Topics

نبوت کے گیارہویں سال

نبوت کے گیارہویں سال عقبہ کے اسی مقام پر مزید بارہ افراد سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دینِ حنیف میں داخل ہونے کے بعد ان سے یہ عہد لیا گیا ۔

۱۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کریں گے ۔

۲۔ تخریب اور برے اعمال سے دور رہیں گے ۔

۳۔ جان ومال کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت کریں گے۔

۴۔ اسلام کی حمایت اورسربلندی کیلئے مشرکین سے لڑناپڑاتولڑیں گے۔ 

مدینہ میں اسلام کاسفیر

عقیدہ توحید سے سرفراز ہوکر یہ لو گ واپس جانے لگے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے ہمراہ مدینے میں اپنا پہلا سفیر بھیجا جن کا نام حضرت مصعبؓ بن عمیر تھا تاکہ وہ مسلمانوں کو اسلامی احکام کی تعلیم دیں اور انہیں دین کے آداب سکھائیں۔

قابلِ رشک کامیابی

حضرت مصعبؓ مدینہ پہنچے اور حضرت اسعدؓ بن زرارہ کے گھر میں قیام فرمایا۔ حضرت اسعدؓ بن زرارہ مدینے کے معزز آدمی تھے۔ پھر دونوں نے مل کر مدینہ میں جوش و خروش سے اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ تبلیغ کے سلسلے میں ان کی کامیابی کا ایک نہایت شاندار واقعہ یہ ہے کہ ایک روز حضرت اسعدؓ بن زرارہ حضرت مصعب ؓ کو اپنے ہمراہ لے کر بنی عبدالاشہل اور بنی ظفر کے محلے میں تشریف لے گئے اور وہاں بنی ظفرکے ایک باغ میں مرق نامی ایک کنویں کے پاس بیٹھ گئے ان کے پاس چند مسلمان بھی جمع ہوگئے۔ اس وقت تک بنی عبدالاشہل کے دونوں سردار یعنی سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ انہیں جب خبر ہوئی تو سعد بن معاذ نے اسید بن حضیر سے کہا :

’’جاؤ اور ان دونوں کو، جو ہمارے کمزور لوگوں کو بیوقوف بنانے آئے ہیں، ہمارے محلے میں آنے سے منع کردو چونکہ اسعد بن زرارہؓ میری خالہ کا لڑکا ہے اسلئے تمہیں بھیج رہا ہوں ورنہ یہ کام میں خود انجام دیتا۔‘‘

حضرت اسید ؓ کاقبولِ اسلام

اسید بن حضیر ان دونوں کے پاس پہنچے ۔ حضرت اسعدؓ بن زرارۃ نے انہیں آتا دیکھ کر حضرت مصعبؓ سے کہا: ’’یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پاس آرہا ہے اسکے ساتھ اخلاق سے پیش آنا اور حق کا پیغام دینا۔‘‘

اسید بن حضیر پہنچے توان کے پاس کھڑے ہوکر سخت غصہ سے کہا :

’’تم دونوں یہاں کیوں آئے ہو؟ لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو؟یاد رکھو! اگر تمہیں اپنی جان عزیزہے تویہاں سے چلے جاؤ۔‘‘
حضرت مصعبؓ نے نہایت تحمل سے جواب دیا :

’’آپ کچھ وقت ہمارے پاس بیٹھیں اور ہم جو کہتے ہیں اسے سن لیجئے۔ اگر کوئی بات پسند آجائے تو قبول کرلیں، پسند نہ آئے توقبول نہ کریں۔‘‘

اسید نے کہا:

’’بات منصفانہ کہہ رہے ہو۔‘‘

وہ بیٹھ گئے، حضرت مصعبؓ نے اسلام کی بات شروع کی اور قرآن حکیم کی تلاوت کی۔ قرآن سن کر انہوں نے کہا:

’’یہ بہت عمدہ کلام ہے۔تم لوگ اس دین میں جب داخل کرتے ہو تو کیا کرتے ہو۔‘‘

حضرت مصعبؓ نے کہا:

’’ پہلے آپ غسل کرلیں، پھر کلمۂ شہادت پڑھیں اور دورکعت نماز ادا کریں۔‘‘

انہوں نے اٹھ کر غسل کیا، کلمۂ شہادت پڑھا اوردورکعت نماز اداکی اور پھر بولے:

’’اگر میرا ساتھی بھی تمہارا پیروکار بن جائے تواس کا قبیلہ مسلمان ہوجائے گا اور میں اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔‘‘(اشارہ سعدبن معاذ کی طرف تھا)

اس کے بعد حضرت اسیدؓ بن حضیر سعد بن معاذ کے پاس پہنچے ۔ جو اپنی قوم کے ساتھ محفل میں بیٹھے تھے۔ حضرت اسیدؓ بن حضیر کودیکھ کر بولے :

’’بخدا میں کہتا ہوں کہ اسیدؓ تمہارے پاس جوچہرہ لے کر آرہا ہے یہ وہ چہرہ نہیں ہے جس چہرے میں وہ گیا تھا۔‘‘

پھر جب حضرت اسیدؓ بن حضیر محفل میں پہنچے تو سعد بن معاذ نے ان سے دریافت کیاکہ تم نے کیا دیکھا؟

انہوں نے کہا:

’’میں نے ان دونوں سے بات کی واللہ مجھے کوئی حرج نظر نہیں آیا۔‘‘

اس کے بعد سعد بن معاذ حضرت مصعبؓ کی طرف روانہ ہوئے۔ 

حضرت سعد ؓ کاقبولِ اسلام

ادھر حضرت اسیدؓبن حضیر نے حضرت معصبؓ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا:

’’ بخدا تمہارے پاس ایک ایسا سردار آرہا ہے جسکے پیچھے اسکی پوری قوم ہے۔ اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو پھر ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔‘‘

حضرت مصعبؓ نے سعد بن معاذ سے کہا

’’کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں، اگر کوئی بات پسند آگئی توقبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات آپ سے نہیں کہیں گے۔‘‘ 

سعدبن معاذنے کہا،’’آپ انصاف کی بات کہتے ہیں۔‘‘

حضرت مصعبؓ نے ان کے سامنے اسلام کی تعلیمات پیش کیں ۔

اسکے بعدسعد بن معاذ نے فرمایا،’’تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو۔‘‘

انہوں نے کہا

’’آپ غسل کرلیں، کپڑے پاک کرلیں، پھر حق کی شہادت دیں، پھر دو رکعت نماز ادا کریں ۔‘‘

سعد بن معاذنے ایساہی کیا اور واپس اپنی قوم کی محفل میں تشریف لے گئے۔ 

لوگوں نے دیکھتے ہی کہا:

’’ہم بخداکہہ رہے ہیں کہ سعد بن معاذ جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسرا چہرہ لے کر پلٹے ہیں ۔‘‘

پھر حضرت سعدؓ اہلِ مجلس کے پاس آکر رُکے اور بولے:

’’اے بنی عبدالاشہل!تم لوگوں کی رائے میرے بارے میں کیا ہے؟‘‘

انہوں نے کہا

’’آپ ہمارے سردار ہیں، سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔‘‘

حضرت سعدؓ نے کہا:

’’اچھا تو سنو! میں ایمان لے آیا ہوں۔ اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت اس وقت تک بند ہے جب تک تم لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (علیہ الصلوٰۃوالسلام) پرایمان نہ لاؤ۔‘‘ان کی اس بات کا یہ اثر ہو اکہ قبیلہ بنی عبدالاشہل کی تمام عورتیں اور مرد مسلمان ہوگئے۔ 

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان