Topics
دوسری صدی ہجری میں اس خطہ کو خاتم المرسلین علیہ الصلوٰۃوالسلام کی
حیاتِ طیبہ سے روشناس کرانے والے ایک اور صاحبِ قلم حضرت ابو معشرالسندی ؒ کا نام
بھی سر فہرست ہے ۔ ابن ندیم نے ’’الفہرست ‘‘ میں اُن کی کتاب المغازی کا ذکر کیا
ہے جو اگرچہ دستیاب نہیں ہے لیکن اس کے اجزا واقدی کی کتاب المغازی اور ابن سعد کی
کتاب ’’الطبقات‘‘ میں محفوظ ہیں۔تیسری صدی ہجری کے وسط میں اس خطہ زمین کے ایک اور
شخص ابو جعفر الدیبلی نے ’’مکاتیب النبی ؐ ‘‘ مرتب کی جو سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کا واحد نسخہ مراکش کے شہر فاس میں موجود
ہے۔
ساتویں صدی ہجری میں علم حدیث پر لکھی گئی امام حسن صنعائی لاہوری (۶۵۰ھ) کی کتاب ’’مشارق
الانوارالنبویہ من صحاح الاخبارالمصطفویہ‘‘ نے اس قدر شہرت و مقبولیت حاصل کی کہ
ہندوستان میں ایک عرصہ تک فقط یہی کتاب رائج تھی جس کی ڈھائی ہزار سے زیادہ شرح و
حواشی لکھے گئے۔آٹھویں صدی ہجری میں سیرت پاک کے حوالہ سے جس کتاب کا تذکرہ اس دور
میں ملتا ہے وہ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ (۷۲۱ تا ۸۲۵ ہجری)کی کتاب’’رسالہ سیرت
النبیؐ ‘‘ ہے ۔ خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ کی تصنیفات کی تعداد کم وبیش ۱۰۵ بتائی جاتی ہے۔
مغل بادشاہ اکبرِ اعظم کے دربار سے منسلک عالم مخدوم الملک عبداﷲ
سلطان پوری (م۹۰۰ھ) نے سیرت پر ایک کتاب
’’شرح اعلی الشمائل النبیؐ ‘‘ لکھی جو کہ امام ترمذی کی کتاب ’’شمائل النبیؐ ‘‘ کی
شرح ہے ۔ اسی طرح مجدد الف ثانی کے استاد شیخ یعقوب بن حسن صرفی کے سیرت النبی ؐ
پر ایک منظوم رسالہ ’’ مغازی النبوۃ‘‘ کا تذکرہ بھی کتابوں میں ملتا ہے۔گیارہویں
صدی ہجری میں شیخ محمد بن فضل اﷲ بربان پوری نے ’’التحفتہ المرسلہ الی النبیؐ ‘‘
لکھی جبکہ مجدد الف ثانی (۹۷۱ تا ۱۰۳۴ ھ) نے ’’اثبات النبوۃ
اور ’’تہلیلہ‘‘ کے نام سے دو عربی رسائل لکھے۔ جن میں نبوت کے اثبات اور نبوت و
معجزہ کے بارے میں بحث ہے اور کلمہ طیبہ کی تشریح تصوف کے رنگ میں کی گئی ہے۔
گیارہویں صدی ہجری کی سب سے اہم کتاب ’’مدارج النبوۃ‘‘ ہے ۔جو شیح
عبد الحق محدث دہلویؒ (۹۸۵تا ۱۰۵۲ ھ)کی تصنیف ہے۔ یہ
فارسی زبان میں۱۲۰۰ سے زائد صفحات پر
مشتمل کتاب ہے جس میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مبارکؐ کے ہر گوشہ
پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
شاہ ولی اﷲؒ نے بھی سیرتِ طیبہ پر ایک مختصر رسالہ ’’سرورالمخزون‘‘
فارسی زبان میں تحریر کیا ہے جس کے کئی اردو ترجمے’’گوہرِ مخزون‘‘، ’’سیرۃ رسولؐ
‘‘ اور ’’سید المرسلینؐ ‘‘ کے نام سے ہوچکے ہیں۔
۱۔ شاہ ولی ؒ اللہ
حضرت شاہ ولی ؒ اللہ کا شجرہ نسب حضرت ابو بکر صدیق ؓ تک پہنچتا ہے ۔
آپؒ کے بزرگ عرب سے نقل وطن کرکے ہندوستان آگئے تھے اور یہاں خاندان کے بیش تر
افرد کا پیشہ سپہ گری تھا۔شاہ ولی ؒ اللہ کے دادا کا نام شاہ وجہیہ الدین تھا۔وہ
اورنگزیب عالمگیر کی فوج میں افسری کے عہدے پر مامور تھے۔مگر شاہ ولی ؒ اللہ کے
والد شاہ عبدا لرحیم کی طبیعت سپہ گری کی طرف مائل نہیں ہوئی ۔ آپ کو تصنیف وتالیف
کا شوق تھا۔شاہ عبدالرحیم کا رحجان تصوف کی طرف زیادہ تھا۔شاہ عبدالرحیم نے
ہندوستان میں دینی علم پھیلانے کیلئے مدرسہ رحیمیہ کے نام سے ایک درس گاہ قائم کی
جس میں آپ خود بھی درس دیتے تھے۔شاہ ولی ؒ اللہ فرماتے ہیں کہ والدصاحب نے مجھے
حکمت عملی ،آداب مجلس اور تہذیب و دانش مندی کی باتیں سکھائیں۔
شاہ ولی ؒ اللہ نے اپنی طالب علمی کا ابتدائی زمانہ اپنے والد شاہ
عبدالرحیم کی نگرانی اور تربیت میں گزارا۔انہوں نے آپ ؒ کو قرآن حکیم اور حدیث
شریف کی تعلیم دینے میں اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کی ۔شاہ ولی ؒ اللہ اپنے بچپن
کے حالات لکھتے ہیں’’میں پانچ برس کی عمر میں مدرسہ میں داخل ہوا۔ساتویں برس میں
والد نے مجھے نماز پر کھڑا کیا اور روزے رکھنے کا حکم دیااور اسی سال میں نے قرآن
حکیم ختم کرلیا۔‘‘دس سال کی عمر تک آپؒ
نے شرح ملا پڑھ لی تھی۔جب بڑے ہوئے تو شادی ہوگئی۔اس وقت تک آپ نے قرآن حکیم حدیث
شریف ،فلسفہ،فقہ اور طب کی تعلیم مکمل کرلی تھی پھر آپؒ کومدرسہ رحیمیہ کے اساتذہ
میں شامل کر لیا گیا۔شاہ ولی ؒ اللہ فرماتے ہیں کہ’’جب میں سترہ برس کا ہوا تو
میرے والد نے مجھے تدریس کے کام پر لگایا اور میں آئندہ بارہ برس تک یہی کام کرتا
رہا ۔۔‘‘
شاہ ولی ؒ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں حج
بیت اللہ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ مبارک کی زیارت کروں۔اس خواہش کو
پورا کرنے کے لئے آپؒ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کاسفر کیا ۔آپؒ نے وہاں کم و
بیش دو سال قیام کیا اس دوران آپؒ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں علماکرام سے
ملاقات کی اور ان سے فیض حاصل کیا۔
جن دنوں شاہ ولیؒ اللہ نے مکہ معظمہ میں قیام کیا تھا ایک رات حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دیدار مبارک سے مشرف ہوئے اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے
فرمایا کہ تم سے ہند کے مسلمانوں کو دینی فائدہ ہوگا ۔ان دنوں ہندوستان میں حالات
ابتر تھے اس لئے آپؒ کے بعض رشتہ داروں نے آپ ؒ کو اس مضمون کے خط لکھے کہ یہاں
سیاسی اور معاشرتی خرابیوں کی وجہ سے شرفاء کو عزت کی زندگی بسر کرنا دو بھر ہوگیا
ہے آپ ؒ واپس نہ آئیں۔مگر بشارت نبوی علیہ الصلوٰۃوالسلام ملنے کے بعد آپ نے فیصلہ
کر لیا کہ آپؒ ہندوستان واپس آکر یہاں کے مسلمانوں کی تنظیم کریں گے ۔ آپؒ کو اس
بات کا یقین تھا کہ آپؒ کی زندگی کا مشن ہندوستان کے مسلمانوں کی تنظیم ہے اور جس
مقام سے آپ ؒ اپنا پیغام سارے ملک میں پھیلاسکتے ہیں وہ دہلی ہے۔
9جولائی1733ء کو ہندوستان واپس آ گئے ۔یہاں آتے ہی شاہ ولی ؒ اللہ نے اپنے
والدکے قائم کئے ہوے مدرسۂ رحیمیہ میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مدرسہ رحیمیہ ایک مختصر سے
پرانے مکان میں تھا ،جب آپؒ نے درس دینا شروع کیا تو چند روزمیں سارے ملک میں آپ
کے علم وفضل کا چرچاہونے لگا اور دور دور سے طلبہ دہلی آنا شروع ہوگئے جس کی وجہ
سے جگہ کم پڑ گئی۔
شاہ ولی ؒ اللہ کے بارے میں آپکے نامور فرزند حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ
نے لکھا ہے کہ سالہا سال کا پرانا اور موروثی طریقۂ تدریس بالکل ترک کر دیا تھا
،اب آپؒ خود نہیں پڑھاتے تھے بلکہ ہر فن کیلئے الگ الگ استاد مقرر کر لئے تھے اور
خود کو تصوف اور سیرت النبی ؐ پڑھانے کے لئے مخصوص کرلیا تھا۔
شاہ ولی ؒ اللہ اپنی مشہور کتابوں ’’حجتہ اللہ البالغہ، فیوض الحرمین
اوردرثمین‘‘ میں ایک خواب کا ذکر کرتے ہیں۔
’’میں نے خواب دیکھا کہ حضرت حسنؓ اورحضرت
حسینؓ میرے گھر تشریف لائے ہیں۔حضرت حسنؓ کے دست مبارک میں ایک قلم ہے جس کی نوک
ٹوٹی ہوئی ہے ۔فرمایا کہ یہ قلم میرے نانا کا ہے پہلے حضرت حسینؓ اسے درست کرلیں
پھر دونگا۔حضرت حسینؓ قلم کوجیسا درست کر سکتے ہیں کوئی اور نہیں کرسکتا ۔حضرت
حسینؓ نے قلم لے لیا اور اسے درست کر دیا ۔میں وہ قلم لے کر بہت خوش ہوا ۔پھر ایک
چادر پیش کی گئی جس پر دھاریاں تھیں ۔ ایک دھاری سبز اس سے اگلی سفید ۔ پھر حضرت
حسینؓ نے اس چادر کواٹھایا اور فرمایا کہ یہ چادر میرے نانا کی ہے اور یہ چادرمجھے
اوڑھادی ۔میں نے تعظیماً اس کو اپنے سر پر رکھ لیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر اد ا
کیا ۔‘‘
شاہ ولی ؒ اللہ نے ’’درثمین ‘‘میں یہ خواب درج کرنے کے بعد لکھا ہے
’’کہ اس دن سے میرا سینہ روحانی علوم کی تصنیف کے لئے کھل گیا۔‘‘
شاہ ولی ؒ اللہ کے حجاز سے ہندوستان واپس آنے کے ٹھیک چار سال بعد
نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور اس کی فاتح فوج دہلی پہنچ کر کئی دن تک اس
شہر کو تاراج کرتی رہی ۔شاہ ولی ؒ اللہ نے اس درد انگیز صور تحال کے اسباب تلاش
کرنے شروع کر دیئے اور جب یہ اسباب معلوم کرلئے تو ان کے تدارک کے لئے وہ تدبیریں
سوچیں جن پر عمل کرنے سے ہندوستانی مسلمانوں کی روحانی اور مادی اصلاح ممکن تھی۔ان
میں سے پہلی تدبیر یہ تھی کہ عام مسلمانوں کی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے سانچے
میں ڈھالا جائے ۔
شاہ ولی ؒ اللہ پہلے ہندوستانی مسلمان ہیں جنہوں نے کوشش کی کہ قرآن
کو لوگ اپنی زبان فارسی میں سمجھیں لہٰذاشاہ ولی ؒ اللہ نے قرآن کریم کا ترجمہ
فارسی زبان میں کیا ۔ اس ترجمے کا نام آپؒ نے ’’فتح الرحمان‘‘ رکھا اور ترجمے کے
ساتھ ساتھ مختصر الفاظ میں تشریح بھی کی۔
حضور قلندر بابا اولیاء ؒ شاہ ولی ؒ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
شاہ ولی ؒ اللہ نے قرآن کریم کا فارسی ترجمہ کیا تو ہندوستان کے
مذہبی دانشور ان کے خلاف ہوگئے ۔محروم اور زوال پزیر قوم نے ان کے خلاف قتل کی
سازش کی ۔ایک روزعصر کا وقت تھا۔دہلی کی مسجد فتح پوری میں عصر کی جماعت کھڑی
ہوگئی تھی۔جیسے ہی امام نے نیت باندھی مسجد کے باہر ایک شور بلند ہوا۔لوگ چیخ رہے
تھے اورکہہ رہے تھے۔’’ اس شخص کو مار دو‘‘بہت سے نمازیوں نے نیت توڑ دی اور یہ
دیکھنے کے لئے باہر نکل آئے کہ کیا ہورہا ہے اور یہ لوگ کون ہیں۔بہت سے لوگ
لاٹھیاں گھمارہے تھے۔کچھ لوگوں کے پاس خنجر تھے۔کچھ کے پاس تلواریں تھیں،کچھ لوگ
نہتیّ بھی تھے اور سب نعرے لگارہے تھے۔
’’ مار دو۔۔۔قتل کردو۔۔۔ٹکڑے اڑادو۔‘‘
شاہ
ولی ؒ اللہ جو ان لوگوں کا ہدف تھے۔اطمینان سے نماز ادا کررہے تھے۔آپؒ نے پوری نما
ز بلاخوف و خطرادا کرنے کے بعد چاروں طرف دیکھا۔آپؒ کے معتقدین برابر یہ کہہ رہے
تھے کہ: ’’ نکل چلئے،یہ لوگ دشمن ہیں۔خدا نہ کرے کیا کرجائیں۔آپ ؒ چھوٹے دروازے سے
نکل جائیے۔‘‘
شاہ
ولی ؒ اللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔
’’کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے گھر کو مقتل بنانا چاہتے ہیں۔اگر ہمار ا
وقت نہیں آیا ہے تو کوئی ہمارا با ل تک بیکا نہیں کرسکتا اور اگر وقت آگیا ہے تو
ہر شخص کو جانا ہے۔’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘
شور
بلند ہوا !
’’ پکڑ لو ، جانے نہ پائے، بچ کر نہ جائے، اس نے ہمارے دین کو خراب کیا
ہے، اس نے دین میں پیوند کاری کی ہے، اس کے ساتھی بھی اس سزا کے مستحق ہیں...یہ
کافر ہیں...مرتد ہیں...انہیں قتل کردو...جہنم واصل کردو ‘‘
نعروں
کے اس شور میں کچھ لوگ آگے بڑھے اور مسجد کے صحن میں گھس آئے۔ان کے تیور بگڑے ہوئے
تھے۔شاہ ولی ؒ اللہ نے ان سے پوچھا:
’’کیا تم ہمیں قتل کرنے کے لئے یہاں آئے ہو؟‘‘
ان
میں سے ایک شوریدہ سر نے کہا :
’’ہاں‘‘!ہم آپ کو قتل کرنے کے لئے آئے ہیں۔ آپ اس قابل نہیں ہیں کہ آپ
کو زندہ چھوڑا جائے۔‘‘
شاہ
ولی ؒ اللہ نے پوچھا: ’’ ہمارا جرم کیا ہے؟‘‘
ایک
شخص نے نہایت حقارت اور طنز سے بھر پور لہجے میں جواب دیا۔
’’ آپ کو اپنا جرم معلوم نہیں ہے۔کیا واقعی آپ اپنے جرم سے لاعلم ہیں،
اوکافر! اب میں تجھے آپ کی بجائے تو سے مخاطب کروں گا، کیا تونے کلام پاک کا فارسی
میں ترجمہ نہیں کیا، کیا یہ کتا بُ اللہ کی توہین نہیں ہے، تونے لوگوں کو گمراہ
کردیا ہے، تیری سزا پھانسی یا قتل ہے، ہم تیری گردن اڑا دیں گے۔‘‘
اس
جواب پرشاہ ولی ؒ اللہ کو غصہ آگیا۔
ان کے
ہاتھ میں ایک پتلی سی چھڑی تھی انہوں نے چھڑی اٹھائی اور’’ اﷲ ہو‘‘ کا نعرہ مستانہ
بلند کیا۔کیا اثر تھا اس نعرے میں، شاہ ولی ؒ اللہ اور ان کے ساتھی یکے بعد دیگرے
مسجد سے نکل گئے۔مجمع کائی کی طرح چھٹ گیا۔اب شاہ ولی ؒ اللہ کھاری باؤلی تک پہنچ
گئے تھے کسی نے زور سے پکارا۔
’’یہ بہروپیا بھاگنے نہ پائے‘‘
لیکن
یہ نعرہ بے اثر ثابت ہوا۔لوگ بت بنے کھڑے تھے جیسے پتھر کے مجسمے ہوں۔شاہ ولی ؒ
اللہ گھر پہنچے تو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ اپنے لڑکپن کی بنا پرشاہ ولی ؒ اللہ
سے لپٹ گئے اور رونے لگے کیونکہ اس ’’ہاؤہو‘‘ کی اطلاع پوری دہلی میں پھیل چکی تھی
اور گھر والوں کوبھی اس کی خبرمل گئی تھی۔شاہ ولی ؒ اللہ نے کہا ’’ بیٹے! تجھے
معلوم نہیں کہ دنیا والے میرے اور تیرے نبی حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کو کیا کیا
اذیتیں دے چکے ہیں۔بیٹے! آنسو پونچھ لو۔ہم عنقریب جانے والے ہیں، ہماری میراث علم
ہے، تم اسے سنبھال لو۔‘‘حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے جو اس وقت لڑکپن کے دور سے گزر
رہے تھے اپنی گردن جھکا لی اور عرض کیا۔
’’ جو اﷲ تعالیٰ کی مشئت،اگر اﷲ تعالیٰ ہم سے یہ خدمت لینا چاہتے ہیں تو
ہم اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس علمی اور عملی خدمات میں خرچ کردیں گے۔‘‘
شاہ ولی ؒ اللہ نے نے غیب کے اوپر سے پردہ اٹھایا ۔کائناتی نظام کی
نقاب کشائی کی اور بتایا کہ ہر انسان کے اوپر نور کا بنا ہوا ایک جسم ہے جو انسان
کے جسم کے ساتھ چپکا رہتاہے ۔سائنس کا غلغلہ بلند ہوااور سائنس نے AURAکا تعارف کرایا تو قوم نے اسے نعوذ باللہ
صحیفہ سمجھ کر قبول کرلیا۔
شاہ ولی ؒ اللہ کا کارنامہ ہندوستان میں علم حدیث کی ترویج تھی۔آپ ؒ
مدینہ منورہ سے اس علم کی سند لے کر آئے ۔ہندوستان سے باہر کے علماء نے بھی اعتراف
کیا ہے کہ ہندوستانی علماء کو علم حدیث کی طرف متوجہ کرانے کا سہر اشاہ ولی ؒ اللہ
کے سر ہے ۔شاہ ولی ؒ اللہ نے قرآن وحدیث کے درس کے علاوہ متعدد مجموعہ احادیث کا
فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔اس کے علاوہ آپؒ نے احادیث کی کئی مختصر کتابیں بھی مرتب
فرما ئی ہیں ۔ ایک کتاب چہل حدیث ہے ۔ایک کا نام النوادر من الحدیث ہے۔الدارالثمین
فی مبشرات النبی کریم نامی مجموعۂحدیث میں ایسی چالیس حدیثیں جمع کی ہیں جوخواب
میں انہیں سنائی گئیں ۔
وصال
ساٹھ سال کی عمر ہوجانے کے بعد آپؒ کی صحت گرنے لگی مگر اس کے باوجود
آپؒ زیادہ سے زیادہ محنت اور توجہ سے اپنا کام کرتے رہے۱۷۶۳ ء،29محرم کو آپ ؒ نے وصال
فرمایا۔
شاہ ولی ؒ اللہنے چار فرزند چھوڑے ۔۱۔ شاہ رفیع الدین ۲۔ شاہ عبدالقادر ۳ ۔ شاہ عبدالعزیز اور ۴۔ شاہ عبدالغنی۔ ان
چاروں اصحاب نے اپنے اپنے طریق پر شاہ ولی ؒ اللہ کی فرزندی کی شان دکھائی ۔ شاہ
رفیع الدین نے قرآن مجید کا اردو زبان میں پہلاترجمہ کیا ۔شاہ عبدالعزیزؒ اپنے
محترم باپ کے انتقال کے وقت نو عمرتھے مگر آپ نے فوراً ان کی مسند سنبھال لی
اورتصوف کا درس دینا شروع کردیا ۔ شاہ عبدالغنی کو اللہ تعالیٰ نے یہ شرف بخشا کہ
آپ کے ہاں شاہ اسماعیل شہید کی ولادت ہوئی۔
شاہ ولی ؒ اللہ نے اپنی تصنیف ’’حجتہ اللہ البالغہ‘‘میں عقائد سے لے
کر عبادات ، معاملات ، احسان و تزکیہ ، مقامات و احوال ،کسب معیشت کے طریق ،خلافت
،قضا ، آداب طعم ،آداب صحبت اور معاشرت کی احادیث سے بحث کی ہے اور اس سلسلہ میں
سیرت نبوی علیہ الصلوٰۃوالسلام کا خلاصہ بھی پیش کردیا ہے ۔
سر سید احمد خان ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء کو دہلی میں پید اہوئے۔ سید احمدنے قرآن پاک پڑھنے کے بعد عربی و
فارسی کی کتابیں مثلاً شرحِ تہذیب، میبذی ، مختصر معانی ار مطول پڑھیں۔صرف و نحو ۔
معانی و بیان و دیع، منطق و فلسفہ ، ریاضی ،اقلیدس ،ہیئت اور فن طب کو پڑھا۔لیکن
اس سلسلے میں وہ تعلیم مکمل نہیں کرسکے شاعری میں صہبانی ، غالب، آرزو وغیرہ سے
اکتساب فیض کیا۔ مولانا
حامد حسن قادری نے لکھا ہے کہ سرسید کی جوانی رنگین صحبتوں میں گزری تھی۔ باغوں کی
سیر، میلوں ، تماشوں ، راگ رنگ کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے ۔ سر سید زندہ دل ،
بذلہ سنج، حاضر جواب تھے ۔ لیکن بھائی کے انتقال کے بعد سرسید کادل ان سب سے اچاٹ
ہوگیا۔سر پر استرا پھر والیاداڑھی پیٹ تک رکھ لی۔
۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کا
واقعہ پیش آیا جس میں سر سید نے حقیقت حال کے پیش نظر بجنور میں انگریزوں کی جان و
مال کے تحفظ کیلئے کام کیا اور باغیوں کو سمجھانے بجھانے کیلئے بہت کوششیں کیں ۔
ان حالات میں لوگ انکے خلاف ہوگئے اور انہیں قتل کرنے کے منصوبے بنائے جانے لگے ۔
تاہم سرسید بحفاظت دہلی پہنچ گئے۔ برطانوی حکومت نے سرسید احمد کی خدمات کے صلے میں انہیں انعام واکرام
دینا چاہاجسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا۔۱۸۵۸ء میں آپ صدر الصدور ہو کر
مرادآباد چلے گئے اور ۱۸۶۲ء میں غازی پور تبادلہ ہوگیا۔دوسال بعد علی گڑھ چلے گئے اور ۱۸۶۷ء میں بنارس چلے گئے۔
اپریل ۱۸۶۹ء میں اپنے بیٹے سید
حامد اور سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے۔ وہاں پر حکومتی عمائدین سے ملاقاتوں کے
علاوہ یونیورسٹیوں ، کتب خانوں اور کارخانوں کو بغور دیکھا ۔ غالباً ڈیڑھ سال بعد
لوٹ آئے۔ ۱۸۷۵ء میں علی گڑھ میں ایک
ابتدائی مدرسہ قائم کیا۔ جولائی ۱۸۷۶ء میں ریٹائر ہوئے اور قومی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ سرسید ۲۲برس تک ملک و ملت کیلئے
جدوجہد کرنے کے بعد ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔
حالی نے ان کی تصانیف کو تین ادوار میں تقسیم کیاہے۔
۱۔ ابتداسے جنگ آزادی
تکامیرتیمور سے بہادر شاہ ظفر تک کے ۴۳ بادشاہوں کے مختصر حالات پر مشتمل ۔ جامِ جم، جلاء القلوب ،بذکر
المحبوبؐ ۔بوعلی نے معیا العقول کے نام سے ابوذر یمنی کے عربی رسالے کافارسی میں
ترجمہ کیا جسے سرسید نے ’تسہیل فی جرالقیل‘کے نام سے۱۸۴۴ء میں اردو ترجمہ کیا ۔ آثار
الصنادید، راہِ سنت و دردِ بدعت، نمیقہ دربیان مسئلہ تصور شیخ ، سلسلۃالملوک، قول
متین در ابطلال حرکت زمین، سیرت فریدیہ اور تاریخ بجنور مرتب کی۔
۲۔ جنگ آزادی سے یورپ
جانے تک سرسید احمد کی زندگی کی بڑی اہم اور اپنے وقت کی جرأت مندانہ کاوش، اسبابِ
بغاوتِ ہند ، نامی تصنیف مراد آباد میں ۱۸۵۸ء میں لکھی گئی۔ ۱۸۶۰ء میں’’لائل محمڈن آف انڈیا‘‘ کے نام سے انگریزی اور اردو میں ایک
سلسلہ وار رسالہ شائع کیا گیا۔ تاریخ فیروز شاہی ، کو شائع کیا ۔ احکامِ طعامِ اہل
کتاب لکھی۔ توریت و انجیل کی جو تحریف لفظی اسلام کے خلاف استعمال کی جاتی تھی ،اس
کی نشاندہی کیلئے سر سید احمد خان نے ان مذہبی صحائف کی ’’تبئین الکلام فی تفسیر
التوراۃوالانجیل علی ملۃ الاسلام‘‘کے نام سے تفسیر لکھی۔
۳۔سفر یورپ سے رحلت تک ’’سفر نامہ یورپ‘‘ اس دور کی یادگار تصنیف
ہے۔ خطبات احمدیہ ، سرسید کی وہ تصنیف ہے جو سفر یورپ کاباعث بنی۔ ایک
رسالہ’ابطالِ غلامی‘ تحریر کیا۔ انہوں نے قرآن کی تفسیر بھی کی ۔چنداسلامی مسائل
سے متعلق النظر فی عبدض المسائل ‘ بھی ان کی یادگار ہے۔ دورۂ پنجاب کے دوران سرسید
نے جولیکچر دیئے اور تقریریں کیں،سید اقبال احمد نے کمال زُدونویسی سے انہیں
لکھلیا جوبعد میں’’سفر نامہ پنجاب کے نام ‘‘ سے شائع ہوئیں۔ ایک غیر مسلم مصنف نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے تعداد ازواج پر
اعتراضات کئے تو سرسید احمد خان نے باوجود ضعف و نقاہت کے ان اعتراضات کے جواب میں
’’امہات المومنینؓ ‘‘ نامی ایک رسالہ لکھا۔ ان سب کے علاوہ ’’تہذیب الاخلاق ‘‘میں
شائع ہونے والے سرسید کے تمام مضامین یک جاکردئیے گئے۔ سرسید کے خطوط انکے پوتے
سرراس مسعود نے ’’خطوط سرسید ‘‘کے نام سے شائع کئے ۔
سرسید احمد اپنی تحریروں کو مؤثر بنانے کیلئے مشکل الفاظ ، بے جا
تراکیب سے اپنا دامن بچاتے ہیں اور قرآنی آیات، احادیثِ نبویؐ، عربی اقوال اور ضرب
الامثال بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ ان کے فقروں کی قامت کہیں طویل اور کہیں
مختصرہوتی ہے اور ان کے پیراگراف اپنی’’رعب انگیز عظمت ‘‘سے قاری کو مرعوب کرلیتے
ہیں۔ حسب موقع وضرورت وہ اثر آفرینی کے وسائل سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔
سر سید احمد خان (1817۔1898)کی کتاب کا پورا نام ’’خطبات الاحمدیہ
علی العرب والسیرۃ المحمدیہ ‘‘ ہے لیکن یہ ’’خطبات احمدیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ا
س کتاب کا انگریزی ترجمہ (A
Series of Essays on the Life of Muhammad)کے عنوان سے 1870ء میں
لندن میں شائع ہوااور اصل اردو کتاب ، ضروری اضافوں کے ساتھ 1887ء میں ہندوستان
میں چھپی ۔’’خطبات احمدیہ‘‘ ولیم میور کی سیرت رسول ؐ پر مشہور انگریزی کتاب کے
جواب میں لکھی گئی۔
خطبات احمدیہ کی تمہید
’’خطبات احمدیہ‘‘ایک تمہید (دیباچہ) اور بارہ
مقالات پر مشتمل 803صفحات کی ایک صخیم کتاب ہے۔
۱۔ تمہید میں سرسید نے
مذہب کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے اور سچے مذہب کو پرکھنے کا واحد اصول قانونِ قدرت
کے مطابق ہو نا قرار دیا ہے اور اسلام کو قانونِ قدرت کی پاسداری کرنے کی وجہ سے
دنیا کا سچا مذہب ثابت کیا ۔
۲۔ مسلمانوں اور
عیسائیوں کی تحریر کردہ سیر ت کی کتابوں پر سیرحاصل تبصرہ کیا ہے ۔
۳۔ سر سید نے عیسائی
مؤرخین کا ذکر بھی کیا ہے ۔جنہوں نے اسلام اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بارے
میں کتابیں لکھیں ہیں۔
۴۔ سیرسیدسر ولیم میور کی چارضخیم جلدوں پر مشتمل کتاب ’’ لائف آف
محمد ؐ ‘‘ پر تبصر ہ کرتے ہیں۔ اس کتاب پر رائے دیتے وقت انہوں نے انصاف کا دامن
ہاتھ سے نہیں چھوڑا ،چنانچہ جہاں وہ ولیم میور کی کتاب کو عیسائی مصنفین میں سب سے
عمدہ قرار دیتے ہیں ،جو ان کے خیال میں نہایت لیاقت اور قابلیت اور کمال خوبی کے
ساتھ لکھی گئی ہے اورجس کے مصنف کے بارے میں ان کی یہ رائے ہے کہ وہ مشرق اور
مغربی علوم سے پوری طرح واقف ہے اسی لئے یہ کتاب یورپ کے پڑھے لکھے لوگوں میں قدرو
منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے ،وہیں وہ کتاب کے نقص کی نشان دہی کرنا بھی اپنا
فرض سمجھتے ہیں۔
تمہیدکے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے ، جو بارہ مقالات پر مشتمل ہے ،
ہر مقالہ کو خطبہ کا نام دیا گیا ہے۔
یہ خطبہ کتاب کا سب سے طویل مقالہ ہے، جو 180صفحات پر پھیلا ہوا ہے
اور طوالت و جامعیت کے اعتبار سے بجائے خود ایک کتاب ہے ۔اس میں مصنف نے اہل عرب
کا مفصل تاریخی جغرافیہ درج کیا ہے تاکہ ان مسلمات کو ثابت کیا جاسکے ، جن کا سر
ولیم میور نے اپنی کتاب میں انکار کیا تھا۔ پھر حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل ؑ کے
مکہ میں آباد ہونے ، حضرت اسماعیل ؑ کی بیویوں اور بارہ بیٹوں کے مختلف حصوں میں
آباد ہونے کا تذکرہ ہے ۔ پھر اقوام عاد و ثمود کا عرب میں ہونا اور حضرت ہود ؑ اور
حضرت صالح ؑ کا ان میں مبعوث ہونا،بعد ازاں عرب کے بادشاہوں اور ان کی حکومتوں کی
تفصیل ہے ۔
24صفحات کے اس مختصر خطبہ میں اسلام سے قبل
عربی اقوام کی عادات و خصائل ، رسم ورواج اور عقائد و اوہام پر روشنی ڈالی گئی ہے
تاکہ زمانہجاہلیت کے اخلاق کا صحیح نقشہ آنکھوں کے سامنے آسکے ۔یہاں تفصیل سے شعرا
کے کلام سے مثالیں پیش کی گئی ہیں ، جن میں امرأالقیس ،لبید طرفہ، نابغہ عمرو،
حاتم طائی ، باہلی ، ہذلی بکری ، زبیدی ، حسن ،عوض اور حارث وغیرہ کے اشعار قابل
ذکر ہیں ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان