ہوا جادو ہے۔(سورۃ القمر۔آیت2)
قرآن پا ک میں حضرت عیسیٰ ؑ ؑ کے چار معجزات کا تذکرہ ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے حکم
سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔
۲۔ پیدائشی اندھے کو
بینا اور جذامی کو تندرست کرتے تھے۔
۳۔ مٹی سے پرندے بنا کر
اس میں پھونک دیتے تھے اور خدا کے حکم سے اس میں زندگی دوڑ جاتی تھی۔
۴۔ حضرت عیسیٰ ؑ یہ بھی
بتادیا کرتے تھے کہ کس نے کیا کھایا اور خرچ کیا اور گھر میں کیا ذخیرہ محفوظ رکھا
ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ نے منجانب اللہ نبی ہونے کے ثبوت کے لئے معجزات دکھائے
تو لوگوں نے درخواست کی کہ آپؑ ایک چمگادڑ پیدا کریں آپ ؑ نے مٹی سے چمگادڑ بنائی
اور اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی۔چمگادڑ اُڑنے والے پرندوں میں بہت عجیب
پرندہ ہے اور دوسرے پرندوں سے ممتاز ہے کیونکہ وہ بغیر پروں کے اُڑتی ہے، چمگادڑ
کے دانت ہوتے ہیں، چمگادڑ ہنستی ہے بچے دیتی ہے اور اپنے بچوں کو دودھ پلاتی
ہے۔حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے میں طب اپنے عروج پر تھی بڑے بڑے حکماء و طبیب ہر قسم کے
علاج پر دسترس رکھتے تھے مگر وہ برص کا علاج نہیں کرسکتے تھے، چلنے پھرنے سے معذور
ہزاروں مریض حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس آتے تھے اور حضرت عیسیٰ ؑ ان کے پاس چلے جاتے تو
مریض صحت مند ہوجاتے تھے۔
۱۔حضرت ابن عباسؓ سے
روایات ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نے چار افراد کو زندہ کیا ایک عارز نام کا شخص جو آپ ؑ
کا وفادار تھاجب وہ بیمار ہوا اور اس کی حالات نازک ہوگئی تو اس کی بہن نے آپ ؑ کو
اطلاع دی بھجوائی اس کا گھر تین روز کی مسافت پر تھا جب آپ ؑ اس کے گھر پہنچے تو
عارز کو مرے ہوئے تین دن ہو گئے تھے۔آپ ؑ نے اس کی بہن سے کہا مجھے اس کی قبر پر
لے چل،قبر پر جاکر آپ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور عارز زندہ ہوکر قبر سے باہر
آگیاایک مدت تک زندہ رہا اس نے شادی کی اور اولاد کی خوشیاں دیکھیں۔
۲۔ ایک بیوہ بڑھیا کے
بیٹے کا جنازہ جارہا تھا۔ بڑھیا نے آپؑ سے رو رو کر فریاد کی کہ،’’میرا ایک ہی
بیٹا ہے آپ ؑ اللہ کے نبی ہیں میرے بیٹے کو زندہ کردیں۔‘‘ آپ ؑ نے لڑکے کے لئے دعا
کی لڑکا زندہ ہوگیا۔
۳۔ایک لڑکی کا انتقال
ہوگیا حضرت عیسیٰ ؑ نے اس کے لئے دعا کی اور وہ زندہ ہوگئی۔
۴۔سام بن نوح ؑ کی وفات
کو ہزاروں سال گزر گئے تھے لوگوں نے حضرت عیسیٰ ؑ سے عرض کیا کہ سام کو زندہ کریں
۔حضرت عیسیٰ ؑ سام کی قبر پر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی ۔سام
خوف زدہ ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمان ہوا کہ قیامت آگئی ہے اس خوف سے ان کے
سر کے آدھے بال سفید ہوگئے اور وہ حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لے آئے انہوں نے حضرت
عیسیٰ ؑ سے درخواست کی کہ دوبارہ انہیں سکرات موت کی تکلیف نہ ہو تھوڑ ی دیر بعد
سام بن نوح کا انتقال ہوگیا۔
حضرت عیسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کے ان مقرب بندوں میں ہیں جو اللہ تعالیٰ
کے نظام کائنات (Administration)
میں شامل ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ فرماتے ہیں:
مگر جو کوئی اس پانی میں سے پئے گا جو میں اسے دوں گا وہ ابد تک
پیاسا نہ ہوگا بلکہ جو پانی میں اسے دوں گا وہ اس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو
ہمیشہ جاری رہے گا۔(انجیل مقدس: یوحنا۔ باب ۴۔ آیت ۱۵)
اس فرمان پر تفکر کیا جائے تو عقدہ کشائی ہوتی ہے خدا کی بادشاہی میں
پانی اصل جُز ہے کائنات کے اجزائے ترکیبی، عناصر اور تخلیق کے تمام مراحل پانی کے
اوپر قائم ہیں۔ پانی کائنات کے ذرّے ذرّے کو حیات نو عطا کرتا ہے، آسمانی کتابوں
اور قرآن حکیم میں تخلیق کائنات کے مراحل میں بار بار پانی اور مٹی کا تذکرہ کیا
گیا ہے۔
’’اور زمین میں پاس پاس کئی خطّے ہیں اور
انگور کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت جن میں دو شاخے ہیں اور دو شاخے نہیں۔
حالانکہ سب کو ایک پانی دیا جاتا ہے۔ اور ہم بعض پھلوں کو بعض پر ترجیح دیتے ہیں
بیشک جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے ان باتوں میں نشانیاں موجود ہیں۔‘‘(
سورۃ الرعد۔آیت4)
’’وہی ہے جو ڈرانے اور امید دلانے کیلئے (بجلی
کی ) چمک تم کو دکھاتا ہے اور بوجھل بادلوں کو ابھارتا ہے اور گرج اس کی تعریف کے
ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کرتی ہے اور سب
فرشتے اس سے خوف زدہ ہیں۔اور وہی آسمان سے بجلیاں بھیجتا ہے پھر جس
پر چاہتا ہے ان پر گرادیتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہیں حالانکہ
وہ سخت عذاب والا ہے۔‘‘(سورۃ الرعد۔آیت12تا13)
اللہ تعالیٰ مثالیں بیان فرماتے ہیں
’’اس نے آسمان سے پانی برسایا ۔ پھر اپنی
اپنی وسعت کے مطابق نالے بہہ نکلے۔ پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھے جھاگ کو
اُٹھالیا اور اس چیز میں بھی جس کو آگ میں ڈال کر تپاتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ
حق و باطل کی مثال بیان فرماتے ہیں۔ اب جھاگ تو ناکارہ ہوکر چلا جاتا ہے لیکن جو
لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح
مثالیں بیان فرماتے ہیں۔‘‘(سورۃالرعد۔آیت17)
’’اور ہم ہی ہواؤں کو چلاتے ہیں۔جو بادلوں کو
پانی سے باردار کردیتی ہیں پھر ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں۔ پھر ہم وہ پانی تم کو
پلاتے ہیں اور تم لوگوں نے اسکو جمع کرکے نہیں رکھا تھا۔‘‘(سورۃالحجر۔ آیت22)
’’اور وہ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا۔
جس میں تمہارے پینے کا بھی ہے اوراس ہی سے درخت ہیں، جن میں مویشی چراتے ہو۔‘‘ (سورۃ
النحل۔آیت10)
’’اور اسی طرح کھجور اور انگور کے پھلوں سے
کہ تم اسکی شراب بناتے ہو اور عمدہ روزی (سمجھتے) ہو جو لوگ عقل رکھتے ہیں ان کے
لئے ان باتوں میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔‘‘ (سورۃ النحل۔آیت67)
’’اور ہم نے اندازے کے مطابق آسمان سے پانی
اتارا اور پھر اسکو زمین میں ٹھہرائے رکھا اور ہم اس کے (اڑا) لے جانے پر بھی قادر
ہیں اور اسکے ذریعے سے ہم نے تمہارے لئے کھجور وں اور انگوروں کے باغ پیدا کردئیے۔
تمہارے لئے اس میں بہت سے میوے (پیدا کئے) ان میں سے بہت سے تم کھاتے ہو۔‘‘(سورۃ
مومنون۔آیت18تا19)
’’اور ایک درخت جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے
اور کھانے والوں کے لئے روغن اور سالن لے کر اگتا ہے۔‘‘ (سورۃ مومنون۔آیت20)
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادل کو ہانکتا ہے۔ پھر اس کو آپس میں
جوڑتا ہے پھر ان کو تہہ بہ تہہ رکھتا ہے پھر تو بادل کے بیچ میں سے مینہ (بارش) کو
نکلتا ہوا دیکھتا ہے اور آسمانوں میں جو پہاڑ ہیں اولے برساتا ہے۔ تو پھر (وہ اولے)
جس پر چاہتا ہے ڈالتا ہے اور جسے چاہتا ہے روک لیتا ہے، بادل کی بجلی کی چمک گویا
آنکھوں کو اچک کر لے جاتی ہے۔‘‘(سورۃ النور۔آیت43)
’’بھلا آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟
اور آسمانوں سے تم لوگوں کے لئے پانی برسایا پھر پانی کے ذریعے سے ہم نے خوشنما
باغ اگائے، تمہارے بس کی بات تو نہ تھی کہ تم اس کے درختوں کو اُگا سکو کیا اللہ
کے ساتھ کوئی معبود ہے؟ یہ لوگ یونہی کج روی کررہے ہیں۔‘‘(سورۃ النمل۔آیت60)
’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم پانی کو خشک
زمین کی طرف چلاتے ہیں پھر پانی کے ذریعے سے کھیتی کو نکالتے ہیں جس میں ان کے
چوپائے بھی کھاتے ہیں اور یہ خود بھی کھاتے ہیں تو کیا دیکھتے نہیں ہیں؟‘‘(سورۃ
سجدہ۔آیت27)
’’کیا تو نے نظر نہیں کی کہ اللہ نے آسمان سے
پانی اتارا پھر اس کے ذریعے سے ہم نے قسم قسم کے پھل نکالے اور اسی طرح پہاڑوں میں
مختلف رنگوں کے کچھ طبقے ہیں، سفید، سرخ اور کالے سیاہ۔‘‘(سورۃ فاطر۔آیت27)
’’کیا تو نے نظر نہیں کی اللہ نے آسمانوں سے
پانی اتارا پھر زمین میں اسکے چشمے بہائے پھر وہ اس کے ذریعے سے رنگ رنگ کھیتی
نکالتا ہے پھر یہ زوروں پر آتی ہے پھر تو اس کو دیکھتا ہے کہ زرد پڑ گئی پھر اللہ
اس کو چورا چورا کرڈالتا ہے، بے شک اس میں عقل مندوں کے لئے بڑی عبر ت ہے۔‘‘(سورۃ
الزمر۔آیت21)
’’اس نے دو سمندر بنائے جو آپس میں ملتے ہیں
دونوں کے درمیان ایک پردہ رہتا ہے کہ اس سے (ایک دوسرے کی طرف) بڑھ نہیں سکتے۔‘‘(سورۃ
الرحمن۔آیت19تا20)
’’وہ تم پر آسمان کو خوب برساتا ہوا چھوڑے
گا۔اور تمہیں خوب پے در پے مال اور اولاد میں ترقی دے گااور تمہیں باغات دے گا اور
تمہارے لیے نہریں نکال دیتا ہے۔‘‘(سورۃ نوح۔آیت11تا12)
’’اور اس میں اونچے اونچے اٹل پہاڑ بنادئے
اور ہم نے تمہیں میٹھا پانی پلایا۔‘‘ (سورۃ المُرسلٰت۔آیت27)
’’اور ہم نے ہی بادلوں سے زور کا پانی
برسایا۔تاکہ ہم اس کے ذریعے سے غلہ اور ہر طرح کی روئدگی نکالیں۔اور گھنے گھنے باغ
زمین سے نکالے۔‘‘(سورۃ النَّبا۔آیت14تا16)
’’اور اسی نے اس سے پانی اور چارا نکالا۔‘‘ (سورۃ
النّٰزعٰت۔آیت31)
’’پس انسان کوچاہئیے کہ وہ اپنے کھانے کی طرف
دیکھے۔ہم نے اوپر سے پانی برسایا۔ ہم نے ہی زمین کو پھاڑ کر چیرا۔‘‘(سورۃ
عبس۔آیت25تا26)
’’پھر ہم نے اس میں سے غلہ اگایا اور انگور
اور ترکاریاں ہم نے اگائیں اور زیتون اور کھجوریں۔‘‘(سورۃ عبس۔آیت27تا29)
’’اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا۔‘‘(سورۃ
عبس۔آیت30تا31)
’’یہ سب کچھ تمہارا اور تمہارے چوپایوں کے
فائدہ کے لئے ہے۔‘‘(سورۃ عبس۔آیت32)
’’اور اس زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا
دئیے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا۔ پھر زمین میں ہر قسم کی عمدہ چیزیں
اُگائیں۔‘‘(سورۃ لقمان۔آیت10)
حضرت عیسیٰ ؑ فرماتے ہیں۔
’’میں اللہ تعالیٰ کی قربت اور محبت سے اس
قدر مالامال ہوں کہ میری ذات نور کا چشمہ بن گئی ہے۔‘‘
علمائے باطن فرماتے ہیں کہ ہر وجود کے اوپر روشنیوں سے بنا ہوا مرکب یا مفرد جال ہوتا ہے۔ موت واقع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روشنیوں کا غلاف (ج
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان