Topics
سوال: قرآن کی ایک آیت ہے:
ترجمہ: ’’اور ہم نے ہر چیز کو لکھ کر ضبط کر رکھا ہے۔ ‘‘
اس آیت پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر حرکت کو پہلے ہی سے لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے یعنی ماضی، حال اور مستقبل پہلے ہی سے محفوظ ہیں۔ عرض یہ ہے کہ کیا روحانی طرزوں پر کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی اس تحریر کا مطالعہ کر سکتا ہے؟
جواب: تمام آسمانی صحائف اور الہامی کتابیں وہ صحف ابراہیمی ہوں، زبور ہو، انجیل ہو، تورات ہو یا آخری کتاب قرآن ہو ہر کتاب اور الہامی تحریر ہمیں یہ علم عطا کرتی ہے کہ زندگی کے تقاضے، زندگی کے تمام اعمال و حرکات اور زندہ رہنے کی کل طرزیں زندگی کے تمام نشیب و فراز کن کہنے کے ساتھ ہی ایک سطح پر نقش ہو گئے۔ یعنی کائنات اور کائنات کی زندگی کامل طرزوں کے ساتھ ایک ریکارڈ کی حیثیت میں موجود ہے۔ جس جگہ، جس سطح پر یا جس اسکرین پر کائنات اپنے پورے خدوخال کے ساتھ ریکارڈ ہے یا محفوظ ہے الہامی کتابیں اسے ’’لوح محفوظ‘‘ کا نام دیتی ہیں۔
زمین کی سطح پر جو کچھ مظاہرہ ہو رہا ہے وہ دراصل لوح محفوظ پر بنی ہوئی فلم کا مظاہرہ(DISPLAY) ہو رہا ہے۔ سائنسی زبان میں اس بات کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ ایک پروجیکٹر ہے۔ اس پروجیکٹر پر ایک فلم لگی ہوئی ہے۔ وہ فلم جب چلتی ہے تو جہاں جہاں اسکرین موجود ہے وہاں وہاں پر فلم نظر آتی رہتی ہے۔ اس قانون سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہماری زمین کی طرح بے شمار زمینیں موجود ہیں۔ جس طرح ہماری زمین پر انسانی آبادی ہے۔ اسی طرح کائنات میں موجود بے شمار سیاروں پر بھی انسان آباد ہیں اور وہاں بھی زندگی گزارنے کے تمام وسائل موجود ہیں۔
پروجیکٹر پر ایک فلم لگی ہوئی ہے۔ پروجیکٹر پر فلم اس وقت اسکرین پر منعکس نہیں ہوتی جب تک کہ پروجیکٹر کو کوئی روشنی فیڈ(FEED) نہ کرے۔ لوح محفوظ پر چلنے والی فلم کو جو روشنی متحرک کرتی ہے وہ اللہ کی تجلی ہے۔ اللہ کی اس تجلی کا عکس براہ راست تحت لاشعور پر پڑتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب کوئی بندہ اپنے اندر موجود تحت لاشعور کو دیکھ لیتا ہے یا اپنے اندر موجود لطیفہ اخفی سے واقف ہو جاتا ہے تو دراصل وہ اللہ کی تجلی کا مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اس کے سامنے یہ بات آ جاتی ہے کہ ’’کن‘‘ کہنے سے پہلے عالم موجودات کی کیا حیثیت تھی اور کن کہنے کے بعد کائنات کی کیا حیثیت ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔