Topics
سیاسی نظام
اسلامی ریاست کے تین بنیادی اصول ہیں۔
۱۔ اقتدار اعلیٰ
۲۔ رئیس مملکت
۳۔ مجلس شوریٰ
اقتدار اعلیٰ لاطینی لفظ(Suparanus) سے اخذ ہے اس کے معانی برتر و اعلیٰ
(Supereme) کے ہیں۔
اسلامی ریاست میں اقتدار اعلیٰ کامنصب اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے
۔اسلامی نظریہ ریاست میں طاقت کا سرچشمہ اللہ رب العزت کی ذات وحدہ لاشریک ہے
۔سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے الٰہی اقتدار اور حاکمیت کا نظریہ پیش کیااور
اسے اسلامی ریاست میں بتمام وکمال نافذفرمایا ہے۔اسلام کا موقف یہ ہے کہ ہر قسم کی
حاکمیت کا مبدا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ اللہ تعالیٰ تمہارا رب ہے، اسی کی بادشاہت
ہے، کوئی الہٰ اس کے سوا نہیں، پھر تم کدھر پھرے جارہے ہو۔‘‘(سورۃ الزمر۔ آیت 6)
ریاست نبوی ؐمیں اقتدار اعلیٰ اور حاکمیت کے دروبست مالک اللہ تعالیٰ
ہیں۔ خلیفہ الارض حضرت آدم ؑ کی وساطت سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات گرامی
حاکم اعلیٰ کے نائب اور خلیفہ کی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا اسوہ حسنہ شہادت
فراہم کرتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جدوجہدکا محور یہ ہے کہ دنیا میں
کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود کو دوسرے انسانوں سے افضل سمجھے ۔
اقتدار اعلیٰ صرف مالک اور خالق اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔
سیدناحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تمام تر کوشیشیں ریاست میں اللہ
تعالیٰ کے قانون کی برتری کو قائم کرنے کیلئے وقف تھیں اور حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کے قانون کانفاذ ہے ۔
قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م نوع انسانی
کے لئے سرچشمہ ہدایت اورشارح کتاب اللہ ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مہبط وحی اور شارح کتاب ہونے کے باوجود
قانون الٰہی کے قائم کردہ عمل سے اپنے آپ کو کبھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا ۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دیکھا
ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی ذات سے بھی قصاص لیتے تھے۔‘‘(سنن ابن داؤد
،جلد سوم،حدیث 1117)
یہ کسی معمولی کردار کا مظاہرہ نہیں تھابلکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ اسلامی ریاست میں قانون الٰہی کی بالا دستی وحکمرانی
کو پوری قوت کے ساتھ نافذ فرمادیا اور اپنے وقت میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جن
مذہبی،سیاسی اور اجتماعی احکام پر عمل پیرا ہوئے وہ سب آنے والے زمانوں کے لئے
نظیر بن گئے۔
قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں امت مسلمہ کے لئے رسول اللہ علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی اطاعت ضروری اور واجب ہے ۔لیکن یہ عمل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے
ساتھ مشروط ہے۔ اختلاف کی صورت میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ
الصلوٰۃوالسلام کا فیصلہ مانا جائے گا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بحیثیت سربراہ
اسلامی مملکت ریاست کی سب سے زیادہ ذمہ دار شخصیت تھے۔ تمام داخلی وخارجی معاملات
کے نگران اور دینی و مذہبی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی اُمور کے بھی سربراہ
تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃو السلام شارح قانون ، سپہ سالار افواج اور قاضی القضات ہونے
کے ساتھ ساتھ انتظامیہ ، مقنّنہ(قانون سازی) اور عدلیہ تمام شعبوں کے سربراہ تھے۔
شُوریٰ
اسلام میں حاکم قرآن و سنت کا پابند ہوتا ہے، اسے ایمان والوں سے
مشورہ کاپابندبھی کیا گیا ہے۔ سورۃ شُوریٰ میں ان مومنین و صادقین کی تعریف کی گئی ہے جن کے لئے آخرت
کی کامیابی مقدر ہوچکی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ
کرتے ہیں،جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور اگر غصہ
آجائے تو در گزر کر جاتے ہیں جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں۔‘‘(سورہ
شوریٰ ۔آیت37تا 38)
یہ صادق الایمان اور اعلیٰ کردار سے آراستہ افراد ہیں جو اللہ تعالیٰ
کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام کی دعوت کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں اور اپنی ساری
کوششوں کو اتباع میں لگا دیتے ہیں۔ یہ لوگ نماز قائم کرتے ہیں یعنی ان کا تعلق
اپنے خالق کے ساتھ ہوتا ہے، ان کی دوسری نمایاں ترین صفت یہ ہے کہ
’’ ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے
ہیں۔‘‘(سورۃ الشوریٰ۔ آیت 38)
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ملکی، بنیادی مسائل اور اہم معاملات باہمی
مشورے سے طے فرماتے تھے اور بعض اوقات گفتگو صرف مہاجرین و انصار تک محدود رہتی
تھی۔ عام اور اہم معاملات میں بالعموم پہلی صورت اختیار کی جاتی تھی۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے
کہ استصواب رائے کی صورت میں حق رائے دہی کیلئے صرف دو شرائط ہیں۔ اسلام اور
اسلامی شعور۔ اس صورت میں مرد عورتیں، بوڑھے، بچے، شہری دیہاتی اور مسافر سب رائے
دینے کا حق رکھتے تھے۔
حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں :
’’میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے
زیاددہ مشورہ کرنے والا انسان نہیں دیکھا۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکؐ میں شوریٰ
کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً:
۱۔ اذان کے سلسلے میں شوریٰ
کا اجتماع سن 1ھ میں ہوا۔
۲۔ غزوہ بدر کے موقع پر
2ھ میں معرکہ بدر سے متعلق شوریٰ کا انعقاد ہوا۔
۳۔ میدان بدر میں پڑاؤ
کی جگہ کو بھی حضرت خبابؓ بن منذر کے مشورہ سے تبدیل کردیا گیا۔
۴۔ شوریٰ برائے اسیران
بدر 2ھ ۔
۵۔ غزوہ احد سے پہلے 3ھ
میں محاذ جنگ کے تعین کے لئے اجتماعی شوریٰ منعقد ہوا۔
۶۔ غزوہ خندق پر 5ھ
میں جنگ کی تیاریوں کے سلسلے میں مشورہ۔
۷۔ صلح حدیبیہ سے پہلے
دوران سفر 6ھ میں مشاورت کی گئی۔
۸۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے 10ھ میں حضرت معاذ ؓ بن جبل کو والی یمن مقرر کرنے کے لئے شوریٰ طلب
فرمایا۔
عہد نبویؐ میں اگرچہ تمام اختیارات حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی ذات
میں مرکوز تھے، تاہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے نظم و نسق کو چلانے کے لئے مختلف
لوگوں کو مختلف ذمہ داریاں سونپیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بحیثیت حکمران حکومت کے عہدوں پر ایسے
خدا ترس ، باصلاحیت، بے لوث، پاکیزہ کردار اور مخلص افراد کا تقرر کیا جو اسلام کی
روح سے واقف، دین کے مزاج شناس، تجربہ کار اور تربیت یافتہ تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے
یہ بات ذہن نشین کرادی کہ حکومت کے عہدے حصول عزت و دولت اور کسب دنیا کے ذرائع
نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔
ان صاحبان کے عہدوں اور ان کے فرائض کی مختصراً تفصیل یہ ہے:
۱۔ نائبین رسول
علیہ الصلوٰۃوالسلام
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جب مدینہ طیبہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے
تو کسی کو اپنا نائب مقرر فرماتے تھے۔ یہ نائب نماز کے لئے ہوتے تھے اور سربراہ
مملکت کی حیثیت سے نائب وخلیفہ ہوتے تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی غیر
موجودگی میں مدینہ میں مقیم امت مسلمہ کی فلاح وبہبود کے کاموں اور ریاست کے امور
کی نگرانی کے ذمہ دار بھی تھے۔
۲۔ صوبائی منتظم
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مدینہ کی ریاست میں شامل ہونے والے
علاقوں کے انتظام، دیکھ بھال اور لوگوں کے امور کے فیصلوں کے لئے مختلف افسران کا
تقررفرمایا۔
’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سفیروں کو اور
امراکو مقرر فرماتے تھے ۔‘‘(بخاری جلد 2۔ صفحہ1078)
حاکم کو روانہ کرتے و قت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام خصوصی ہدایات بھی
ارشاد فرماتے تھے ۔دس ہجری میں حضرت معاذ ؓ بن جبل کو بالائی یمن اور حضرت
ابوموسیٰ ؓ اشعری کو زیریں یمن کا حاکم بناکر بھیجا تو جاتے وقت ان دونوں کو درج
ذیل ہدایت فرمائی۔
’’لوگوں پر آسانی کرو گے، نرمی کا رویہ
اختیار کرو گے اور سختی نہیں کرو گے، اسلام پر عمل کرنے والوں کو بشارت دیتے رہو
اور ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو جس سے لوگ اسلام سے متنفر ہوجائیں۔‘‘
(بخاری جلد 2 صفحہ 662)
۳۔ دو مشہور
سیاسی و معاشرتی ادارے
عہد جاہلیت کے سماجی اداروں کے ضمن میں ’’عرافہ اور نقابہ‘‘ کا ذکر
ملتا ہے۔ یہ دونوں قدیم ادارے تھے عرب معاشرہ میں ان اداروں کو بہت اہمیت حاصل تھی
۔یہ ادارے حکومت اور عوام میں واسطہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے علاقے کے سیاسی و
سماجی حالات سے حکومت کو آگاہ کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
نے عہد جاہلیت کی تمام چیزوں کو مسترد نہیں فرمایا تھا بلکہ جو ادارے معاشرتی
بہبود کیلئے موزوں تھے انہیں قائم رکھا اور ان کی مزید آبیاری کی۔ ایسے اداروں میں
عرافہ اور نقابہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
عریف ایک چھوٹے حلقے کا نمائندہ ہوتا تھا۔وہ اپنے محلے یا علاقے کے
افراد کے حقوق و فرائض کی نگہبانی کرتا تھا۔ ہر قبیلہ میں دس دس افراد پر ایک عریف
مقرر ہوتا تھا۔ قبیلہ میں ذہین، تجربہ کار اور دیانت دار شخص کا انتخاب کیا جاتا
تھا۔ عہد نبوی میں اس ادارے کے وجود کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ فتح مکہ کے بعد شوال ۸ھ میں جنگ حنین ہوئی۔
اس میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے بہت سے لوگ قید ہوگئے۔ اختتام جنگ کے بعد قبیلہ
ہوازن کے لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے قیدیوں کی
رہائی کے لئے درخواست پیش کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں سے فرمایا کہ
میں ان قیدیوں کو واپس کرنا چاہتا ہوں، تم میں سے جو شخص خوشی سے آزاد کرنا چاہے
تو کرسکتا ہے۔ لوگوں نے کہا ہم بخوشی آزاد کرتے ہیں، مگرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
نے لوگوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم تم میں سے کو ن بخوشی اجازت
دیتا ہے اور کون نہیں، لہٰذا تم لوگ اپنے عریفوں کے ذریعے اس معاملے کو پیش کرو۔
یہ واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے جب ریاست پوری طرح وجود میں آچکی تھی۔
چنانچہ اس واقعہ سے یہ امر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے
اس سیاسی و سماجی ادارے کو باقی رکھا اور ان کے عرفا کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم
کیا۔
عریف کا دائرہ کار محدود ہوتا تھا۔ اس کے برعکس نقیب کی ذمہ داریاں
زیادہ ہوتی تھیں۔ وہ ملکی اور قومی سطح پر نمائندگی کرتا تھا۔ اسلام کی تاریخ میں
بیعت عقبہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس موقع پر اہل مدینہ کے ساتھ ایک معاہدہ طے
پایا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار سے تکمیل بیعت کے بعد فرمایا
تھا۔
تم لوگ اپنے قبیلے میں سے بارہ افراد پیش کرو، جو نقیب کے فرائض
انجام دیں گے، تاکہ اختلاف کی صورت میں یہ لوگ حاکم ہوں۔چنانچہ انہوں نے بارہ
افراد کا انتخاب کیا۔9 خزرج میں تھے اور3 قبیلہ اوس میں سے تھے۔
۱۔ اس شعبے کے تحت
مقدمات و معاملات کے فیصلے لکھے جاتے تھے۔
۲۔ ہر قسم کی دستاویزات
،معاہدہ اور شرائط معاملات کی کتابت ہوتی تھی۔
۳۔ قبیلوں کا ریکارڈ ان
کے چشموں کی تفصیل ،مردم شماری ،عمال اور محصولین
(Tax Payee)کے لئے تحریر ی فرامین
کا اِ جرا ہوتا تھااور قبیلوں کو سرکاری ہدایات بھیجنابھی اسی شعبہ کا کام تھا۔
۴۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام اور عام لوگوں کے ادھار قرض، لین دین کے معاملات اور حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام اور اہل عرب کے مابین خط وکتابت، نیز اموال صدقات اور کھجور کے درختوں سے
آمدنی کا تخمینہ ضبط تحریر میں لانا اسی شعبہ توقیعات کے ذمہ تھا۔
۵۔ حضرت بلالؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سیکرٹری (secretary)اور خزانچی کا درجہ حاصل
تھا۔ حضرت بلالؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام گھریلو امور، قرضوں کی فراہمی
اور ادائیگی کے انتظامات ، مہمانوں کی آسائش اور دیگر متعدد کاموں کی دیکھ بھال
کرتے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلامی ریاست کے دفاع اور اعلائے کلمۃ
الحق کے لئے فوج کے قیام اس کی تنظیم اور اس کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ باقاعدہ
فوجی افسران کا تقرر عمل میں لایا گیا۔فوج کے کمانڈر انچیف اور سربراہ کی حیثیت
خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تھی۔
۶۔ بازاروں کی
نگرانی کرنے والا عملہ
بازاروں اور مارکیٹ کی قیمتوں کے توازن اور استحکام کی ذمہ داری بھی
ریاست پر عائد ہوتی ہے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس ذمہ داری پر نگران مقرر
فرمائے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام احکام دینے کے علاوہ خود بھی بازاروں کا دورہ (Visit) فرماتے اور بے ایمان تاجروں کا
محاسبہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے غلے کے ایک تاجر کی سرزنش
کی جس نے سوکھے غلّے کے نیچے وزن بڑھانے کے لئے گیلا غلّہ چھپا کر رکھا تھا۔ اس
ذمہ داری کو ادا کرنے والے کو ’’المحتسب‘‘(حساب لینے والا) کہا جاتا ہے۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام ان عہدوں پر مامور حاکموں کا بھی محاسبہ فرماتے تھے۔
۷۔ شعبہ تعلقات
خارجہ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعوت اسلام کے لئے مختلف ممالک میں
سفرا کو بھیجا، قیصر و کسریٰ کی جانب سفارتیں روانہ کی گئیں۔
۸۔ شعبہ امور
داخلہ
شعبہ امورداخلہ کے زیر نگرانی درج ذیل ذمہ داریاں تھیں:
الف۔ استقبال و مہمانداری
ب۔ بیماروں کی عیادت
ج۔ جاسوسی اور پولیس کا انتظام
جو لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اپنی نجی یا سرکاری
حیثیت سے حاضر ہوتے تھے ان کے حسبِ حیثیت استقبال اور قیام و طعام کے لئے ایک
منتظم کا باقاعدہ تقرر کیا جاتا تھا۔ استقبال و مہمانداری کے سلسلے میں حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی ذاتی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام افراد
یا وفود کی آمد پر بہ نفس نفیس تشریف لے جاتے تھے ان کی خاطر مدارات میں حصہ لیتے
اورپورے سرکاری اعزاز کے ساتھ استقبال فرماتے تھے۔ کبھی مسجد نبوی میں خیمے نصب
کراکر مہمانوں کو ٹھہرایا جاتاتھا اور میزبانی کے لئے حسب ضرورت مختلف صحابہؓ کو
متعین کردیا جاتاتھا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دور دراز سے آنے والے مہمانوں کی نہ صرف
یہ کہ تواضع فرماتے بلکہ ان کی واپسی کے وقت زادِ سفر اخراجات اور وظائف کا بھی
انتظام فرمایا کرتے تھے۔
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق کی فہرست میں مریض کی عیادت اور
مسلمانوں کے انتقال کی صورت میں تجہیز و تکفین کو بھی شامل فرمایا۔ عیادت کرنے میں
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م نے رنگ ونسل اور مذہب و ملت کے تمام امتیازات کونظر
انداز فرمادیا حتیٰ کہ مشرکین تک کی عیادت کرنے میں کوئی تامل نہیں فرمایا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب بھی کسی مریض کی تیمارداری فرماتے اسے
ہمت وحوصلے کی تلقین کرتے تھے اور دعا فرماتے تھے ’’انشاء اللہ جلدہی اچھے
ہوجاؤگے‘‘۔
کسی مسلمان کا انتقال ہوجاتا تو جنازے میں شرکت فرماتے اور میت کے
پسماندگان کو صبر کی تلقین فرماتے تھے۔
ملک میں امن و امان قائم رکھنے ، نظم و ضبط برقرار رکھنے اور اسے
سیاسی و معاشرتی انتشار سے بچانے کے لئے پولیس کا انتظام کیا گیاتھا۔ قیام مدینہ
کے بالکل آغاز ہی میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منشور مدینہ کے ذریعہ مدینہ کو
حرم قرار دے دیا تھا۔ حرم کا مطلب یہ ہے کہ متعینہ علاقے میں لڑائی جھگڑا، خون
خرابہ، قتل و غارت گری اور بد امنی پھیلانا حرام ہے اور اس طرح مدینہ کو امن و
سلامتی کی دولتِ بے بہا مل گئی۔
لیکن بہرحال امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنے والوں کی تنبیہہ کے
لئے بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے باقاعدہ انتظام فرمایا تھا۔ اس غرض سے نہ
صرف یہ کہ پولیس کا محکمہ موجود تھا ۔ بلکہ خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ذاتی
طور پر اس میں دلچسپی لیتے تھے۔ چنانچہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام خطرے کومحسوس کرکے اسکی تحقیق کیلئے راتوں میں خود بھی گشت فرماتے
تھے۔اس کے علاوہ رات کی پہرہ داری اور چوکیداری کے لئے مدینہ میں ایک ’’صاحب
العسس‘‘ بھی مقرر فرمایاتھا جس کا کام یہ تھا کہ راتوں کو گشت کرے، آواز لگائے اور
مشکوک افراد کا پیچھا کرے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام نے کسی بھی شخص کے ذاتی معاملات
میں تجسس کو منع کیا ہے۔ لیکن سیاسی مصلحت اور معاشرتی ضرورتوں کے تحت تحقیق و
تفتیش اور تلاش و تجسس کی اجازت ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہرحال وقت اور حالات کے تحت مخبری اور
جاسوسی کے ضروری انتظامات فرمائے اور ایک متجسس کا تقرر فرمایا۔ اس عہدے دار کا
کام یہ تھا کہ مخالفین ریاست کی دشمنانہ سرگرمیوں کی اطلاع بہم پہنچائے ۔
ریاست میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے بھرپور کوششیں فرمائیں، اور اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اتنے
کامیاب ہوئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد حکومت میں امن و امان کا مسئلہ
پیدا نہیں ہوا۔
عہد نبویؐ کے اس سیاسی نظام کا یہ مختصر خاکہ ہے جس کی مستحکم
بنیادوں پر آئندہ اسلام کی وسیع ترین اسلامی ریاست وجودمیں آئی۔ جس نے تہذیب و
تمدن کے نئے چراغ روشن کئے،عدل و انصاف کے اعلیٰ معیارات قائم کئے اور دنیا کے
نقشے پر ایک ایسی عظیم ریاست وجود میں آئی جو اپنی مثال آپ ہے۔
جب آدم کو پیدا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا۔۔۔
’’میں دنیا میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘ (سورۃ
البقرہ۔ آیت 30)
نائب کا مطلب ہے کہ ایسا بندہ جو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات
استعمال کرے۔فرشتوں نے یہ بات سن کر اللہ تعالیٰ سے کہا۔۔۔
’’اے ہمارے رب! یہ شخص زمین میں فساد برپا
کرے گا اور زمین میں ہر طرف خون پھیلائے گا۔ اے پروردگار ! ہم تیری تسبیح کرتے ہیں
اور تیری پاک ذات کو یاد کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم
نہیں جانتے۔ ‘‘(سورۃ البقرہ ۔ آیت 30)
اللہ تعالیٰ نے آدم کو کائناتی رموز سکھاکر فرشتوں سے پوچھا ۔۔۔ اگر
تم اس علم سے واقف ہو تو بیان کرو۔ فرشتوں نے کہا کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا
آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔آدم نے علوم بیان کیے تو فرشتوں نے یہ جان لیا کہ اللہ
تعالیٰ نے آدم کوجو علوم سکھادیئے ہیں وہ ہم نہیں جانتے۔اور انہوں نے آدم کی اطاعت
اور فرمانبرداری کو قبول کرلیا۔ سب انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ قرآن کریم میں آپؑ کی
تخلیق اور خلافت کا ذکر علم کے ساتھ ہوا ہے۔ معلم حقیقی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ
السلام کو علم الاسماء عطا کیا تو انسان کا شرف ’’علم‘‘ بن گیا۔اللہ تعالیٰ نے
انسان کو اشرف اس لئے فرمایا ہے کہ سموٰت، زمین اور دونوں کے اندرجو کچھ ہے سب کا
سب انسان کے تابع ہے۔ کائناتی تزئین و آرائش کے روشن وسائل سورج، چاند، ستارے سب
انسان کے محکوم ہیں اور یہ حاکمیت اس علم کی بنیاد پر ہے جو علم اللہ تعالیٰ نے
آدم کو سکھادیا ہے۔
اقرا
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو معلم کے منصب پر ف
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان