Topics
۲۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے بصریٰ کے گورنر کو گرامی نامہ تحریر فرمایا، گورنر کا نام حارث بن ابی
شمر الغسانی تھا، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا کہ تم اسلام قبول
کرلو۔ یہ گرامی نامہ حضرت حارث بن عمیر الازویؓ لے کر گئے۔ جب وہ موتہ کے مقام پر
پہنچے تو قیصر کے ایک رئیس شرجیل بن عمروالغسانی نے پوچھا:
’’آپ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟ کیا آپ
محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے قاصد ہیں؟‘‘
حضرت حارثؓ نے فرمایا:
’’ہاں میں رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کا
قاصد ہوں۔‘‘
یہ سنتے ہی اس نے حضرت حارث ؓ کو رسیوں سے باندھ دیا اور پھر ان کا
سر قلم کردیا ۔
اس زمانے میں قاصد یا سفیر کا قتل ایک بدترین اور ناقابل معافی جرم
تھا اور اس سے قبل کسی نے بھی سفیر کو کبھی قتل نہیں کیا تھا۔ یہ جرم اعلانِ جنگ
سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی اسے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔
جب یہ المناک خبر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سنی تو اُنہیں بہت
دکھ ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے شہید صحابیؓ کا انتقا م لینے کے لئے
تیاری شروع کردی۔ مجاہدین مدینہ طیبہ سے تین میل دور جرف کے مقام پر جمع ہوئے۔
سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں تشریف لائے اور ظہر کی نماز قائم کی۔ نماز کے
بعد صحابہ کرامؓ ؓ سے ارشاد فرمایا:
’’اس لشکر کا سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کو
مقرر کرتا ہوں اگر یہ شہید ہوجائیں تو جعفرؓ بن ابی طالب اس لشکر کی کمان سنبھالیں
گے۔ اگر جعفرؓ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہؓ بن رواحہ مجاہدین کے سپہ سالار ہوں گے
اور اگر یہ بھی راہِ حق میں شہید ہوجائیں تو مسلمان جس کو چاہیں امیر منتخب کرلیں۔ ‘‘
حضرت زیدؓ بن حارثہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آزاد کردہ غلام
تھے۔ حضرت جعفرؓ طیار حضرت علیؓ کے بھائی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاص
مصاحب تھے۔ حضرت عبداللہؓ بن رواحہ معزز انصاری اور مشہور شاعر تھے۔حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے اپنے دست مبارک سے حضرت زیدؓ کو علم عطا فرمایا۔ علم سفید رنگ
کا تھا۔ مجاہدین کو تاکید فرمائی:
’’سب سے پہلے حارثؓ بن عمیر شہید کی قبر پر
حاضری دیں اور لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔ اگر وہ اس دعوت کو قبول
کرلیں تو بہت اچھا ہے اور اگر وہ اسلام کی دعوت قبول نہ کریں تو اللہ تعالیٰ سے
مدد طلب کرتے ہوئے ان سے جنگ کریں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجاہدین اسلام کو رخصت کرتے وقت یہ
ہدایت فرمائی ۔
’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت
کرتا ہوں اور جو مسلمان تمہارے ہم سفر ہیں ان کے ساتھ بھلائی کی تاکید کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اللہ تعالیٰ کے منکر لوگوں کے ساتھ جنگ کرو۔ کسی کو
دھوکا نہ دینا۔ بددیانتی نہ کرنا۔ کسی بچے اور عورت کو قتل نہ کرنا۔ کسی بوڑھے کو
اور خانقاہوں میں گوشہ نشیں رہنے والوں کو قیدنہ کرنا۔ کسی درخت کو نقصان نہ
پہنچانا اورنہ اس کو کاٹنا اور کسی مکان کو منہدم نہ کرنا۔‘‘
جمادی الاول سنہ 8ہجری میں تین ہزار سپاہیوں کی اسلامی فوج موتہ کی
طرف روانہ ہوئی۔ اسلامی فوج نے جب مدینہ طیبہ سے کوچ کیا تو شرجیل بن عمر الغسانی
کو ان کی روانگی کی اطلاع مل گئی تو اس نے بھی جنگ کے لئے ایک لاکھ فوج روانہ
کردی۔اسلام کے جانباز مدینہ طیبہ سے جب ملک شام کے ’’معان‘‘ نامی قصبے میں پہنچے
تو انہیں خبر ملی کہ شرجیل کی فوج کے علاوہ ہرقل بھی ایک لاکھ فوج کے ساتھ
’’بلقاء‘‘ میں خیمہ زن ہوگیاہے۔
جب اسلامی لشکر بلقاء(شام) پہنچا تو رومی لشکر سے آمنا سامنا ہوا اور
دونوں لشکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوگئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا عطا فرمایا
ہوا علم حضرت زیدؓ بن حارثہ کے ہاتھ میں تھا۔ آپؓ کی تلوار موت بن کر دشمنوں کی
صفوں پر قیامت برپاکررہی تھی۔ بالآخر ایک دشمن نے نیزہ حضرت زیدؓ بن حارثہ کے سینے
میں اتار دیا اور حضرت زیدؓ بن حارثہ شہید ہوگئے۔اس سے پہلے کہ اسلام کا پرچم ان
کے ہاتھ سے زمین پر گرتا حضرت جعفرؓ بن ابی طالب آگے بڑھے اور پرچم اُٹھا لیا۔
کفار کے تیر اور تلواروں نے آپ ؓ کو شدید زخمی کردیا۔ لیکن حضرت جعفرؓ آخر دم تک
دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے۔ اسی دوران ایک رومی نے اپنی تلوار سے ان کو شہید
کردیا۔ حضرت عبداللہؓ بن رواحہ تیزی سے آگے بڑھے اور انہوں نے جھنڈا اُٹھالیا۔
یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے۔۔۔اس کے بعد حضرت ثابتؓ بن قیس آگے بڑھے اور اسلام
کے جھنڈے کو اٹھالیا اور بلند آواز میں مجاہدین سے کہا:
’’ اے اسلام کے سرفروشو! اب ایسا آدمی منتخب
کرلو جو اسلامی علم کو بلند رکھ سکے۔‘‘
لوگوں نے کہا:’’ہم تمہیں اپنا علمبردار بناتے ہیں ۔‘‘
حضرت ثابتؓ بن قیس نے کہا:’’میں اس کے لائق نہیں۔‘‘
سامنے حضرت خالدؓ بن ولید کھڑے تھے، حضرت ثابتؓ بن قیس نے حاضرین سے
پوچھا :’’کیا تم خالد ؓ کوقائد لشکر منتخب کرنے پر رضامند ہو؟
سب نے بیک آواز کہا:’’ہم رضامند ہیں۔‘‘
حضرت خالدؓ نے وہ علم پکڑلیا۔ حضرت عبداللہؓ بن رواحہ نے جس وقت جام
شہادت نوش کیا مغرب کا وقت تھا۔ دونوں لشکر اپنی اپنی چھاؤنیوں میں واپس آگئے۔ اگلے
روز حضرت خالد ؓ کی جنگی حکمت عملی سامنے آئی۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے اسلامی لشکر
کی ترتیب بدل دی اور لشکر کی نئے طریقے سے صف بند ی کی۔ میسرہ کے فوجیوں کو میمنہ
پر اور میمنہ کے فوجیوں کو میسرہ پر صف آرا کردیا۔
دشمن کے سپاہی جب آمنے سامنے ہوئے تو دیکھے ہوئے چہروں کے بجائے
انہیں اجنبی چہرے نظر آئے۔ انہوں نے سمجھا کہ اسلامی لشکر میں نئی فوج شامل ہوگئی
ہے۔ یہ خیال آتے ہی دشمن کی فوج کے حوصلے پست ہوگئے۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے دشمن
کی نفسیاتی بے چینی اور اضطراب کو محسوس کرلیا اور دشمن پرحملہ کر دیا۔دشمن کے بے
شمار نوجوان موت کے گھاٹ اترگئے اور بہت سے دشمنوں نے خوفزدہ ہوکر میدان جنگ سے
راہِ فرار اختیار کرلی اور مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا۔
حضرت خالدؓ نے بہادری سے جنگ کی اور وہ مسلمانوں کو کفار کے بے شمار
لشکرکے نرغے سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ دوران جنگ حضرت خالدؓ کے ہاتھ میں نو
تلواریں ٹوٹیں۔ سات دن جنگ جاری رہی۔ فرزندانِ توحید عقابوں کی طرح رومی لشکر پر
جھپٹے اور ان کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔حضرت خالدؓ بن ولید خداداد جنگی صلاحیت کی
بنا پر اسلامی لشکر کو اپنے سے ساٹھ گنا زیادہ دشمنوں کے حصار سے نکالنے میں
کامیاب ہوگئے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میدان جنگ کا حال بتایا
احادیث میں ہے کہ
حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام صحابہ کرامؓ کے ہمراہ مسجد نبویؐ میں
تشریف فرما تھے۔ مقام موتہ اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نظروں کے سامنے کوئی
پردہ حائل نہیں تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام براہِ راست میدان جنگ کا مشاہدہ
فرما رہے تھے۔ گویا خود میدان جنگ میں موجود ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:
’’ اہل حق اور رومیوں کے درمیان جنگ شروع ہے۔
زید ؓ کفار کے ساتھ لڑرہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور وہ شہید ہوگئے۔ اب جعفرؓ معرکہ آزما
ہیں۔۔۔۔۔۔وہ بھی شہادت پاگئے۔ اب عبداللہؓ نے علم اُٹھایا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بھی راہِ
خدا میں نثار ہوگئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے جاں نثاروں کی حالت بتانے کے
بعد غم زدہ ہوئے اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی آنکھیں اشکبار تھیں۔کچھ دیر سکوت
کے بعد پھر ارشاد فرمایا کہ اب خالدؓ نے کمان سنبھال لی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا
بہترین بندہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمادی ہے۔
اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دعا فرمائی:
’’یا اللہ! خالد تیری تلواروں میں سے ایک
تلوار ہے۔ پس تو اسکی مدد فرما۔‘‘
اس روز سے حضرت خالدؓ بن ولید ’’سیف اللہ‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔
مسلمان بڑے اطمینان سے اپنے مرکز مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔
مدینے کے قریب پہنچے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دیگر صحابہ کرامؓ کے ہمراہ خیر
مقدم کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے آئے اور اسلامی لشکر کا استقبال کیا۔ استقبال
کرنے والوں میں جو بچے شامل تھے وہ ایک ہجوم کی طرح آگے آگے دوڑ رہے تھے جبکہ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی سواری پر تشریف لارہے تھے۔ بچوں کی طرف دیکھ کر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ’’ ان بچوں
کو سواریوں پر بٹھادو اور جعفرؓ کے بیٹے کو مجھے دے دو۔‘‘ چنانچہ حضرت جعفرؓ کے
بیٹے عبداللہ بن جعفر ؓ کو خدمتِ اقدس میں پیش کیا گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
نے عبداللہ کو اُٹھا کر اپنے ساتھ سواری پر بٹھالیا۔
جب وہ لشکر سامنے آیا تو کچھ لوگوں نے ان کا استقبال طعنوں سے کیا
’’یا فرار فررتم فی سبیل اللّٰہ‘‘
’’اے بھگوڑو!تم راہِ خدا میں جہاد کرنے سے
بھاگ آئے ہو اس زندگی سے میدان جہاد میں شہید ہونا تمہارے لیے باعث عزت تھا۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ جملے سنے توفوراًارشاد فرمایا:
’’انشاء اللہ یہ بھاگنے والے نہیں ہیں یہ بار
بار حملہ کرنے والے ہیں ۔"
یہ روح پرور ارشاد سن کر مسلمانوں کی پریشانی دور ہوگئی۔
تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ یہی لوگ جو غزوہ موتہ میں رو میوں
کے خلاف اسلامی فوج کا حصہ ہونے کی شکل میں ٹکرائے تھے اور بظاہر اس جنگ کا کوئی
حتمی فتح یا شکست کی صورت میں نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا مگر حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ’’کہ یہ بھاگنے والے نہیں ہیں بلکہ یہ
بار بار حملہ کرنے والے ہیں۔‘‘ کچھ ہی عرصہ کے بعد حرف بحرف سچ ثابت ہوئے اور
مسلمانوں نے قلیل عرصے میں رومیوں اور ایرانیوں کو بڑے بڑے معرکوں میں شکست فاش
دینے کے بعد سارا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل کرلیا اور یوں قیصر و کسریٰ جیسی یہ
عظیم حکومتیں اور ان کے رہنے والے اسلام کے حلقہ بگوش ہوکر دین و دنیا کی بے پناہ
دولت سے سرفراز ہوئے اور اسلام کے لئے ان لوگوں نے بہت سے لازوال کارنامے انجام دیئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان