Topics
سوال: روحانی علم کہتا ہے کہ مراقبہ کے ذریعے زمان و مکان کی نفی ہو جاتی ہے۔ یعنی آدمی ماضی اور مستقبل کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بات واقع ہو گئی اس کا وجود ختم ہو گیا اور جو چیز مستقبل میں ہونے والی ہے وہ ابھی ہوئی نہیں پھر ہم زمانہ حال میں ماضی اور مستقبل کو کس طرح معلوم کر سکتے ہیں۔
جواب: ہماری زندگی اطلاعات پر قائم ہے۔ زندگی کے کسی علم کو ہم اطلاع کے دائرے سے باہر نہیں کر سکتے۔ خیال اطلاع کا مظہر ہے۔ بھوک پیاس، رنج و غم نسل کشی کا جذبہ، معاش کا خیال غرض زندگی کی کسی قدر کو خیال سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خیال پر ہمارا ارادہ اختیار کام نہیں کرتا۔ خیالات ارادے اور اختیار کے بغیر ذہن میں وارد ہوتے رہتے ہیں اور ذہن کسی بھی لمحے خیال کی گرفت سے آزاد نہیں ہوتا۔
خیالات ہم تک روشنی کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ اب یہ کہنا پڑے گا کہ روشنی اور اطلاع ایک ہی چیز ہے۔ اطلاع مختلف زاویوں سے ذہن انسانی میں وارد ہوتی ہے اور انسانی ادراک اسے ماضی، حال اور مستقبل کا نام دیتا ہے۔ ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ ہمارے نظام شمسی سے الگ کوئی نظام ایسا نہیں ہے جس کی روشنی ہم تک چار برس سے کم عرصہ میں پہنچتی ہو۔ وہ ایسے ستارے بھی بتاتے ہیں جن کی روشنی ہم تک ایک کروڑ سال میں پہنچتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم اس سیکنڈ میں جس ستارے کو دیکھ رہے ہیں وہ ایک کروڑ سال پہلے کا لمحہ ہے۔ غور طلب ہے کہ ان دونوں لمحوں کے درمیان جو ایک اور بالکل ایک ہیں ایک کروڑ سال کا وقفہ ہے۔ یہ ایک کروڑ کہاں گئے؟ معلوم ہوا ہے کہ ایک کروڑ سال فقط طرز ادراک نے صرف لمحہ کو کروڑ سال پر تقسیم کر دیا ہے۔ جس طرح طرز ادراک گذشتہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھ سکتی ہے اس طرح یہ تحقیق ہو جاتا ہے کہ ازل سے ابد تک کا تمام وقفہ فقط ایک لمحہ ہے۔ جس کو طرز ادراک نے ازل سے ابد تک کے مراحل میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس ہی تقسیم کو مکان یا اسپیس کہا جاتا ہے۔ گویا ازل سے ابد تک کا تمام وقفہ مکان ہے اور جتنے حوادث کائنات نے دیکھے ہیں وہ سب ایک لمحہ کی تقسیم کے اندر مقید ہیں۔ یہ ادراک کا اعجاز ہے جس نے ایک لمحہ کو ازل تا ابد کا روپ عطا کر دیا ہے۔
مراقبہ کے ذریعے جب آدمی کا ذہن اس ادراک میں داخل ہو جاتا ہے جو ازل تا ابد کا انکشاف کرتا ہے تووہ موجودہ لمحہ کے اندر ماضی یا مستقبل کو دیکھ سکتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔