Topics

مراقبہ

سوال: میں تقریباً دس سال سے آپ کی تحریروں کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ آج سے کوئی چار ماہ پہلے میں نے آپ کی اجازت سے مراقبہ کی کوشش شروع کی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ نے کسی جگہ تحریر کیا تھا کہ مراقبہ کرتے وقت آنکھوں پر روئیں دار کپڑا یا تولیہ باندھ لیا جائے۔ کیا یہ عمل مراقبہ کا لازمی جزو ہے جبکہ مراقبہ ذہن کو کسی ایک تصور یا نقطہ پر مرکوز کرنے کا نام ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔

جواب: مراقبہ کی حالت میں باطنی نگاہ سے کام لینا مقصود ہوتا ہے۔ اور یہ مقصد اس ہی طرح پورا ہو سکتا ہے کہ آنکھ کے ڈیلوں کو زیادہ سے زیادہ معطل رکھا جائے۔ بیداری میں آنکھوں کے ڈیلوں پر جلدی غلاف متحرک رہتا ہے۔ جب یہ غلاف حرکت کرتا ہے تو ڈیلوں پر ہلکی ضرب لگاتا ہے اور آنکھ کو ایک لمحہ کے لئے روشنیوں اور مناظر سے منقطع کر دیتا ہے۔ مادی اشیاء کا احساس ہلکی ضرب کے بعد روشنیوں سے انقطاع چاہتا ہے اس اثناء میں ذہن کو بتا دیتا ہے کہ میں نے کیا دیکھا ہے جن چیزوں کو ہم مادی خدوخال میں محسوس کرتے ہیں اور چیزوں کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے آنکھوں کے مادے ڈیلے اور غلاف کی حرکات ضروری ہیں۔ اگر ہم انہی چیزوں کی مصنوعی شکل و صورت کا احساس بیدار کرنا چاہیں تو اس عمل کے خلاف اہتمام کرنا ہو گا۔ اس صورت میں آنکھ کو بند کر کے آنکھ کے ڈیلوں کو معطل اور غیر متحرک کر دینا ضروری ہے۔ نگاہ مادی حرکات اور روحانی حرکات دونوں میں ایک مشترک آلہ ہے دیکھنے کا کام بہرحال نگاہ ہی انجام دیتی ہے۔ جب ہم آنکھوں کے مادی وسائل کو معطل کر دیں گے اور نگاہ کو متوجہ رکھیں گے تو لوح محفوظ کے قانون کے مطابق نگاہ اپنا کام کرنے پر مجبور ہو گی اور کسی چیز کی معنوی شکل و صورت کو لازمی دیکھے گی۔ اس مشق یا عمل کا نام مراقبہ ہے۔ مراقبہ میں آنکھیں بند کر کے ذہن کو کسی ایک تصویر پر مرکوز کیا جاتا ہے۔ اگر ہم مندرجہ ذیل قانون سے اور زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیں تو کسی روئیں دار کپڑے یا تولیہ کو اس طرح باندھ سکتے ہیں کہ آنکھوں پر زورنہ پڑے اور ڈیلوں پر ایک ہلکا سا اضافی دباؤ پڑے۔ گویا روئیں دار کپڑے کا استعمال ایک اضافی مدد ہے ورنہ آنکھیں بند کر کے تصور کرنے سے بھی کافی حد تک مقصد پورا ہو جاتا ہے۔


Topics


Roohani Daak (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔

آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔