Topics
’’اے علیؓ! کیا تم نے نماز عصر قائم کرلی؟‘‘
حضرت علیؓ خاموش رہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارگاہ الٰہی میں عرض
کیا،
’’اے اللہ تعالیٰ! علیؓ آپ کی اطاعت اور آپ کے رسو ل کی اطاعت میں مصروف
تھا،آپ اس کے لئے سورج کو پھیر دیں۔‘‘
غروب ہونے والا سورج پلٹ آیا اور زمین پر دھوپ پھیل گئی۔
***
قدیم زمانہ میں سورج کی پرستش ہوتی تھی۔ مصریوں نے سورج کو راء، یونانیوں
نے ہیلیوس اور رومن قوم نے اسے سول کا نام دیا ہے۔ کہکشاں میں سورج ایک اوسط
درجے کا ستارہ ہے۔ جو کہکشاں کے مرکز سے دو تہائی باہر، دو گھومتے ہوئے دائروں کے
درمیان واقع ہے۔ ہماری کہکشاں (spiral milky way galaxy)
کے ارد گرد بیس (۲۰) کہکشائیں ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ کائنات
پندرہ یا بیس ارب سال پہلے وجود میں آئی۔ کائنات میں ایک سو ارب کہکشائیں ہیں اور
ہر کہکشاں میں ایک سو ارب ستارے ہیں۔سائنس دان اس پر متفق ہیں کہ کائنات کا تخلیقی
مادّہ ہائیڈروجن کے ایٹموں پر مشتمل ہے۔علم فلکیات کے ماہرین نے کائنات کی وسعت کا
اندازہ پندرہ ارب نوری سال لگایا ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں تقریباً تین لاکھ
کلومیٹر فاصلہ طے کرتی ہے۔ اس رفتار سے ایک سال میں جتنا فاصلہ روشنی طے کرتی ہے
وہ نوری سال کہلاتا ہے۔ سورج ملکی وے گلیکسی (Milky Way Galaxy)
کے مرکز سے تیس ہزار نوری سال کے فاصلہ پر ہے۔
قدیم نظریہ کے مطابق زمین کو کائنات کی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اہل بابل کا خیال
تھا کہ زمین ایک ٹکیہ کی مانند ہے جو سمندر کے پانی سے چاروں طرف سے گھری ہوئی ہے
اور آسمانپیالے کی مانند چپٹی زمین کے اوپر الٹا رکھا ہوا ہے۔ چاند سورج اور دیگر
ستارے زمین کے گرد گھومتے ہیں۔
یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ آسمان نے ایک کھوکھلے گلوب کی مانند زمین کو چاروں
طرف سے گھیر رکھا ہے اور ستارے نگینوں کی طرح آسمان میں جڑے ہوئے ہیں۔ آسمان محور
کے اوپر کھڑا ہے جو زمین کے وسط میں گاڑ دیا گیاہے۔ آسمان روزانہ مغرب کی طرف حرکت
کرتا ہے۔
رومی سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں نے اپنے دور میں علم نجوم اور علم ریاضی کو
ترقی دی۔ ستاروں کی رفتار کا حساب لگایا، رصدگاہیں قائم کیں ۔لیکن کائنات کے بارے
میں قدیم نظریات کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
جدید تحقیقات کی روشنی میں جو کائنات آج ہمارے سامنے ہے وہ پرانے زمانے یا
قرون وسطیٰ کی تحقیق سے بہت مختلف ہے۔ چونکہ تحقیق و تلاش اور تفکر کا عمل جاری ہے
اس لئے آئندہ کائنات کی تصویر اس سے بالکل مختلف ہوگی جو آج ہمارے سامنے ہے۔ علم
فلکیات کی بنیادی معلومات یہ ہیں کہ سیارے، ستاروں کے گرد گردش کرتے ہیں۔ ستارے (Stars) اپنے نور سے منور ہیں اور سیارے (planets)
روشنی کے انعکاس کی وجہ سے نظر آتے ہیں۔
سیاروں کو بحیثیت سرد اجسام کے شناخت کیا گیا ہے۔ سورج اپنے نو(۹) معلوم سیاروں اور ان کے چاندوں، ڈیڑھ
ہزار سے زائد سیارچوں (Astroids) ان گنت دم دار تاروں (Comets) اور بے شمار شہابیوں کے ہمراہ ملکی وے گلیکسی کے مرکز کے اطراف
گھوم رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے ایک چکر مکمل کرنے کے لئے بیس کروڑ سال کا عرصہ
لگتا ہے۔ گیسوں کا مرکب ہونے کی وجہ سے سورج کی محوری حرکت یکساں نہیں ہے۔ خط
استوا پر اپنے محور پر سورج ۲۷ دن میں ایک چکر پورا کرتا ہے۔ جبکہ قطبین پر اس کا چکر ۳۴ دن میں پورا ہوتا ہے۔ سورج کے گرد اس کے
سیارے بیضوی مدار(Elliptical Orbits) میں حرکت کرتے ہیں۔سائنسدانوں
نے اندازہ لگایا ہے کہ سورج کی سطح کا قطر آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار میل سے زیادہ ہے۔
درجہ حرارت ۶۰۰۰ درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ٹیلی اسکوپ کی مدد
سے سورج کی سطح پر داغ دیکھے گئے ہیں۔ اوسطاً گیارہ سال کے بعد سورج کے دھبے بڑی
تعداد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سورج کے دھبوں کا مرکزی حصہ امبرا کہلاتا ہے۔ یہ چھ ہزار
چار سو درجے فارن ہائیٹ درجہء حرارت کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے اطراف کا حصہ کم سیاہ
نظر آتا ہے۔ یہاں کی سفید گرم گیسوں کی تپش ۱۱۰۰۰ درجے فارن ہائیٹ ہے۔ یہ شدید مقناطیسی طاقت کے مقامات ہیں۔ تین سو ہزار
کلومیٹر کی رفتار سے برقبار ذرّوں کی حامل شمسی ہوا زمین کے قطبین کے مابین قائم
مقناطیسی میدا ن میں جب داخل ہوتی ہے تو شمسی ہوا کے برقبار ذّرے زمین کے مقناطیسی
میدان میں تعامل کرتے ہیں اور روشنی کی چمکدار لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ جنہیں انوار
قطبی یا ارورا (Aurorae) کہتے ہیں۔
نظام شمسی میں گردش کرنے والے اجرام کو سورج کی توانائی(Radiant Energy)
منتقل ہوتی رہتی ہے۔ ماہرین کے معلوم کردہ نو سیارے اپنے چاندوں کے ہمراہ اینٹی
کلاک وائز (Anti-Clock Wise) سورج کے گرد اپنے اپنے مداروں
میں گردش کررہے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ زمین سے سورج کا فاصلہ نوکروڑ تیس لاکھ میل ہے۔ زمین سورج کے گرد
۳۰ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گھوم رہی
ہے۔ سورج کے اطراف اپنے مدار میں زمین کا ایک چکر، ایک سال میں پورا ہوتا ہے۔ اس
گردش سے زمین پر موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ سورج کے گرد گھومنے کے ساتھ ساتھ زمین اپنے
محور پر گھوم رہی ہے۔ یہ محوری گردش ۲۳ گھنٹے اور ۵۶ منٹ میں مکمل ہوتی
ہے۔ محوری گردش دن کو رات سے بدل دیتی ہے اور رات کو دن میں تبدیل کردیتی ہے۔ زمین
کا جو حصہ سورج کی طرف ہوتا ہے۔ وہاں دن ہوتا ہے اور جو حصہ سائے میں ہوتا ہے وہاں
رات کا اندھیرا پھیل جاتا ہے۔
سائنس دانوں کی تحقیق و تلاش اور زمین اور سورج کے بارے میں ان کے نظریات
سے اس لئے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ موجو دہ زمانے کی تحقیق و تلاش اور قرون وسطیٰ
کی تحقیق و تلاش مختلف ہے اور آئندہ اور زیادہ مختلف ہوگی۔ لیکن سائنس نے جتنی
تحقیق و تلاش کی ہے اس کا سہرا بلاشبہ سائنسدانوں کے سرپر سجا ہوا ہے۔ سائنس جو
کچھ کہتی ہے اس کا تعلق مادّیت کے زیر اثر مشاہدے سے ہے۔ جیسے جیسے تلاش آگے بڑھتی
ہے اور اس تلاش میں تفکر گہرا ہوتا ہے تو مشاہدات میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی
ہے۔
جب ہم نظریاتی مشاہدے کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ مادّی وسائل کو بروئے
کار لاکر کسی چیز کو سمجھا گیا ہے۔ یعنی جو چیز دیکھی گئی اس کے دیکھنے کے عمل میں
مادّیت کا عمل دخل ہے جبکہ مادیت بجائے خود ایک مفروضہ ہے۔ مفروضہ سے مراد یہ نہیں
ہے کہ کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ نتیجہ مرتب ہوتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ نتائج
میں حقائق کا کتنا عمل دخل ہے اور حقیقت ثابتہ پر سے کتنا پردہ اٹھا ہے۔
مشاہدہ یہ ہے کہ لکڑی کو جب سلگایا جاتا ہے تو آگ بن جاتی ہے۔ لیکن جب ہم لکڑی کی
پیدائش پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ زمین کے اوپر موجود ہر شئے اور
لکڑی کی تخلیق میں براہ راست پانی کا غالب عمل دخل ہے۔ پانی جو بجھانے والی شئے
سمجھی جاتی ہے اس کے اندر بھی آگ کا عنصر ہے۔
زمانۂ قدیم کے ماہرین فلکیات ہوں یا جدید زمانے کے ماہرین انکاکہنا ہے کہ
سورج میں روشنی ہے، تپش ہے۔علمائے باطن کہتے ہیں کہ سورج میں روشنی نہیں ہے۔ اصل
میں زمین روشن ہے۔ زمین محوری اور طولانی حرکت میں گردش کررہی ہے۔ روشن زمین کا
انعکاس سورج کے اوپر ہوتا ہے اور سورج کا یہ انعکاس دھوپ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے:
’’قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی اور قسم ہے چاند کی جب سورج کے پیچھے
آئے اور قسم ہے دن کی جب ظاہر کرے اس کو اور رات کی جب ڈھانک لے اس کو۔‘‘
(سورۃ الشمس۔ آیت۔1تا4)
زمین ایک گلوب ہے جو اپنے مدار پر ہر وقت متحرک رہتا ہے۔ زمین کے دو وجود
ہیں۔ ایک وجود ظاہری ہے اور زمین کا دوسرا وجود باطنی ہے۔ زمین کا باطنی وجود ایسی
ماورائی لہروں سے بنا ہوا ہے جو براہ راست نور سے فیڈ ہوتی ہیں۔ یہ روشنیاں
ماورائے بنفشی شعاعوں سے بھی زیادہ لطیف ہیں۔ کسی بھی مادی وسیلے سے نظر نہ آنے
والی روشنیاں سورج کے اوپر منعکس ہوتی رہتی ہیں۔
علمائے باطن فرماتے ہیں کہ
شعوری دنیا کے اوپر تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ زمین کی دنیا
میں ہر مخلوق دو شعور رکھتی ہے یا دو حواس رکھتی ہے یا زندگی گزارنے کی دو طرزیں
متعین ہیں۔ حواس کی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی کھلی آنکھوں، حاضر اور غیر حاضر دماغ
اور مادّی وجود کی حرکت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ زندگی گزارنے کی دوسری طرز یہ ہے
کہ ہر مخلوق بند آنکھوں، غیر حاضر دماغ اور جسمانی اعضاء کی حرکت کے بغیر زندگی
گزارتی ہے اور ان دونوں زندگیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مخلوق جو زندگی شعور میں
گزارتی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے نہار یا دن کہا ہے اور مخلوق جو زندگی شعور سے
باہر ہوکر گزارتی ہے اس کو قرآن کریم نے لیل یا رات کہا ہے۔
باطن الوجود میں ایک ایجنسی ایسی ہے جو اطلاعات کو قبول کرتی ہے، تبدیل
کرتی ہے یا رد کردیتی ہے۔ ایجنسی جس پر اطلاعات میں معانی پہنانے کا دارومدار ہے
جب شعوری حواس کا غلبہ ہوتا ہے تو انسان کی نگاہ دن دیکھتی ہے اور جب معانی پہنانے
والی ایجنسی پر شعور کا غلبہ ختم ہوجاتا ہے اور لاشعوری تحریکات شروع ہوجاتی ہیں
تو انسان رات دیکھتا ہے۔آدمی کسی بھی لمحہ حواس سے آزاد نہیں ہوتا۔ جب شعوری حواس
کا غلبہ نہیں رہتا تو لاشعوری حواس غالب ہوجاتے ہیں۔
’’ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن میں اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔‘‘
(سورۃ الحج۔آیت61)
اللہ تعالیٰ کے اس ارشادمیں یہ بات بتائی گئی ہے کہ رات اور دن دوحواس ہیں
یعنی ہماری زندگی دوحواسوں میں سفر کرتی ہے۔ ایک حواس کا نام دن ہے اور دوسرے حواس
کا نام رات ہے۔ دن کے حواس میں ہم زمان و مکاں کے پابند ہیں اور رات کے حواس میں
ہم زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہوجاتے
ہیں۔
اللہ تعالیٰ نےحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو کائنات پر حاکمیت عطا کی ہے۔
حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ دن، رات ، چاند، سورج اور ستاروں پر بھی سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام حکمران ہیں۔
’’اس نے تمہارے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کررکھا ہے اور
سب ستارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں۔
اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔‘‘(سورۃالنحل۔
آیت12)
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لئے مسخر کررکھا ہے جو
زمین میں ہے اور اسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اس کے حکم سے سمندر
میں چلتی ہے اور وہی آسمان کو اسی طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین
پر نہیں گرسکتا۔ بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔‘‘(سورۃ
الحج ۔آیت65)
’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمین کی ساری چیزیں
تمہارے لئے مسخر کررکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر رکھی ہیں
اور انسانوں میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس
کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا ہدایت ہو یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب ہو۔‘‘(سورۃ
لقمان ۔آیت20)
’’وہ اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے
حکم سے کشتیاں اس میں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر گزار ہو۔ اس نے
آسمانوں اور زمین کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے، سب کچھ اپنے پاس
سے، اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر کرنے والے ہیں۔‘‘(
سورۃالجاثیہ۔آیت12تا13)
حضرت علیؓ کی نماز قضا ہوئی اور ابوجہل اور یہودی عالم نے شق القمر کے
معجزے کے بارے میں کہا تو حاکم کائنات سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان
اختیارات کا استعمال کیا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں سورج کو مسخر کرنے، چاند کو مسخر
کرنے اور کائنات کو مسخر کرنے کے لئے عطا فرمائے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان