Topics
عورت اور مرد دونوں اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں مگر ہزاروں سال سے زمین
پر صرف مردوں کی حاکمیت ہے۔عورت کو صنف نازک کہا جاتا ہے۔صنفِ نازک کا یہ مطلب
سمجھا جاتا ہے کہ عورت وہ کام نہیں کرسکتی جو کام مرد کرلیتا ہے۔عورت کو ناقص
العقل بھی کہا گیا ہے۔قرآن پاک میں تفکر ہمارے اوپر یہ حقائق منکشف کرتا ہے کہ مرد
اور عورتیں دونوں تخلیقی راز و نیاز ہیں ۔ دونوں میں صلاحیتیں موجودہیں اگر مرد
کسی صلاحیت میں عورت سے قدرے زیادہ ہے تو مرد بھی کئی صلاحیتوں میں عورتوں سے کم
ہے۔جب ہم لفظ انسان بولتے ہیں تو اس سے مراد عورت اور مرد دونوں ہیں۔ عورت بھی
مکمل انسان ہے۔اس میں بھی نوع انسانی کی ہر صلاحیت موجود ہے۔ قرآن حکیم نے واضح
طور سے اعلان کیا ہے کہ عورت اور مرد دونوں ’’نفس واحدہ‘‘ سے پیدا کئے گئے ہیں۔ ’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی)
مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو اور
قبیلے بنادیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ
ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ دانا اور باخبر ہے۔ ‘‘(سورۃ الحجرات۔ آیت
13)
’’ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تم میں سے
ہی بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لئے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کیے
اور تمہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔ کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے
اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے۔‘‘
(سورۃ النحل۔ آیت 72)
اللہ تعالیٰ کی نظر میں عورت اور مرد قطعی مساوی سطح پر ہیں، نیکو
کاری کے معاملے میں بھی اور اس کی جزا اور انعام کے معاملہ میں بھی۔ قرآن حکیم میں
اس پر بار بار زور دیا گیا ہے۔
’’جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن
صاحبِ ایمان ہو تو ہم اسے یقیناًنہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک
اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔‘‘(سورۃ النحل۔ آیت97)
’’ بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن
مرد اور مومن عورتیں، فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں، راست باز
مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے
والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی
عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہ کی حفاظت
کرنے مرد اور حفاظت کرنے والیاں بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے
والیاں ۔ان (سب) کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘(سورۃ
الاحزاب۔ آیت 35)
ہارون الرشید کی بیگم ملکہ زبیدہ جب حج کرنے گئی تو اس نے دیکھا کہ
مکہ میں پانی کی قلت ہے۔حج سے واپس آ کر اس نے انجینئیرز کے ساتھ میٹنگ کی۔ان کو
حکم دیا کہ دریائے فرات سے عرفات تک نہر کھودی جائے۔ انجینئیرز نے سروے کے بعد
رپورٹ پیش کی کہ منصوبہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ راستے میں پہاڑ،ٹیلے،صحرا
اور سخت زمین ہے۔
ملکہ زبیدہ نے کہا:
’’یہ منصوبہ پورا ہوگا۔اگر کدال کی ایک ضرب
پر ایک اشرفی خرچ ہوتو میں ادا کروں گی۔‘‘
ملکہ زبیدہ کا عزم اتنا پختہ تھا کہ’’ نہر زبیدہ‘‘ بن گئی اور آج بھی
اس نہر سے استفادہ کیا جارہا ہے۔
اسلام نے مرد کو جو برتری دی ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ مرد کو خاندان
کا سربراہ و کفیل بنایا گیا ہے۔وہ بھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جسمانی طور
پر عورتوں سے زیادہ طاقت دی ہے۔لیکن بہت سے حالات میں عورت وہ کچھ کرتی ہے جو مرد
نہیں کرسکتا۔مثلاً نو مہینے بچے کو پیٹ میں غذا فراہم کرنا۔پیدائش کے بعد سوا دو
سال تک دودھ پلانا۔بزرگ خواتین و حضرات تسلیم کرتے ہیں کہ ایک بچے کا کام چار بڑے
آدمیوں کے برابر ہوتا ہے۔
’’اور ہم نے انسان کو والدین کے بارے میں
تاکید کی کہ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا ،کمزوری پر کمزوری برداشت کی اور دو
برس بعد دودھ چھڑایا۔یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا ۔آخر مجھ ہی تک آنا
ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان ۔آیت 14)
اسلام نے عورت کو حق دیاہے کہ وہ انفرادی طور پر کاروبار اور معاشرتی
روابط قائم کرسکتی ہے۔جائیداد رکھ سکتی ہے۔ صحابیاتؓ اور دیگر معروف مسلمان خواتین
کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے ملازمت،کاروبار،زراعت،تبلیغ، طب، فوج اور
دیگر تمام شعبوں میں آزادانہ کام کیا ہے۔
وراثت کے سلسلہ میں اسلامی شریعت کا یہ قانون ہے کہ عورتوں کا حصہ
مردوں کے مقابلے میں نصف ہے۔ قرآن حکیم میں یہ آیت ہے:
’’ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے
میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی
ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر ایک ہی
لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے
چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے، اگر اس (میت )کی اولاد ہو ۔ اور اگر اولاد نہ ہو
اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے، ہاں اگر میت کے کئی
بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ یہ حصے اس وصیت کی تکمیل کے بعد ہیں
جو مرنے والا کرگیا ہو یا ادائے قرض کے بعد تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں
نہیں معلوم کہ ان میں سے کون سے تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ
تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں، بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں والا
ہے۔‘‘(سورۃ النساء۔ آیت 11)
اسلام نے مرنے والے مسلمان کی جائیداد میں اسکی بیوی اور بیٹیوں کا
متعین حصہ رکھا ہے اور یہ انتظام کیا ہے کہ اگر جائیداد میں کسی قسم کا تصرف بھی
ہو تو یہ اپنے قانونی حصوں سے محروم نہ ہونے پائیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ مردوں کے لئے بھی حصہ ہے اس چیز میں سے جس
کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لئے بھی حصہ ہے
اس چیز میں سے جس کو ماں باپ اور بہت نزدیک کے قرابت دار چھوڑ جائیں خواہ چیز قلیل
ہویا کثیراور یہ حصہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے )مقرر ہے ۔‘‘(سورۃ النساء۔ آیت 7)
ماں کا رشتہ اولاد کے ساتھ باپ کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہے۔ماں کے
وجود کے اندر رحم میں چھپ کر نو مہینے تک پرورش پانے والے بچے کا تعلق تخلیق کے ہر
مرحلے میں ماں کے ساتھ قائم رہتا ہے۔رحم کے اندر بچے پر آنے والی مصیبت ماں کے ذہن
کو اس حد تک پریشان کردیتی ہے کہ وہ ہر لمحہ اس کی صحیح نشوونما کے لئے جدوجہد
کرتی ہے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسی لئے عورت کو ماں کی حیثیت سے اتنا بلند درجہ دیا
کہ فرمایا:
’’ماں کے قدموں میں جنت ہے۔‘‘
جو اولاد ماں کی خدمت کرتی ہے ،ماں کی عزت کرتی ہے ،ماں کو اپنا
سرمایہ آخرت سمجھتی ہے،ماں کو اپنا سرپرست سمجھتی ہے اس کے لئے ماں جنت کا نعم
البدل ہے۔اللہ تعالیٰ ایسی سعید اولادوں کو جنت عطا فرمائیں گے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ماں کی نافرمانی پر جنت حرام کردی گئی ہے۔‘‘
روایت ہے کہ ایک صحابیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دریافت کیا
کہ سب سے زیادہ واجب الاحترام اور حسن سلوک کا حق دار کون ہے ؟ تو حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ : ’’تمہاری ماں۔‘‘
صحابیؓ نے پوچھا: ’’ماں کے بعد؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر یہی فرمایا کہ ’’تمہاری ماں‘‘
حتیٰ کہ تیسری مرتبہ کے بعد چوتھی بار جب صحابی نے یہی سوال کیا تو
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’تمہارا باپ۔‘‘(صحیح بخاری جلد 2، کتاب
الادب)
لڑکیوں کو زندہ دفن کردینے کا وہ رواج جو اسلام سے پہلے تھا اس کی
سخت مذمت کی گئی اور مسلمانوں کو حکم ہوا کہ وہ اپنی بیٹیوں سے محبت کریں۔
قرآن حکیم میں ارشادہے :
’’اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے
گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی ۔‘‘ (سورۃ التکویر۔ آیت 8تا9)
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’جب کسی کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ
تعالیٰ اسکے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو کہتے ہیں اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ
لڑکی کو اپنے پروں کے سایہ میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے
ہیں:
’’یہ ایک ناتواں جان ہے جو ایک ناتواں کمزور
جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی پرورش کرے گا قیامت تک اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے
ساتھ رہے گی۔‘‘
(حضرت بنیطؓ بن شریط۔ طبرانی الصغیر۔ 161/1۔ ح 70۔ ض 62)
’’جو شخص لڑکیوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف
سے ذرا بھی آزمائش میں مبتلا کیا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ
لڑکیاں اس کے لئے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بنیں گی۔‘‘
(حضرت عائشہ صدیقہؓ۔ بخاری ۔ کتاب الزکوۃ۔ح 1418)
’’جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی اور ان
کی پرورش کے سلسلے میں دکھ و تکلیف پر صبر کیا اور انہیں اپنے مال میں سے کپڑے
پہنائے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے دوزخ سے نجات کا ذریعہ بن جائیں گی۔‘‘
(حضرت عامرؓ بن عقبہ۔
الادب المفرد۔ باب 41، ح76)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص کی بیٹی ہو اور وہ نہ تو اسے زندہ
درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس لڑکی پر اپنے لڑکے کو
ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ ‘‘
(حضرت عبداللہ ابن عباس۔ ابی داؤد النوم۔ ح 5132)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیٹیوں سے ترجیحی سلوک کی ہدایت فرمائی
ہے :\
’’جب تم اپنے بچوں میں تقسیم کرنے کے لیے کچھ
لاؤ تو بیٹیوں سے شروع کرو کیونکہ بیٹوں کے مقابلہ میں بیٹیاں اپنے والدین سے
زیادہ محبت کرتی ہیں۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے بولنے اور گفتگو کرنے میں
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بی بی فاطمہؓ سے بڑھ کر مشابہت رکھنے والا کسی
کو نہیں دیکھا۔ جب وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی بیٹی کے لئے کھڑے ہوجاتے، ان کا ہاتھ پکڑتے، اسے بوسہ
دیتے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر انہیں بٹھاتے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے
پاس تشریف لے جاتے تو وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر
بٹھاتیں۔
(حضرت عائشہ صدیقہؓ۔ ابی داؤد۔ کتاب الادب۔ ح 5203)
دور جاہلیت میں عورت کو کمزور ،لاغر،بیوقوف اور ناقص العقل کہا جاتا
تھا اور شادی کے معاملے میں والدین یا ولی کی رضامندی ضروری سمجھی جاتی تھی۔
اسلام نے جہاں ماں باپ کی وراثت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں عورت کے
حقوق متعین کئے ہیں وہاں شادی جیسے اہم مسئلے پر بھی اس کی رائے اور رضامندی کو
نظر انداز نہیں کیا۔اگر ایک عاقل اور بالغ لڑکی برضا ورغبت شادی کے لئے رضامند نہ
ہو تو شادی نہیں ہوسکتی۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
’’کنواری عورت سے نکاح کے معاملے میں اجازت
حاصل کی جائے اگر دریافت کرنے پر وہ خاموش رہے تو اسی کو اس کی اجازت سمجھا جائے
اور اگر انکار کرے تو اس پر جبر نہیں کرنا چاہیئے۔ ‘‘
(ترمذی،ابو داؤد،نسائی،دارمی)
حضرت خنساء بنتِ خذام ؓ فرماتی ہیں کہ وہ بیوہ تھیں ان کے والد نے ان
کا نکاح کردیا وہ اس نکاح سے ناخوش تھیں ۔انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی
خدمت میں حاضر ہوکر اس کے متعلق عرض کیا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ نکاح
رد کردیا۔ (بخاری)
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔‘‘ (سورۃ
النساء ۔ آیت 19)
’’اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے
تمہارے لئے تمہاری جنس کی بیویاں بنائیں تا کہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم
میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی۔ اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو
فکر سے کام لیتے ہیں۔ ‘‘(سورۃ الروم ۔ آیت 21)
اسلام نے جہاں عورت کو دیگر بے شمار حقوق سے نوازا وہاں اس کے ایک
حق،حق مہر کے لئے بھی با ضابطہ قانون بنایا۔اس قانون کی رو سے حق مہر کا بنیادی
مقصد بیوی کو تحفظ دینا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شوہر کو ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ
اپنی بیوی کو کپڑا اور کھانا مہیا کرے۔اس سے محبت کا بہترین سلوک کرے۔بلاوجہ طلاق
کی دھمکی نہ دے،نہ مارے پیٹے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیوی کو شوہر کے ترکہ
سے حصہ دلایا۔اگر شوہر تنگ کرے تو بیوی کو طلاق لینے کا حق دیا۔عورتوں کو کام کرنے
اور اپنے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا حق دیا۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’جو کمائی مرد کرے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں
اور جو کمائی عورتیں کریں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘(سورۃ النساء۔آیت32)
بے سہارا
خواتین
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مکے کی غریب اور بے سہارا بیوہ عورتوں کا
سودا سلف خرید کر اپنے کندھے پر اٹھا کر ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔ایک روز ابو
سفیان نے حقارت سے کہا:
’’غریب اورچھوٹے لوگوں کا سامان اٹھا اٹھا کر
تم نے اپنے خاندان کا نام بدنام کردیا ہے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواباً فرمایا:
’’میں ہاشم کا پوتا ہوں۔جو امیروں اورغریبوں
سب کی یکساں مدد کرتا تھا اور اپنے سے کمتر لوگوں کو حقیر نہیں جانتا تھا۔‘‘
حضرت عائشہ ؓ کی بڑی بہن حضرت اسماءؓ ایک روز کھجوروں کی
پوٹلی سر پر رکھے ہوئے آرہی تھیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹ پر سوار ادھر سے
گزرے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹ سے اُتر آئے۔ حضرت اسماءؓ کو اونٹ پر سوار
کردیا اور خود پیدل گھر تشریف لے گئے
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان