Topics
سوال: مذہبی تعلیمات اور معتقدات میں بہت سی غیبی ایجنسیوں کا تذکرہ آتا ہے، مثلاً جنات، فرشتے، آسمان، جنت، دوزخ، عرش و کرسی وغیرہ وغیرہ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ چیزیں وجود رکھتی ہیں تو پھر ہمیں دیگر اشیاء کی طرح نظر کیوں نہیں آتیں؟ یا کسی شخص میں از طرف قدرت یہ صلاحیت کیوں نہیں ہوتی کہ وہ زمان و مکاں سے ماورا ہو کر دیکھ سکے؟
جواب: ایک بچہ جب اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے تو اس وقت اس کے شعور کی حالت کو ہم مندرجہ ذیل مساوات سے ظاہر کر سکتے ہیں۔
بچہ کا شعور =آدم کا شعور+نوع انسانی کا شعور+ماں باپ کا شعور
جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے اس کے شعور میں اضافی چیزیں داخل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس طرح اس کے شعور کی ساخت میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اب ہم اس کے شعور کو مندرجہ ذیل مساوات سے ظاہر کر سکتے ہیں۔
شخص کا شعور=آدم کا شعور+نوع انسانی کا شعور+ماں باپ کا شعور+ماحول کا شعور
مساوات نمبر ایک کی رو سے بچہ نوعی اعتبار سے کائنات کے کنبے کا ایک فرد ہوتا ہے اور اس حیثیت میں اس کا ذہن باقی اشیاء کائنات سے ارتباط رکھتا ہے۔ وہ غیبی ایجنسیوں کو پوری طرح دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔
جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے ماحول کے تصورات، نظریات اور اثرات پوری شدت سے اس پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں۔ یہ عمل دانستہ اور نادانستہ دونوں طرح ہوتا ہے اور اس سے کوئی بچہ نہیں بچ سکتا۔ ماحول کی اطلاعات تکرار اور تسلسل کے ساتھ ملتی ہیں کہ وہ بچہ کا شعوری پیٹرن بن جاتی ہیں۔ مثلاً بچہ وہی زبان بولتا ہے جو اس کے والدین کی زبان ہوتی ہے حالانکہ والدین اسے زبان سکھاتے نہیں بچہ کو جب چاند سے روشناس کرایا جاتا ہے تو یہ بات کہی جاتی ہے کہ چندا ماموں آسمان پر ہیں۔ اور ساتھ ہی کوئی عزیز انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کر کے یہ بات بچہ ذہن نشین کر دیتا ہے کہ چاند ہم سے بہت دور فاصلہ پر ہے۔ اس طرح فاصلہ کے ساتھ وقت کی لمبائی بھی بچہ کے ذہن میں پیوست ہو جاتی ہے۔ چنانچہ فاصلے اور وقت کا احساس برابر بچے کے ذہن میں پیوست ہوتا رہتا ہے اور یہ احساس اس نوعی شعور سے باہر نہیں ہو سکتا جو آدم کی نوع کا ورثہ ہے، والدین اور اعزا کے ذریعے متواتر یہ خبر ملتی رہتی ہے کہ یہ ہمارا گھر ہے، یہ سکول ہے، یہ ستارہ ہے ، یہ درخت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم ان اطلاعات پر یقین کرتے ہیں اور پھر یہ اطلاعات ہی ہمارا حافظہ اور تجریہ قرار پا جاتی ہیں۔ بصارت کے ساتھ ساتھ آواز بھی فاصلے اور وقت کا احساس پیدا کرتی رہتی ہے۔ قریب سنانے کے لئے آہستہ آواز میں بولا جاتا ہے اور دور سنانے کے لیے بلند آواز میں۔ دوری اور قرب کا یہ طریقہ کار بچے کے اندر وقت کی پابندی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ سارے تجربات اور اطلاعات وقت اور فاصلے کو اس طرح انسانی بچہ پر مسلط کر دیتے ہیں کہ اس کی ہر صلاحیت اور ہر حس وقت اور فاصلے کے اندر مقید ہو جاتی ہے۔ جیسے جیسے بچہ اس قید کی زندگی میں عمر گزارتا ہے اسی مناسبت سے وہ لازماً نیت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
انسانی ذہن کو جو بھی اطلاع ملتی ہے وہ لازمانیت سے ملتی ہے اور یہی لازمانیت نئی نئی اطلاعات زمانیت(وقت) کے اندر ارسال کرتی رہتی ہے۔ اگر ہم لازمانیت کے ایک لفظ سے تشبیہ دیں تو اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس نقطہ میں کائنات کی یکجائی کا پروگرام نقش ہے۔ لہروں کے ذریعے اس نقطہ سے جب کائنات کا یکجائی پروگرام نشر ہوتا ہے تو انسان کی حافظہ کی سطح سے ٹکراتا اور بکھرتا ہے، بکھرتے ہی ہر لہر مختلف شکلوں اور صورتوں میں مظہر بن جاتی ہے۔ چونکہ انسان کا حافظہ جبلی طور پر (فطری نہیں) محدود ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ کسی چیز کو قریب، کسی کو دور کسی کو بہت دور اور کسی کو غائب(یعنی غیب میں) دکھاتا ہے۔ اگر ہم اس نقطہ کو تلاش کر لیں جہاں کائنات کی یکجائی پروگرام منقوش ہے تو فاصلہ کالعدم ہو جاتا ہے۔
یہی قانون غیبی ایجنسیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہمارا نوعی ورثہ غیبی ایجنسیوں کو خود سے دور اور مخفی تصور کرتا ہے اور یہ بات اس کے یقین میں داخل ہے کہ غیبی مظاہر کو دیکھا نہیں جا سکتا یہی یقین غیبی مظاہر کے شہود ہیں۔ پردہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیبی مظاہر کو دیکھنے کے لئے سب سے پہلا قدم انہیں تسلیم کرنا ہے اس لئے کہ جب تک یہ بات یقین میں داخل نہیں ہو گی کہ پس پردہ کچھ موجود ہے ذہن اس کو دیکھنے کی طرف مائل نہیں ہو گا۔ اسی کو قرآنی اصطلاح میں ایمان بالغیب کہتے ہیں مثلاً اگر ہمیں یہ یقین نہ ہو اور ہمیں یہ اطلاع نہ بہم پہنچائی جائے کہ لندن کوئی شہر ہے ۔ اس وقت تک ہم لندن جانے کے لئے قدم نہیں اٹھائیں گے۔ اور لندن کی حیثیت ہمارے لئے غیب کی ہو گی۔
موجودہ زمانے میں چاند پر پہنچنا اسپیس شپ کی ایجاد اور بہت سے دوسرے لاسلکی نظام اس بات کی واضح علامت ہیں کہ انسان کا لازمانیت سے ہر وقت اور ہر لمحہ تعلق ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی اصل (لازمانیت) سے رشتہ منقطع نہیں کر سکتے۔ یہ صلاحیت بربار کروٹیں بدلتی رہتی ہیں اور ہم اس صلاحیت کو وقت کی گرفت کے ساتھ ساتھ استعمال کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایجادات اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ انسانی شعور برابر راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ جب یہ فرار مکمل ہو جائے گا تو نہ انسان کو اسپیس شپ کی ضرورت ہو گی اور نہ راکٹ کی۔ وہ کائنات میں اپنے ارادے سے خیال کی رفتار سے سفر کرنے اور غیبی ایجنسیاں اس کے شہود میں ہونگی۔ کوئی شخص اگر چاہے تو اس صلاحیت کو حاصل کر سکتا ہے۔ قدرت نے زمانے اور وقت سے بالاتر ہو کر یہ صلاحیت ہر شخص کے ودیعت کر دی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔