Topics
جب مسلمان مکہ سے مدینہ پہنچے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار
اور مہاجرین میں مواخات کا رشتہ قائم فرمایا۔ اس طرح اکثر انصار نے اپنی تمام
جائیداد مہاجرین میں برابر کی بنیاد پر تقسیم کر لی۔ یہ زمین پر ہونے والے اس
بھائی چارے کی عظیم مثال ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سحر انگیز شخصیت کی
بدولت ہوئی۔
سود کو سختی سے منع کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بیع (تجارت) کو حلال
کیا ہے اور سود حرام کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ سے
ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو ،اگر واقعی تم
ایمان لائے ہو، لیکن اگر تم نے ایسا نہیں
کیا ،تو آگاہ ہوجا�ؤ کہ اللہ تعالیٰ اور
اس کے رسول کی طرف تمھارے خلاف اعلان جنگ ہے۔‘‘
(سورۃ البقرہ ۔آیت 278تا 279)
سود کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دولت سمٹ کر چند افراد کے پاس جمع
ہوجاتی ہے۔ عوام کی قوت خرید روز بروز کم ہوتی رہتی ہے۔ صنعت ، تجارت اور زراعت میں کساد بازاری(بازار
میں خرید و فروخت کانہ ہونا) واقع ہوتی ہے اور آخرکار خود سرمایہ داروں کے لئے بھی اپنی جمع شدہ دولت کو افزائش
دولت کے کاموں میں لگانے کاموقع باقی نہیں رہتا۔ اس کے برخلاف زکوٰۃ ،صدقات کا حکم اس لیے دیا گیا کہ قوم کے
تمام افراد میں دولت تقسیم ہوتی رہے۔ ہر شخص میں قوت خریدموجود رہے، صنعتی ترقی
ہو، کھیتیاں سرسبز ہوں، تجارت کو خوب فروغ حاصل ہو۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوگوں میں محنت کا جذبہ ابھارا۔ گداگری
کو ختم کردیا ، کاروبار کرنے کی طرف رغبت دلائی حصول رزق کے مختلف ذرائع تلاش کرنے کے لئے متوجہ
کیا۔ تجارت کی جانب ترغیب دلائی۔
جن لوگوں کی ملکیت میں ایسی زمینیں تھیں جو وہ خود کاشت نہیں کرسکتے
تھے تو ایسی زمینیں ان سے لے کر ایسے کاشت کاروں میں مفت تقسیم کردیں جو زمین کی ملکیت سے محروم
تھے اور حکم دیا کہ جو کسی بنجر زمین پر محنت کرکے قابل کاشت بنائے وہ اس کا مالک ہے۔
۱۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے ارشاد فرمایا کہ’’ مزدور سے کام لینے سے پہلے مزدوری طے کرلی جائے اور
کام کرنے کے فوراً بعد پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کردی جائے۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ ۔جلد
2۔حدیث600)
۲۔ لوگوں میں امانت داری
کا جذبہ پیدا کیا۔ قرض اور ادھار وقت مقررہ پر ادا کرنے کی ترغیب فرمائی۔ معاملات
میں نرمی برتنے کا حکم دیا اور وعدوں کی پابندی کو تجارت کا لازمی جزوقرار دیا۔
۳۔ تجارت کے معاملات میں
سچ بولنے کا حکم دیا اور سکھایا کہ معاملہ خواہ مسلم سے ہویا غیر مسلم سے
ہوایماندار رہو اور وعدہ پورا کرو۔
۴۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے ذخیرہ اندوزی، اناج میں ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کومنع فرمایا ہے۔
فرمایا کہ ذخیرہ اندوز کے اناج سے صدقہ قبول نہیں اور ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے
نہیں۔
۶۔ محنت کرنے والا اللہ
تعالیٰ کا دوست ہے
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں میں علم و حکمت اور معیشت کی
اہمیت کا شعور پیدا کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا
نہیں ہے اور حضرت داؤد ؑ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ ‘‘
(مشکوٰۃ شریف جلد3۔حدیث2)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے ایمان والو! اپنی حلال کمائی میں سے خرچ
کرو۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ آیت 267)
ایک مرتبہ ایک بے روزگار صحابیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے
سوال کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ’’ تمہارے پاس کسی قسم کی کوئی
چیز ہے‘‘، انہوں نے عرض کیا کہ ہاں ایک کمبل ہے، نیز ایک پیالہ ہے۔حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے پاس لے آؤ ۔ کسی صحابی نے ان چیزوں کے دو درہم
دام لگائے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دونوں چیزیں ان کے حوالے کردیں اور دو
درہم اس بے روزگار صحابی کو دے دیئے اور ارشاد فرمایا کہ ایک کلہاڑی خرید کر لاؤ
اور فرمایا کہ جاؤ اس کلہاڑی سے جنگل جاکر لکڑیاں کاٹو۔۔۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا
اور پندرہویں دن حاضر خدمت ہوئے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا کیا حال ہے؟
۔۔۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس عرصہ میں دس درہم کی آمدنی ہوئی جن میں سے چند درہم کے
میں نےکپڑے خریدے اور چند درہم کا اناج!۔۔۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
کہ ’’یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ اور قیامت کے دن ذلّت
اٹھاؤ۔‘‘
(ابو داؤد ترمذی، سنن ابن ماجہ
)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زکوٰۃ کا نظام نافذفرمایا۔اس نظام میں
اپنی آمدنی میں سے مخصوص حصہ غربا و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس طرح
معاشرتی ناہمواری کاتدارک کیا گیا۔ اس کے علاوہ جزیہ، غنیمت کا خمس، صدقات، ہنگامی
چندہ، قرض حسنہ اور وقف املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے امور سلطنت چلانے اور غریب لوگوں کی معا شی بحالی کے لئے استعمال کیا۔
اس طرح لوگوں میں عزت نفس کی بحالی کے بعد مملکت کی تعمیری ترقی میں حصہ لینے کی
قوت پیدا کی۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چند ہاتھوں میں دولت مرکوز ہونے کا
تدارک فرمایا ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صاحب حیثیت لوگوں میں غریبوں کو فیاضی
سے صدقہ دینے کا جذبہ پیدا کیا اور حکم دیا کہ کھانے سے پہلے دیکھ لو کہ ہمسائے
میں کوئی بھوکا تو نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے جذبہ ایثار اور سخاوت
سے لوگوں کومعاشی عدلکے لئے تیار کیا اور قرض خواہوں کو غریب قرضداروں کے قرضے
معاف کرنے کی ترغیب فرمائی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صاحب حیثیت لوگوں کو صدقہ جاریہ کی
تبلیغ کی۔ چنانچہ صاحب ثروت افراد نے اپنی جائیداد کو عوام الناس کے لئے وقف کرنا
شروع کردیا جس سے معاشرے میں محروم اور معذور افراد کی مدد و کفالت کا بندوبست
ہوگیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وراثت کے قوانین میں انقلابی تبدیلیاں
کیں۔ ورثہ، بیٹوں، بیٹیوں، ماں اور بیوی میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ ان انقلابی
اقدام کے باعث دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہو اہے کہ عورتیں بھی وراثت میں
حصہ داربن گئیں۔ صاحب جائیداد نے ملک کی معاشی ترقی میں خود محنت کرکے حصہ لینا
شروع کردیا۔ اس طرح اسلام نے عورتوں کو معاشی استحصال سے نجات دلاکر معاشرے کا
فعال رکن بنا دیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوگوں کو سکھایا کہ میانہ روی نصف
معیشت ہے ۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے :
’’وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے
ہیں نہ بخل کرتے ہیں، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر
قائم رہتا ہے۔‘‘(سورۃ الفرقان ۔آیت67)
یہ ایک ایسی تعلیم ہے جو اپنے زمانے کے لحاظ سے اور آج تک انتہائی
اہم اور انقلابی نوعیت کی ہے اس سے پہلے جہالت کے باعث لوگ اس کی اہمیت و ضرورت سے
ناواقف تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی قائم کردہ ریاست کیلئے بھی محاصل ناگزیر
تھے۔ ان محاصل کے مداخل ومخارج پر گفتگو سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ ریاست کی
آمدنی و اخراجات وغیرہ کی تنظیم وترتیب کیلئے ایک باقاعدہ شعبہء محاصل قائم تھا ۔
اس شعبہ کے تحت ریاست کی آمدنی اور خرچ کا حساب رکھا جاتا تھا اور پھر اس کا
احتساب بھی ہوتا تھا۔ یہ شعبہ خود مختلف شاخوں میں تقسیم تھااو ر ہر شاخ کے ذمہ
دار اور ہر محاصل کے افسران الگ الگ تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس شعبہ کی بہتر کارکردگی کی طرف پوری
توجہ دی اور ایسے لوگوں کوذمہ داریاں سپردکیں جو اس کے اہل تھے اور اخلاق و کردار
، علمِ دین و دنیا، حساب کتاب اور انشاء وکتابت میں مہارت رکھتے تھے۔
مال غنیمت دراصل ایک اتفاقی آمدنی ہے جو میدان جنگ میں بزور حاصل ہوتی
ہے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بدر کی غنیمت کو تمام مسلمانوں میں تقسیم کردیا
تھا۔لیکن جنگ بدر کے بعد قرآن کے حکم کی تعمیل میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اس کے
پانچ حصے کرتے تھے ۔ اس میں سے چار حصے تو شرکائے جنگ میں تقسیم فر مادیتے تھے اور
ایک حصہ بیت المال کے لئے محفوظ رکھا کرتے تھے ۔ جسے اصطلاحاً خمس کہتے ہیں۔ خمس
کے مصارف کو قرآن نے متعین کردیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور تمھیں معلوم ہے کہ جو کچھ مال غینمت تم
نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں
اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے ۔‘‘
(سورۃ انفال ۔آیت 41)
اس امر سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پہلے پہل جب بیت المال قائم ہوا تو
ابتدائی آمدنی کے وقت سے ہی غریب و مسکین اور نادار لوگوں کو نظرانداز نہیں کیا
گیا۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیت المال کے خمس کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ قوم
کی فلاح اور ضرورت مندوں کی امدادپر صرف ہوتا تھا۔
ریاست نبوی کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ فَے بھی تھا۔ محدود معنو ں میں
فَے سے مراد وہ مفتوحہ زمینیں ہیں جو بغیرجنگ و فوج کشی کے براہِ راست ریاست کی
ملکیت میں آتی تھیں۔مثلاًحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۴ھ میں بنو نظیر کو جلا وطن کیا
تو ان لوگوں کے باغات اور کھیت اسلامی ریاست کے قبضے میں آگئے۔ اسی طرح بعد میں
بنو قریظہ کا مال و اسباب اور علاقہ ملا نیز خیبر کے قریب کئی علاقے بغیر جنگ کے
اسلامی ریاست کو مل گئے۔ چونکہ یہ مال غنیمت سے بالکل الگ نوعیت کاتھااسلئے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے قرآن کی روشنی میں سرکاری قرار دیا۔
یہ وہ محصول اراضی ہے جو غیر مسلموں سے وصول کیاجاتاتھا۔ یہ سب سے
پہلے خیبر سے حاصل ہوا۔ فتح خیبر کے وقت چونکہ ایک طرف خود مسلمانوں کے پاس اتنے
وسائل نہیں تھے کہ وہ مفتوحہ زمینوں کی دیکھ بھال اور کاشت وغیرہ بآسانی کراسکیں
دوسری طرف
یہود
نے یہ پیش کش کی تھی کہ وہ ریاست نبوی کے اسامی کی حیثیت سے اس زمین پر کاشت کریں
گے۔ خراج مجاہدین کی تنخواہوں اور دوسری قومی ضروریات پر خرچ کیا جاتا تھا۔ اسلام
سے قبل مصر، ایران ،روم وغیرہ کی سلطنتوں میں خراج اورجزیہ کے محصولوں کا رواج
موجود تھا۔
جزیہ وہ محصول تھا جوغیر مسلمین سے انکی جان ، مال آبرو کی حفاظت
اورعقائد کی آزادی اور فوجی خدمت سے استثنا کے بدلے میں وصول کیا جاتا تھا۔ نیز
جزیہ غیر مسلموں میں سے صرف آزاد مردوں پر واجب تھا۔ عورتوں،بوڑھوں اور بچوں پر
نہیں۔
اسی طرح غریب ،معذور اور راہب بھی اس سے مستثنیٰ تھے۔
زکوٰۃ اسلام کا ایک بنیادی رکن ، ایک اہم فرض اور مالی عبادت ہے۔
اقتصادی پالیسی کے ذیل میں یہ گویا ایک قسم کا محصول تھا جو صرف مسلمانوں پر واجب
الادا تھا اور صرف ان لوگوں سے وصول کیا جاتاتھا جو بالغ ، خود کفیل اور صاحب نصاب
ہوں۔زکوٰۃ کی حقیقی غرض و غایت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں یہ تھی:
’’زکوٰۃ مالداروں سے لی جائے اورناداروں میں تقسیم کی جائے۔‘‘
(جامع ترمذی ۔جلد 1حدیث626،سنن ابو داؤد۔جلد1حدیث1570)
فقہا کے بیان کے مطابق زکوٰۃ ہر اس مال پر واجب ہوتی ہے جو خود بڑھتا
ہو یاکام کرکے بڑھایاجاسکتا ہو تا کہ صاحب مال پاک ہوجائے اور حاجت مندوں کی حاجت
روائی ہو۔
۱۔ نقدی (سونااو ر چاندی)
۲۔ پھل اور زرعی پیداوار
۳۔مویشی
۴۔ اسبابِ تجارت
قرآن کریم میں زکوٰۃ کے مصارف کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے۔ اس کی
روسے زکوٰۃ کوفقرا اور مساکین، عاملین صدقات، قرابت داروں، فی سبیل اللہ اور
مسافروں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔
زکوٰۃاور صدقات میں فرق صرف یہ ہے کہ صاحب نصاب پر زکوٰۃ کی ادائیگی
لازمی ہے جبکہ صدقات مسلمان اپنی خوشی سے ریاست کو دیا کرتے تھے۔ البتہ کچھ ان میں
ضروری بھی تھے۔ مثلاً صدقۃ الفطر۔قرآن کی رو سے صدقات کے مصارف بھی وہی ہیں
جوزکوٰۃ کے ہیں اور زکوٰۃ کی طرح اس کی وصولی کا انتظام بھی ریاست نبوی میں سرکاری
طور پر ہوتا تھا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان