Topics
سوال:
گھر میں سب سے بڑی ہوں۔ عمر 25سال اور غیر شادی شدہ ہوں۔ گھر میں میری کوئی حیثیت
نہیں ہے۔ مجھے جس طرح اپنوں کی اور غیروں کی باتیں سننا پڑتی ہیں اس کا اندازہ آپ
نہیں لگا سکتے۔ والدین کا کہنا ہے کہ تم اپنا انتظام خود کرو کیونکہ ہم نے تمہیں
پڑھا لکھا کر نوکر کرا دیا ہے۔ تم جانو اور تمہارا کام۔ اس سلسلے میں وہ کافی غلط
باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جنہیں میں دہرا نہیں سکتی۔ بہن بھی میرے خلاف ہے اگرچہ مجھ
سے بہت چھوٹی ہے۔ میں بیان نہیں کر سکتی کہ وہ مجھ سے کتنی اور کس حد تک بدکلامی
کرتی ہے۔ کہتی ہے کہ تم میرے راستے کی رکاوٹ ہو جب سننے کی قوت جواب دے جاتی ہے تو
بول پڑتی ہوں۔ والدین کے خیال میں اس بات کی قصوروار میں خود ہوں کہ اب تک میری
شادی نہیں ہوئی۔ کہیں بات ہونے لگے تو گھر والوں کے رویے کی وجہ سے بات نہیں بنتی۔
کبھی والدین کہتے ہیں کہ تم لکھ دو کہ میں
شادی نہیں کرو ں گی۔ میں یہ کیسے کروں جبکہ میں جانتی ہوں کہ غیر شادی شدہ لڑکی کو
معاشرہ کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔
خواہ وہ کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو۔ کبھی سوچتی ہوں کہ سروس کے لئے دور چلی جاؤں۔
شاید گھر کی تلخی کم ہو جائے۔ مزید تفصیل کیا بتاؤں بس یہ سمجھ لیں کہ ہوش
سنبھالنے سے لے کر آج تک سکون نام کی چیز کو ترس رہی ہوں۔ اک مسلسل عذاب ہے جو
مجھے مل رہا ہے۔ میں نے 25سال کی عمر میں پہنچ کر بھی آج تک اپنے خیالوں کو آلودہ
نہیں کیا۔ پھر یہ کیسی سزا ہے ، کیا اس سزا کی کوئی حد بھی ہے، کوئی وظیفہ تجویز
کر دیجئے۔
جواب:
اللہ کے ذکر سے آدمی کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے۔ آپ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے،
وضو بغیر وضو کے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں اور گھر میں زیادہ دیر خاموش رہا
کریں۔ زیادہ باتیں کرنے سے بھی آدمی کی قدرومنزلت کم ہو جاتی ہے اور ایسے آدمی کی
باتیں جس کے لہجہ میں طنز کی کاٹ ہو بہت محسوس ہوتی ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ احساس
کمتری میں مبتلا آدمی کے لہجہ میں طنز کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔