Topics
’’یقیناًاللہ تعالیٰ نے تمہاری بدر میں مدد
کی جب تم کمزور تھے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔‘‘(سورۃآلِ
عمران۔آیت 123)
غزوہ بدر کا معرکہ17 رمضان، 2 ہجری میں مسلمانوں اور قریش مکہ کے
درمیان پیش آیا۔ بدر کا مقام مدینہ سے 80 میل اور مکہ سے 220 میل کے فاصلے پر واقع
ہے۔ یہ مقام شام کے راستے سے قریب ہے۔
۱۔۔۔ قریش کا خط بنام
عبداللہ بن ابی
مسلمانوں نے جب قریش کی گرفت سے آزاد ہوکر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت
کی توقریش کا غیض وغضب بہت زیادہ ہوگیا، چنانچہ انہوں نے عبداللہ بن اُبی کو خط
لکھا:
’’آپ لوگوں نے محمد رسول اللہ ( علیہ
الصلوٰۃوالسلام) کو پناہ دے رکھی ہے ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ آپ
ان سے لڑائی کیجئے یا انھیں نکال دیجئے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو ہم اپنی پوری طاقت
کے ساتھ حملہ کردیں گے۔ آپ کے سارے مرد ختم ہوجائیں گے اور ساری عورتوں کی عزت
پامال ہوجائے گی۔‘‘
اس خط کے پہنچتے ہی عبداللہ بن اُبی اپنے بھائیوں کے حکم کی تعمیل
میں مستعد ہوگیا۔ وہ پہلے سے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف تھا۔ اسکے ذہن
میں یہ بات تھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مدینے میں اس کی بادشاہت ختم کی
ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن اُبی اور اسکے رفقا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جنگ کیلئے
جمع ہوئے۔جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کواس کی خبر ہوئی توآپ علیہ الصلوٰۃوالسلام
اس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:
’’قریش کی دھمکی نے تم لوگوں پر بہت بُرا اثر
کیاہے تم لوگ خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہچانا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو
نقصان نہیں پہنچا سکتے، تم لوگ اپنے بیٹے اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو۔‘‘
چونکہ عبداللہ بن اُبی اور اسکے ساتھیوں کے اکثر رشتہ دار ایمان
لاچکے تھے اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات باآسانی ان کی سمجھ میں آگئی
اور ان حالات میں عبداللہ بن اُبی جنگ کے ارادے سے باز آگیا اب اس کے ساتھی بھی
لڑنا نہیں چاہتے تھے۔
۲۔۔۔ حضرت سعدؓ بن معاذ
کی ابوجہل سے تکرار
حضرت سعدؓ بن معاذنے جب عمرے کا ارادہ کیا تو وہ امیہ بن خلف کے ہاں
مہمان ہوئے۔ ایک دن حضرت سعدؓ امیہ کو ساتھ لیکر بیت اللہ کی طرف نکلے تو ابوجہل
سے ملاقات ہوگئی۔ ابوجہل نے پوچھا:’’تمہارے ساتھ کون ہے؟‘‘
امیہ نے کہا:’’میرے ساتھ سعدؓ ہیں۔‘‘
ابوجہل نے حضرت سعدؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’تم لوگوں نے ’’بے دین
لوگوں‘‘ (مسلمانوں) کو پناہ دے رکھی ہے اور ان کی ہر طرح سے امداد و تعاون کررہے
ہو! میں ہرگز یہ نہیں دیکھ سکتا کہ تم لوگ آکر کعبہ کا طواف کرو۔ خدا کی قسم! اگر
تم امیہ کے ساتھ نہ ہوتے تو زندہ بچ کر نہیں جاسکتے تھے۔
’’اگر تم ہمیں حج اور طواف سے منع کروگے تو
ہم بھی تمہارا مدینہ والا راستہ بند کردیں گے۔‘‘ حضرت سعدؓ نے با آواز بلند کہا:
اہل مکہ کی معیشت کا سارا دارومدار اس تجارت پر تھا جو اہل مکہ شام
کے ساتھ کیا کرتے تھے، کیونکہ مکہ کی سرزمین تو ’’وادی غیر ذی زرع‘‘ (ناقابل زراعت
) تھی، وہاں غلہ کی پیداوار سرے سے ہوتی ہی نہیں تھی۔ ان کی دولت اون، کھالیں اور
چمڑا وغیرہ تھی۔ اہل مکہ یہ چیزیں شام لے جا کر فروخت کردیا کرتے تھے اور وہاں سے
ضروریاتِ زندگی خرید لاتے تھے۔ اس مقصد کے لئے ان کے تجارتی قافلے اکثر و بیشتر
شام کی طرف آتے جاتے رہتے تھے اور شام جانے کیلئے بہر صورت مدینہ کے پاس سے ہوکر
گزرنا پڑتا تھا۔ اگر اہل مدینہ تجارت کا یہ راستہ بند کردیتے تو اہل مکہ فاقہ کشی
پر مجبور ہوجاتے۔ ابوجہل اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا، اس لئے حضرت سعدؓ کی دھمکی
سننے کے بعد اسے کچھ بولنے کا حوصلہ نہ ہوا۔
قریش نے مسلمانوں کو پیغام پہنچایا کہ تم اس بات پر مغرور نہ ہونا کہ
مکہ سے باحفاظت نکل آئے ہو ہم مدینے پہنچ کر تمھارے ساتھ جنگ کریں گے۔ ان حالات
میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام رات جاگ کر گزارتے تھے یا صحابہ کرامؓ کے پہرے میں
سوتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کوحفاظت کی بشارت
فرمائی۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’لوگو! واپس جاؤاللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کاوعدہ
فرمایاہے۔‘‘حالات جب دگرگُوں ہوگئے
اور قریش کسی بھی طرح باز نہ آئے تواللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دے دی
۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف
جنگ کی جارہی تھی، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ تعالیٰ یقیناًان کی مدد پر قادر
ہیں۔‘‘ (سورۃ الحج۔ آیت 39)
۳۔۔۔ تجارتی شاہراہ
جنگی حکمت عملی کے تحت مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح قبیلہ قریش
نے مدینہ کو معاشی محاصرے میں لیا ہوا تھا اسی طرح وہ بھی مکہ کے تجارتی قافلوں کو
مدینہ سے گزرنے نہ دیں۔
۴۔۔۔ ابوسفیان کا تجارتی
قافلہ
قریش نے مسلمانوں کی ہجرت کیساتھ ہی مدینے پر جنگ کرنے کی تیاریاں
شروع کردی تھیں۔حملے کیلئے سب سے بڑی ضرورت جنگ کے اخراجات تھے۔ قریش کا جو کاروان
تجارت کے لئے شام روانہ ہوا تو مکے کی آبادی نے رقوم مہیا کیں۔ اس تجارتی قافلے
میں عورتوں نے بھی حصہ لیا۔مدینے کی حدود سے گزر کر مکہ جانے والے اس قافلہ میں
ایک ہزار اونٹ تھے جن پر قیمتی سامان تھا۔ روایت کے مطابق اس سامان کی مالیت کم و
بیش *باسٹھ کلو سونے کے برابر تھی۔ اس قافلے کی حفاظت کیلئے چالیس آدمی مقرر
تھے۔ابو سفیان کا یہ تجارتی قافلہ مکے سے شام جاتے ہوئے بچ نکلا تھا۔ یہی قافلہ جب
شام سے واپس آنے والا تھا تو کسی فتنہ پرداز نے افواہ اُڑادی کہ مسلمان اس قافلے
کو لُوٹ لیں گے۔ابو سفیان کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ سخت خوفزدہ ہوگیا۔ اسی وقت ایک
تیز رفتار قاصد ضمضم بن عمروالغفاری کو مکہ کی طرف روانہ کیا اور ہدایت کی کہ قریش
کو اطلاع کردے کہ جس قدر ممکن ہو اپنے اس مالِ کثیر سے بھرے ہوئے تجارتی قافلہ کی
خبر لیں اور اپنا سرمایہ بچائیں کیونکہ مدینہ سے محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام) اپنے
اصحاب کے ہمراہ اس قافلہ سے تعارض کے لئے روانہ ہوئے ہیں۔
ضمضم بہت جلد مکہ پہنچ گیا۔ اپنی فریاد کو مؤثر بنانے کے لیے اس نے
اپنے اونٹ کے ناک اور کان کاٹ دئیے۔ کجاوا الٹ دیا اور اپنی قمیض پھاڑ کر نہایت
درد ناک آواز میں چلانے لگا ۔ ’’اے جماعتِ قریش!قافلے کو پہنچو، قافلے کو پہنچو۔ ابو سفیان تمہارا جو
مال لے کر آرہا ہے ، اس پر محمد( علیہ الصلوٰۃوالسلام) اوران کے ساتھیوں نے حملہ
کردیا ہے۔مجھے امید نہیں ہے کہ تم اس کو بچا سکو ۔ فریاد ہے، فریاد ہے۔‘‘ضمضم کا واویلا سن کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے
اور کہنے لگے کیا محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا مال رائیگاں
چلا جائے۔ ہم اپنے مال کی حفاظت کے لئے جائیں گے اور دیکھیں گے کہ ان مسلمانوں پر
کیا گزرتی ہے۔ اس طرح بظاہر تو انہوں نے شجاعت و حمیت کا مظاہرہ کردیا ، مگراندرسے
سب کے دل لرز رہے تھے کیونکہ انہی دنوں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پھوپی عاتکہ
نے ایک خواب دیکھا تھا۔
بی بی عاتکہ نے خواب دیکھا کہ شتر سوار مکہ سے باہر کھڑا ہے اور
باآواز بلند کہہ رہا ہے
’’اے دھوکے بازو! تین دن کے بعد اس طرف روانہ
ہوجاؤ جہاں تم نے قتل ہوکر گرنا ہے۔‘‘
اس کی آواز سن کر مجمع لگ گیا اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ وہاں
سے چل کر وہ سوار مسجد حرام میں آیا اورکعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر لوگوں سے مخاطب
ہوکر وہی اعلان کیا ہے۔ پھر دفعتاً وہ سوار جبل ابو قبیس کی چوٹی پر نظر آیا اور
یہی اعلان کرنے لگا۔ اسکے بعد اس نے جبل ابو قبیس کی چوٹی سے ایک پتھر نیچے کی طرف
لڑھکا دیا۔ وہ پتھر نیچے آیا اور ٹوٹ گیا اور اسکے ٹکڑے اُڑ اُڑ کر اہلِ مکہ کے
گھروں میں گرنے لگے۔ بی بی عاتکہ کہتی ہیں کہ مکہ کا کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس
میں اسکا کوئی ٹکڑا نہ گرا ہو۔صبح ہوئی تو بی بی عاتکہ نے یہ خواب اپنے بھائی عباس
کو سنایا اور کہا کہ کسی اور سے اس کا ذکر نہیں کرنا۔ عباس نے راز داری کے ساتھ
یہی خواب اپنے دوست کو سنایا۔ اس طرح جلد ہی یہ بات سارے مکہ میں پھیل گئی۔ تیسرے
دن حضرت عباس حرم میں گئے تو وہاں ابو جہل چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے
حضرت عباس کو دیکھتے ہی کہا:
______________________________________________
*سال ۲۰۱۱ء میں باسٹھ کلوسونے کی
قیمت31,89,710(اکتیس لاکھ ،نواسی ہزار،سات سودس )امریکی ڈالر ہے۔
’’تمہارے مرد تو نبوت کے دعوی دار تھے ہی۔۔۔ اب تمہاری عورتوں نے بھی
نبوت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا ہے۔ ‘‘
کیا مطلب۔۔۔؟ کس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ حضرت عباس نے حیرت سے
پوچھا۔
یہ عاتکہ نے جو خواب بیان کیا ہے یہ نبوت کا مظاہرہ نہیں تو اور کیا
ہے؟
عاتکہ کے بیان کے مطابق کسی سوار نے اہل مکہ سے کہا ہے کہ تین دن کے
بعد اس طرف روانہ ہوجاؤ جہاں تم نے قتل ہوکر گرنا ہے۔ اب ہم تین دن تک انتظار کریں
گے۔ اگر تین دن تک کچھ نہ ہوا تو ہم سب متفقہ طور پر تم لوگوں کے بارے میں لکھ دیں
گے کہ تمہارا گھرانہ عرب کا سب سے جھوٹا گھرانہ ہے۔ ابھی گفتگو ہورہی تھی کہ ابو
سفیان کا قاصد ضمضم بن عمر و الغفاری مکہ میں داخل ہوا اور اس نے چیخ چیخ کر ابو
سفیان کا پیغام سنانا شروع کردیا۔ گویا تیسرے دن ہی عاتکہ کے خواب کی صداقت ظاہر
ہونا شروع ہوگئی۔
ابو سفیان کا پیغام سنتے ہی مکہ میں ہلچل مچ گئی۔ قریش میں کوئی مرد
و عورت ایسا نہ تھا جس نے اپنی پوری پونجی و سرمایہ اس لشکر کے لئے خرچ نہ کیا ہو۔
قریش کے غیظ و غضب کا بادل بڑے زور سے اُٹھا اور تمام عرب پر چھا گیا۔ قریش کے بڑے
بڑے سردار اور ہر قبیلے کے لوگ جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔ مکہ میں دو طرح کے لوگ تھے
یا تو آدمی خود جنگ کے لئے تیار تھا یااس نے اپنی جگہ کسی دوسرے کو نامزد کردیا
تھا۔ معززین
مکہ میں سے کوئی پیچھے نہ رہا۔ صرف ابولہب نے اپنی جگہ ایک آدمی کو بھیجا جو اس کا
مقروض تھا۔ گردو پیش کے قبائل کو بھی قریش نے بھرتی کیا۔ ان کے پیش نظر یہ نہیں تھا کہ قافلے کو بچایا جائے بلکہ وہ اس ارادے
سے نکلے تھے کہ آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے اور قبائل کو اس حد
تک مرعوب کردیں کہ آئندہ کے لئے یہ تجارتی شاہراہ بالکل محفوظ ہوجائے۔
لشکر کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ جن کے پاس ایک سو گھوڑے اور چھ
سو زرہ تھیں۔ اونٹ کثرت سے تھے۔ لشکر کا سپہ سالار ابو جہل تھا۔ قریش بڑے تکبر و غرور سے گانے
بجانے والی عورتوں اور طبلوں کو ساتھ لے کر اکڑتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ
ہوئے۔ غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے بہت سارے اونٹ ساتھ لیے۔ جہاں پڑاؤ ہوتا اونٹ
ذبح کیے جاتے، گوشت بھونا جاتا، گانے والی عورتیں شجاعت و انتقام کے مضامین پر
مشتمل نظمیں گا کر جذبات اُبھارتیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے قریش کے اس لشکر
کے بارے میں فرمایا:
’’ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور
لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے ،
جو کچھ وہ کررہے ہیں اللہ اسے گھیر لینے والا ہے۔‘‘(سورۃ الانفال۔ آیت 47)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر وقت حالات سے باخبر رہتے تھے۔ حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت طلحہؓ بن عبید اور حضرت سعیدؓ بن زید کو حالات کا پتہ
لگانے کیلئے روانہ فرمایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو ان حالات کی اطلاع ملی
توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صحابہ کرام ؓ کو جمع کیا اور قریش کے لشکر کی روا
نگی کے بارے میں ان کو بتایا۔
’’ ایک طرف شمال میں تجارتی قافلہ ہے اور
دوسری طرف جنوب سے قریش کا لشکر آرہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے ان دونوں میں سے
ایک پر ہمارا غلبہ ہوجائے گا۔‘‘
’’اور (یاد کرو) جب وعدہ کر رہا تھا تم سے
اللہ تعالیٰ ایک کا دو گروہوں میں سے کہ وہ تمہیں مل جائے گا اور تم یہ چاہتے تھے
کہ کمزور گروہ مل جائے تمہیں اور ارادہ تھا اللہ تعالیٰ کا یہ کہ ثابت کر دکھائے
حق کو اپنے ارشادات سے اورکاٹ دے جڑ کافروں کی تاکہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ
کردے خواہ ناگوار گزرے مجرموں کو۔‘‘ (سورۃ الانفال۔آیت7تا 8)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار و مہاجرین سے فرمایا:
’’ بتاؤ تم کس سے مقابلہ کرناچاہتے ہو؟‘‘
ایک گروہ نے عرض کیا:
’’ ابوسفیان کے قافلے پر حملہ کیاجائے ۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر دریافت فرمایا۔
حضرت مقدادؓبن عمرو نے عرض کیا:
’’یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام !جس طرف
آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے رب آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو حکم دے رہے ہیں حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام اس طرف چلیے۔ جس طرف بھی آپ جائیں،ہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے
ساتھ ہیں۔ ہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ اس وقت تک رہیں گے جب تک ہمارے جسم
میں جان ہے ۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انصار کو مخاطب کیے بغیر اپنا سوال
دہرایا۔ حضرت سعدؓبن معاذ اٹھے اور عرض کیا:
’’شاید حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا روئے
سخن ہماری طرف ہے ؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:’’ہاں‘‘
حضرت سعدؓ نے کہا:
’’ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان
لائے ہیں، حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تصدیق کرچکے ہیں کہ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام جو کچھ لائے ہیں وہ حق ہے اورحضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام سے عہد کر
چکے ہیں۔ اے اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام !جو کچھ آپ علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے ارادہ فرمایاہے ہم اس سے متفق ہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام کو حق کیساتھ بھیجا ہے۔ اگر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہمیں
سمندر میں لے جائیں توہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ سمندر میں اُتر جائیں
گے اور ہم میں سے ایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم دل وجان سے حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ ہیں۔ انشاء اللہ جنگ میں ثابت قدم رہیں گے اور حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام جنگ میں ہماری جان نثاری دیکھ لیں گے۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ساتھیوں کے پُر جوش جذبے اور ہمت
کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ ابوسفیان کے قافلے پر حملہ نہیں کریں گے بلکہ جنوب کی
طرف سے آنے والے قریش کے لشکر کی طرف پیش قدمی کریں گے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے اس فیصلے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کبھی مال و
دولت کو اہمیت نہیں دی۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کایہ فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ
نہیں تھا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام روانگی کیلئے تیارہوئے توحضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے ہمراہ تین سو افراد تھے (یعنی ۳۱۳ یا ۳۱۴ یا ۳۱۷) جن میں سے ۸۲ یا ۸۳ یا ۸۴ مہاجر تھے اور باقی
انصار تھے۔ اس لشکر نے غزوے کا کوئی خاص اہتمام نہیں کیا تھا نہ مکمل تیاری تھی۔
لشکر میں صرف دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے، جن میں سے ہر اونٹ پر دو
یاتین آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔ ایک اونٹ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام، حضرت
علیؓ اور حضرت مرثدؓ بن ابی مرثدغنویٰ کے حصے میں آیا تھا جن پر تینوں حضرات باری
باری سوار ہوتے تھے۔ لشکر کی تنظیم اس طرح کی گئی کہ ایک لشکر مہاجرین کا بنایا
گیا اور ایک انصار کا۔
مہاجرین کا علم حضرت علیؓ بن ابی طالب کو دیا گیا اور انصار کا علم
حضرت سعدؓ بن معاذ کو اور جنرل کمان کا پرچم جس کا رنگ سفید تھا حضرت مصعبؓ بن
عمیر کو دیا گیا۔ میمنہ (دائیں جانب) کے افسر حضرت زبیرؓ بن عوام مقررکئے گئے اور
میسرہ (بائیں جانب) کے افسر حضرت مقدادؓ بن اسود۔پورے لشکر میں صرف یہی دونوں بزرگ
شہسوار تھے۔ لشکر کے ساقہ (آخری حصہ) کی کمان حضرت قیسؓ بن ابی صعصعہ کے حوالے کی
گئی اور سپہ سالار اعلیٰ کی حیثیت سے جنرل کمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود
سنبھالی۔
سامان جنگ ناکافی تھا، مگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے ساتھی سمجھ چکے تھے کہ یہ وقت جان کی بازی لگانے کا ہے اس لئے
اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر انہوں نے جنوب مشرق کی طرف مارچ
(march) کیا۔ اس طرف سے قریش کالشکر
آرہا تھا۔
قریش کو بدر کے قریب حجفہ کے مقام پر پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ
ابوسفیان کا قافلہ خطرے سے نکل گیا ہے تو قبیلہ زہرہ اورعدی کے سرداروں نے کہا:
’’اب لڑنا ضروری نہیں ہے۔‘‘
ابوجہل کھڑا ہوگیا اور نہایت غرور و تکبر سے بولا:
’’خدا کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے۔ بدر
جاکر وہاں تین روز قیام کریں گے، خوب کھائیں گے، پئیں گے اور جشن منائیں گے اور
سارا عرب ہمارے ا س سفر کا حال سنے گا اور ہمیشہ کے لئے مسلمانوں پر ہماری دھاک
بیٹھ جائے گی۔‘‘
زہرہ اور عدی کے لوگوں نے ابوجہل کی جب یہ بات سنی تو انہیں یقین ہوگیا
کہ یہ محض اقتدار کی جنگ ہے۔ ابوجہل کے دل میں بنوہاشم کے بارے میں حسد اور بغض ہے
اور محض اس لئے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی مخالفت کر رہا ہے۔
چنانچہ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے۔ لشکر نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اب لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی اور اس
کا رخ بدر کی جانب تھا۔ بدر پہنچ کراس نے ایک ٹیلے کے قریب پڑاؤ ڈالا۔یہ ٹیلہ وادئ
بدر کے جنوب میں واقع ہے اور انہوں نے مناسب جگہوں پر چوکیاں بنالیں۔
سرور دو عالم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عدوۃ الدنیاکی طرف سے وادی
بدر میں داخل ہوئے۔ مسلمانوں نے جس جگہ قیام کیا وہاں کوئی چشمہ یا کنواں نہیں
تھا۔ زمین ریتیلی تھی۔ اونٹوں کے پاؤں ریت میں دھنس رہے تھے۔
حضرت خبابؓ بن منذر نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! اس جگہ
پر قیام کا حکم آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہے یا یہ ایک
جنگی تدبیر ہے؟۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:
’’یہ محض ایک جنگی تدبیر ہے ۔ ‘‘
حضرت خبابؓ بن منذر نے عرض کیا
’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام یہ جگہ
قیام کیلئے مناسب نہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام آگے تشریف لے چلیں اور قریش کے
سب سے نزدیک جو چشمہ ہے اس پر قبضہ کرلیں، اس طرح سارے پرانے کنویں ہمارے عقب میں
ہوجائیں گے پھر ہم سارے کنوؤں کو بند کردیں گے اور صرف ایک کنواں رہنے دیں گے اور
وہاں ایک حوض بناکر پانی جمع کرلیں گے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ رائے پسند فرمائی اور اس پر عمل کیا
گیا۔
اس رات اللہ تعالیٰ نے بادل بھیج دیئے خوب موسلادھار بارش ہوئی۔
مسلمان ریتیلے علاقے میں خیمہ زن تھے۔ بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور مسلمان آسانی
سے چلنے پھرنے لگے۔ لیکن قریش نے جس جگہ خیمے ڈالے تھے وہاں بارش سے ہر طرف کیچڑ
بن گئی۔ چلنا پھرنا دُشوار ہوگیا۔ رات بھر وہ اپنے خیموں میں محصور ہوکر بیٹھے
رہے۔
اس احسان کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے :
’’اورجبکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی
برسایاکہ تم کو پاک کرے۔‘‘
(سورۃالانفال۔ آیت 11)
جگہ جگہ پانی کو روک کر چھوٹے چھوٹے حوض بنالئے گئے۔اگرچہ پانی اس
طرح محفوظ کرلیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
دشمنوں کو بھی پانی لینے کی اجازت مرحمت فرمادی۔
صحابہ کرامؓ چشمے پر پڑاؤ ڈال چکے تو حضرت سعدؓ بن معاذنے یہ تجویز
پیش کی کہ کیوں نہ مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کیلئے ایک مرکزِ قیادت
تعمیرکردیں تاکہ خدانخواستہ فتح کے بجائے شکست ہوجائے یا ہنگامی حالات پیش آجائیں
تو اس کیلئے ہم پہلے ہی سے تیار رہیں، چنانچہ انہوں نے عرض کیا:
’’اے اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام!کیوں نہ ہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کیلئے ایک چھپر تعمیر کردیں جس میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام تشریف رکھیں گے اور ہم حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کیلئے سواریاں تیار
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان