Topics
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت تمام بنی نو ع انسان کے لیے ہے ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صر ف اپنے قبیلے، شہر ،قوم یاملک کو ہی اسلام کی
دعوت نہیں دی بلکہ بنی نوع انسان تک اللہ
تعالیٰ کا پیغام پہنچایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے اسلام کی
تبلیغ کا آغا ز کس طر ح کیا اور تبلیغ اسلام کے لئے کیا طریقہ کا راپنایا ؟
قرآن پا ک میں تبلیغ کے ضمن میں دو طر ح کے ارشاد ات ہیں ۔
۱۔ ایک وہ جن میں فر یضۂ
تبلیغ کی طر ف تو جہ دلا ئی گئی ہے ۔
۲۔ اور دوسرے وہ جن میں
طریقہ کا ر بیان کیا گیاہے ۔
’’اے پیغمبر (علیہ الصلوٰۃوالسلام) جو کچھ
تمہا رے رب کی طر ف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لو گو ں تک پہنچا دو ۔ ا گر تم نے
ایسا نہیں کیا تو اس کی پیغمبر ی کا حق ادانہ کیا ۔اللہ تم کو لو گو ں کے شر سے
بچا نے والا ہے ۔ ‘‘(سورۃالمائدہ ۔آیت67)
’’اللہ اور اس کے رسول کی با ت مانو اور با ز آجا ؤ ، لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی توجان لو کہ ہمارے رسول پر بس صا ف صاف حکم پہنچا د ینے کی ذمہ داری تھی ۔ ‘‘( سورۃالما ئد ہ ۔آیت92)
’’اب اگر یہ لو گ منہ مو ڑتے ہیں تو اے نبی ،
ہم نے آپ کو ان پر نگہبا ن بنا کر نہیں بھیجا ہے ۔آپ کی ذمہ داری صرف بات پہنچا
دیناہے۔‘‘( سورۃالشوریٰ ۔آیت48)
’’اے نبی ! جو با تیں یہ لو گ بنا رہے ہیں
انہیں ہم خوب جا نتے ہیں اور تمہارا کام ان سے جبراًبا ت منو انا نہیں ہے ۔ بس تم
اس قرآن کے ذریعہ سے ہر اس شخص کو نصیحت کر دو جو میر ی تنبیہہ سے ڈرے۔‘‘(سورۃق۔آیت45)
’’اچھا (اے نبی ) آپ نصیحت کر تے ر ہیں ، آپ بس نصیحت کر نے والے ہیں۔ ‘‘(الغا شیہ ۔ آیت21)
نبوت کے بعدحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تین سال تک خفیہ تبلیغ فرماتے
رہے۔ دعوت عام کی بجائے خفیہ تبلیغ میں یہ حکمت پوشیدہ ہے حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے صرف ان لوگوں کو حق کی طرف بلایا جن پرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
کو اعتماد تھا۔ جوحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی نظر میں حق بات سننے کا حوصلہ رکھتے
تھے۔ جن کو سمجھایا جاسکتا تھا اور جن میں شرک چھوڑنے اور حق کی طرف آنے کی صلاحیت
تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن میں عقل تھی، باشعور تھے۔ آباؤ اجداد کے فرسودہ طریقۂ عبادت
سے تنگ تھے۔ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہوئے ندامت محسوس کرتے
تھے اور خدائے واحد کی تلاش میں تھے۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے خفیہ تبلیغ شروع کی تو حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے حضرت ارقم ؓ کے گھر کو تعلیم کا مرکز قرار دیا۔ یہ شعب ابی طالب
کی محصوری تک قائم رہا۔ خفیہ تبلیغ کے دوران ایک روایت کے مطابق(133 ) افرادحضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ایمان لے آئے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں۔ و ہ
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے دست راست تھے۔ ان ہی کی کوششوں سے حضرت عثمانؓ بن
عفان، حضرت زبیرؓ بن عوام، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف، حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ بن
ابی وقاص جیسے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ان کے علاوہ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب، حضرت
خالدؓ بن سعید، حضرت عمارؓ، حضرت ارقمؓ، حضرت عمرؓ بن عتبہ اور ابوذر غفاریؓ جیسے
لوگوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہونے میں پہل کی۔
حضرت ارقم ؓ کا گھر تبلیغ کا مرکز تھا۔یہاں مسلمانوں کی تعلیم و
تربیت کا انتظام کیا گیا اور یہاں اسلام میں داخل ہونے والوں کو اسلام کے اصول اور
آداب سکھائے جاتے تھے۔
بعثت نبوی کے تین سال تک تبلیغ اسلام کا کام خفیہ رکھا گیا۔ اس کے
بعد حکم ہو اکہ اسلام کا دائرہ اپنے رشتہ داروں تک بڑھاؤ -حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے رشتہ داروں کی دعوت کی۔۔۔ انہیں کھانے پر بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے
تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان کے سامنے تقریر فرمائی ۔ ’’ میں تم سب کے لئے
دنیا و آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں، دنیا میں کوئی شخص بھی اپنی قوم کے لئے اس
سے بہتر تحفہ نہیں لایا۔ میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی خیرو برکت لے کر آیا ہوں۔
لیکن حاضرین نے سنی ان سنی کردی۔
اس کے بعدحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اہل مکہ کو دعوت اسلام دینے کا
حکم ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور اہل مکہ کو آواز
دی۔ جب تمام قبائل اکٹھے ہوگئے توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان سے مخاطب ہوتے
ہوئے ارشاد فرمایا ’’اگر تم اس بات کا اقرار کرو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود
نہیں تو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہارے حق میں گواہی دوں گا اور تمہاری سفارش
اور شفاعت کروں گا۔
اے قوم قریش! اگر تم نے کلمہ توحید قبول کرلیا تو تمام عرب تمہارا
دین اختیار کرے گا اور تمہارے طریقے کی پیروی کرے گا۔ اس کے علاوہ تمام عجم تمہارا
مطیع ہوجائے گا‘‘۔(طبقات ابن سعد)
باقی تمام مجمع تو خاموش رہا لیکن ابو لہب نے شدید غصے کا اظہار کیا۔
اس کے بعد تبلیغ حق کی خاطرمکہ میں عکاظ، ذوالجنہ اور ذوالمجاز کی
منڈیوں میں تشریف لے گئے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
نے طائف کا سفر کیا۔ اس کے بعد کئیاور قبائل کے پاس گئے اور انہیں حق کی طرف
بلایا۔
بعثت کے بعد سے ہجرت تک مکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا قیام
تیرہ سال تک رہا۔ تیرہ سال کی اس مدت میں مشرکین کی طرف سے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
پر جس طرح عرصہ زیست تنگ کیا گیا۔ وہ ایک دل گداز اور لمبی داستان ہے۔ یہ ساری مدت
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ گزاری۔ تیرہ سال میں قرآن
کریم کا بیشتر حصہ مکہ میں نازل ہوا۔
قرآن پا ک کی وہ سو رتیں جو ابتدا میں نا زل ہو ئیں اسلام کی بنیا دی
تعلیما ت ہیں ۔
’’سب تعر یف اللہ کے لیے ہے جو تما م عا لمین
کا رب ہے ۔‘‘ (سورۃ فا تحہ۔آیت1)
’’مشرق و مغرب کا رب وہی ہے ۔ اس کے سوا کو ئی معبود نہیں لہٰذا اسی کو اپنا و کیل بنالو۔‘‘(سورۃ المزمل ۔ آیت9)
’’پڑھ اپنے رب کے نا م سے جس نے پیدا کیا جس نے انسا ن کو خون کے لو تھڑے سے پیدا کیا ۔‘‘(سورۃالعلق۔آیت1تا2)
’’جس نے قلم کے ذر یعے( علم) سکھا یا ۔‘‘(سورۃ
العلق ۔آیت 4)
’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گر وی ہے
۔‘‘(سورۃ المدثر ۔آیت 38)
’’اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کو شش خو د اس نے کی اور یہ کہ بے شک اس کی کو شش عنقریب دیکھی جائے گی ۔‘‘(سورۃ النجم ۔آیت 39تا40)
’’یہ لو گ تم سے روح کے متعلق پو چھتے ہیں کہو ’’یہ روح میر ے رب کے
حکم سے آتی ہے مگر تم لو گو ں نے علم سے کم ہی بہرہ پا یاہے۔‘‘(سورۃ بنی اسرا ئیل۔آیت 85)
اہل مکہ کا ردّ عمل
قر یش یہ سا ری با تیں سنتے تھے اور پو ری شد ت و ر عونت کے سا تھ ان سچی باتوں کو ما ننے سے انکار کر دیتے تھے ۔ جو شخص ان کے سا منے آیا ت قر آنی تلا وت کر تا تھا ۔ اس کے خو ن کے پیا سے ہو جا تے تھے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تلاوت کرتے تھے تو وہ لوگ فقر ے کسا کر تے تھے ۔ وہ یہ مطالبہ بھی کر تے تھے اگرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام واقعی سچے ہیں تو اپنے سچ پر کوئی مستند دلیل لائیے۔ اس مطالبے کے جو اب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قر آن کی وہ آیا ت تلاوت فرماتے تھے جن میں اس تمسخر کا شافی جو اب تھا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان تمسخر کر نے والو ں سے فرماتے تھے کہ اگر ان کے بس میں ہے تو اس قر آن کا جو اب لائیں مشرکین قر آن کا مثل پیش کر نے سے قا صر تھے اور یہ اس با ت کی د لیل تھی کہ یہ کلام واقعی کسی انسان کا کلا م نہیں ہے ۔ یہ صر ف اللہ تعالیٰ کاکلام ہے ۔غر ض اللہ تعا لیٰ کے احکا م و آیا ت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت اچھی طرح بہت واضح طور پر وا شگا ف الفا ظ میں بیا ن کردیے۔ یہا ں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہجر ت کا حکم دیا۔ یہ حکم اس وقت ملا جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام راہ حق و صداقت میں ہرتکلیف برداشت کر چکے تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام یثر ب تشریف لائے تویثرب میں ز ند گی کا ایک نیادور شروع ہوا۔ اسلام کی ترویج کا نیا را ستہ کھل گیا۔ یہا ں مختلف طرح کے لو گ تھے۔ ہجرت سے پہلے بھی یثر ب میں مسلمان مو جو د تھے ۔ یثرب میں مشر کین بھی تھے انکے قلو ب اسلا م سے نا آشنا تھے اور انہی کی کثرت تھی۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جنہیں اللہ تعا لیٰ نے قبو ل اسلا م کی تو فیقعطا فرما ئی ۔ان میں وہ لو گ بھی تھے جنہوں نے بظاہر اسلام قبو ل کر لیاتھا ۔ اپنے کفر کو چھپا یا اور منا فقت کی زند گی بسر کر نے لگے ۔ یہا ں یہو دبھی تھے جو اپنے دین و مذ ہب کے علمبردار تھے اور اب وہ اپنے اندر اتنی لچک پید اکر نے پر مجبو ر ہو گئے تھے کہ یثر ب کی اس نئی زند گی سے جس حد تک ممکن ہو مو افقت پیدا کر لیں اور یہاں جو مختلف گر وہ آبا د تھے ان سے منافقانہ تعلقات قائمرکھیں ۔
یثرب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کسی معنی میں بھی حیات مکہ سے سہل اور آسا ن نہیں تھی۔ لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے را ضی بہ رضا صبراور شکر کے سا تھ حالات کو قبول کیا ۔ یثرب میں بہرحال مکے کے مقا بلے میں امن تھا ۔یثرب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مہا جر ین مکہ اور انصا ر یثرب کے ما بین مواخات (بر ادری) کا رشتہ قا ئم کیا ۔ وحی کا سلسلہ بھی جار ی تھاجو کچھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پرنازل ہوتا لو گو ں تک پہنچادیتے تھے۔اس طرح صحا بہؓ کی تعلیم و تر بیت ہو رہی تھی ۔یثر ب میں مسجدنبویؐ کی تعمیر ہو ئی اس مسجد میں خدا ئے بزرگ و بر تر کی عبا دت ہوتی تھی ۔ یہاں مہا جر و انصا ر کی مجلسیں ہو تی تھی اور ان مجا لس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حا ضر ین کواسلام کی تعلیم دیتے تھے۔
’’اے کپڑا اوڑھنے والے! رات کو نما ز میں کھڑے رہا کر و ۔مگر کم،آدھی رات ، یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس سے کچھ زیا دہ بڑھا دو،اور قرآن کو خو ب ٹھہر ٹھہر کر پڑ ھو ۔‘‘(سورۃ المزمل ۔ آیت 1تا4)
’’درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قا بو پا نے کے لیے کا ر گر اور قر آن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیا دہ مو زوں ہے ۔‘‘(سورۃ المزمل۔ آیت6)
’’اپنے رب کا ذکر کیا کرو اور سب سے کٹ کر اُ
سی کے ر ہو ۔‘‘(سور ۃ المز مل ۔آیت 8)
’’اور جو با تیں لو گ بنا رہے ہیں ان پر صبر کر و اور شر افت کے ساتھ اُ ن سے الگ ہو جا ؤ ۔‘‘(سور ۃ المز مل ۔آیت 10)
’’اے نبی! ( علیہ الصلوٰۃ والسلام) ہم نے
تمہیں بھیجا ہے گو اہ بنا کر ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر ، اللہ کی
اجا ز ت سے اس کی طر ف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر ۔ بشا رت دے دو
اُن لو گو ں کو جو (تم پر ) ایما ن لا ئے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طر ف سے بڑا
فضل ہے ۔ اور ہر گز نہ دبو کفا رو منا فقین سے ، کو ئی پر و ا نہ کر و ان کی اذیت
رسانی کی اور بھر و سہ کر لو اللہ پر ، اللہ ہی اس کے لیے کا فی ہے کہ آدمی اپنے
معا ملا ت اس کے سپر د کر دے ۔‘‘(سورۃاحزاب ۔آیت45تا48)
’’اے نبی !( علیہ الصلوٰۃ والسلام) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے سا تھ اور لو گو ں سے مباحثہ کرو ایسے طر یقہ پر جو بہترین ہو ۔ تمہا را رب ہی زیادہ بہتر جا نتا ہے کہ کو ن اس کی راہ سے بھٹکا ہو ا ہے اور کو ن راہِ را ست پر ہے ۔‘‘(سورۃالنحل۔آیت125)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان