Topics
سوال: میرے گلے میں غدود یا تھائی رائیڈ گلینڈ بڑھ گئے ہیں گلا سوج گیا ہے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ میں اس تکلیف میں چھ سال سے مبتلا ہوں۔ ڈاکٹر آپریشن تجویز کرتے ہیں۔ میرے بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس بیماری کی وجہ آسیب ہے اس لئے آپریشن سے فائدہ نہیں ہو گا۔
جواب: جب عقیدہ کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر یقین کمزور ہو جاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وسوسوں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ آج کا دور بے یقینی اور شک کا دور ہے۔ لوگ زبان سے تو اللہ اور اس کے رسول کا ذکر کرتے ہیں مگر دلوں میں توہمات اور شیطانی خیالات کی حکمرانی ہے لوگ ہر الجھن اور بیماری کا جو صحیح تشخیص یا کسی وجہ سے ٹھیک نہ ہو تو آسیب یا جادو کا اثر کہنے لگتے ہیں۔ امر واقعی یہ ہے کہ کسی قوم کے افراد میں یہ تصور زہر قاتل ہے۔ اب آپ خود غور کریں کہ گلے میں غدود بڑھنے کا آسیب سے کیا رشتہ ہو سکتا ہے۔ کیا آسیب گلے کی کسی تکلیف کا نام ہے؟ اینٹی بائیوٹک دواؤں کےزیادہ استعمال سے خون کمزور ہو جاتا ہے دماغ پر خشکی واقع ہو جاتی ہے۔ نیند اڑ جاتی ہے۔ مسلسل دماغ پر دباؤ رہنے کی وجہ سے الٹھے سیدھے خواب نظر آنے لگتے ہیں اور آدمی پکار اٹھتا ہے کہ میرے اوپر جادو کرایا گیا ہے۔ اس خیال کو بزعم خود عام حضرات نے بھی بہت طاقتور بنا دیا ہے۔ ان کے پاس جب مریض جاتا ہے تو وہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ جادو کرایا گیا ہے۔ اور یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی تصدیق کرنے کے لئے کوئی طریقہ مریض کے پاس نہیں ہے۔ اگر عامل حضرات لوگوں کو اس طرح خوف زدہ نہ کریں تو ان کی دکانیں ماند پڑ جائیں۔ آپ کے اوپر ہرگز آسیب نہیں ہے۔ یہ بیماری ہے اس کا علاج یہ ہے کہ زرد شعاعوں سے السی کا تیل تیار کر کے غدود کی جگہ ہلکے ہاتھ صبح شام پانچ منٹ تک مالش کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔