Topics
سوال: جناب اعلیٰ! آپ کا کالم روحانی ڈاک خاص طور سے پڑھتا ہوں اور اپنے علم کی پیاس بجھاتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اسی طرح خدمت خلق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میرے ذہن میں اکثر چند سوالات ابھرتے ہیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ آپ کو تحریر کر دوں تا کہ تسلی بخش جواب مل جائے۔
۱۔ روح ایک غیر مادی شئے ہے جو کہ ہم کو نظر نہیں آتی مگر ہم بعض اوقات اسے دیکھ لیتے ہیں۔ مثلاً علم روحانیات کے عامل یا پھر بعض اوقات خواب وغیرہ میں ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو کہ اس دنیا میں نہیں ہوتے۔ جب روح غیر مادی شئے ہے تو وہ ہمیں کس طرح نظر آتی ہے؟
۲۔ مرنے کے بعد روح اس دنیا میں رہتی ہے یا آسمانوں پر چلی جاتی ہے؟
۳۔ آپ کے کسی کالم میں پڑھا تھا کہ انسان کے ساتھ ایک اور جسم ہوتا ہے جسے ہمزاد کہتے ہیں۔ اس کا کیا کام ہوتا ہے؟
۴۔ مرنے کے بعد قبر میں عذاب وغیرہ ہوتا ہے اور وہ بھی جسم کو جبکہ اصلی شئے تو روح ہے جو کہ آزاد ہوتی ہے اور سارے افعال انسان روح کی بدولت ہی سرانجام دیتا ہے۔
۵۔ مرنے کے بعد اولیاء کرام اپنے مزارات میں زندہ ہوتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے۔ امید ہے کہ آپ اپنے علم کی روشنی میں جوابات سے نوازیں گے۔
جواب: (۱) روح کے ستر ہزار پرت ہوتے ہیں۔ یہ پرت روشنی اور نور کے ہوتے ہیں۔ ہم جس روح کو دیکھتے ہیں وہ روشنی کا بنا ہوا جسم ہے۔
(۲) مرنے کے بعد روح عالم اعراف میں رہتی ہے اور پیدائش سے پہلے روح عالم برزخ میں رہتی ہے۔
(۳) گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کے اوپر ایک جسم ہوتا ہے جو روشنیوں کا بنا ہوا پورا جسم ہوتا ہے یعنی اس جسم کے ہاتھ، پیر، سر آنکھیں وغیرہ سب اسی طرح ہوتے ہیں جس طرح مادی جسم کے ہوتے ہیں۔ اس کو قلندر بابا اولیاءؒ نسمہ اور سائنس دان AURAکہتے ہیں۔
(۴) مرنے کے بعد قبر میں جو کچھ پیش آئے گا وہ اس روشنی کے بنے ہوئے جسم کے ساتھ پیش آئے گا۔
(۵) اگر ہم کسی طریقے سے اپنے روشنی کے بنے ہوئے جسم سے متعارف ہو جائیں تو ٹائم اور اسپیس سے آزاد ہو کر اس دنیا اور دوسری دنیا کے حالات معلوم کر سکتے ہیں۔
(۶) اولیاء اللہ تو اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔ میرے عزیز مرنے کے بعد فنا تو کوئی بھی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے۔ جب قبرستان جاؤ تو کہو۔ السلام علیکم یا اہل القبور۔ حضرت پاک کا ارشاد ہے کہ قبر میں رہنے والے لوگ تمہارے سلام کا جواب دیتے ہیں لیکن تم نہیں سنتے۔ اگر لوگ فنا ہو گئے ہیں تو سلام کون سنتا ہے اور سلام کا جواب کون دیتا ہے۔ یاد رکھئے میرے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی فرمان حکمت سے خالی نہیں ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔