Topics
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
حضور کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہوتا تو نہ میں تم
کو وہ پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تم کو اس کی اطلاع دیتا، کیونکہ میں اس سے
پہلے ایک عمر تک تم میں رہ چکا ہوں۔ تو کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟(سورہ یونس۔آیت16)
والدین کے حقوق کے سلسلے میں حضرت ابو عمامہؓ سے روایت ہے:
ایک شخص نے عرض کیا:
’’یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! والدین
کے اولاد پر کیا حقوق ہیں؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ وہ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔‘‘(مشکوٰۃ شریف۔
جلد چہارم۔ حدیث 867)
حضرت عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے :
ایک شخص نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام! میرے
پاس دولت ہے اور میں صاحب اولاد ہوں اور میرے والد مجھ سے دولت طلب کرتے ہیں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’تم بھی اپنے باپ کا مال ہو اور تمہارا مال
بھی۔‘‘(سنن ابن ماجہ۔ جلد دوئم ۔حدیث 449)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا:
’’ یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام !میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق
دار کون ہے؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’تمہاری ماں۔‘‘
پھر اس نے عرض کیا :’’اور کون؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’تمہاری ماں۔‘‘
پھر پوچھا :’’اور کون ؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’تمہاری ماں۔‘‘
اس شخص نے پھر سوال کیا :’’حسن سلوک کا اور کون مستحق ہے؟‘‘
چوتھی بار فرمایا:’’تمہارا باپ‘‘۔
(صحیح مسلم۔ جلد سوئم۔ حدیث 2004,2003)
حضرت مغیرہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے یقیناًتم پر ماں کی نافرمانی اور بیٹیوں کا زندہ دفن
کرنا حرام قرار دیا ہے۔‘‘
(مشکوٰۃ شریف۔ جلد چہارم۔ حدیث 841)
کامیاب گھریلو زندگی کا دارومدار میاں بیوی کے تعلقات پر قائم ہے۔
قرآن کریم نے میاں بیوی کے تعلق کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اگر میاں بیوی کے تعلقات اچھے
ہوں تو گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے،اگر میاں بیوی کے تعلقات اچھے نہ ہوں تو گھر
جہنم بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ نے تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے پیدا کیے ہیں تاکہ تمہیں
ان سے آرام و سکون ملے۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میں محبت اور ہمدردی کے
جذبات پیدا فرمائے۔‘‘(سورۃ الروم ۔آیت 21)
اچھا گھر وہ ہے جس میں میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی ہو۔ گھر میں
آرام و سکون ہو۔شوہر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بیوی کو سکون، اعتماد اور تحفظ
فراہم کرے اور ضروری ہے کہ شوہر وفادار ہو۔بیوی کے حقوق کا خیال رکھے، گھر کے
چھوٹے بڑے معاملات میں شوہر دلچسپی لے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات طیبہ میں ہمیں یہ تمام خوبیاں نظر
آتی ہیں۔
میاں بیوی کے حقوق
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔‘‘ (سورۃ النساء ۔ آیت19)
حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد
فرمایا:
’’ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لئے بہتر ہے۔‘‘(سنن ابن
ماجہ،جلد دوئم ،حدیث 135)
میاں بیوی کے تعلقات میں بنیادی عمل ’’وفا‘‘ ہے۔ وفا ایک ایسا رشتہ
ہے جو فریقین کو ایک دوسرے کے قریب رکھتا ہے۔ وفا کی بہترین مثال حضرت خدیجہؓ ہیں۔
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت خدیجہؓسے بے انتہا محبت
تھی۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حضرت خدیجہؓ سے شادی ہوئی توحضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی عمر مبارک ۲۵سال تھی اور ۲۵سال تک حضرت خدیجہؓ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی شریک حیات رہیں۔
اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے تعلقات کے بارے میں فرمایا ہے:
’’میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔‘‘ (سورۃ البقرہ ۔ آیت 187)
حضرت خدیجہؓ اور حضور علیہ الصلوٰ والسلام کا ذہنی تعلق اس حد تک تھا
کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پہلی وحی کا تذکرہ حضرت خدیجہؓ سے فرمایا۔ ذہنی ہم
آہنگی اتنی تھی کہ حضرت خدیجہؓ نے فوراً تصدیق کی کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔
میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی رسالت پر ایمان لاتی ہوں۔ حضرت خدیجہؓ نے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے اپنا سارا مال ومتاع وقف کردیا جو دینِ اسلام کے لئے
خرچ ہوا۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معمول
رہا کہ اگر گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تھا تو حضرت خدیجہؓ کی ہم نشین عورتوں کے
گھر گوشت بھجواتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک بوڑھی خاتون آئیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بڑے ادب
سے خیریت پوچھی اور ان کے حالات دریافت فرمائے۔ جب وہ خاتون چلی گئیں تو حضرت
عائشہؓ نے پوچھا:
’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! یہ خاتون کون تھیں؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا: ’’یہ خاتون حضرت خدیجہؓ کے گھر
آتی تھیں۔‘‘
(جامع ترمذی۔ جلد اول۔ حدیث 2083)
اُمہاتُ المومنینؓ
*) حضرت خدیجۃ الکبریٰ :حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی پہلی شادی حضر ت خدیجہؓ سے25 سال عمر میں ہوئی ۔اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی عمر مبارک
25برس اور حضرت خدیجہ
کی عمر 40برس تھی۔10نبوت میں حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔اس وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
کی عمر مبارک 50برس اور حضرت خدیجہؓ کی عمر مبارک 65برس تھی۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ان کے
ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کی۔*) حضرت سودہؓ بنت ذمعہ:۔ نبوت کے دسویں سال ماہ، شوال میں آپؓ حضور
علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے عقد میں آئیں۔آپ اس سے پہلے حضرت سکرانؓ بن عمرو کے عقد
میں تھیں۔ آپؓ کا قد لمبا تھا۔آپؓ کا انتقال 54 ھ میں ہوا۔
*) حضرت عائشہ صدیقہؓ :نبوت کے گیارہویں سال ماہِ شوال میں آپؓ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے نکاح میں آئیں لیکن رخصتی نہیں ہوئی۔نکاح کے وقت آپؓ کی عمر چھ برس تھی۔
ٹھیک تین سال بعد شوال 1ھ میں مدینہ میں آپؓ نو سال کی عمر میں
رخصت ہوکر نبی کریمﷺ کے پاس آگئیں۔حضرت عائشہ وہ واحد اُم المومنین ہیں جن کے پہلے
شوہر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
تھے،آپؓ کے علاوہ کسی کو یہ شرف حاصل نہیں ۔جب حضور اکرمﷺ کا وصال ہواآپؓ کی عمر18برس تھی۔آپ ﷺ کا وصال حضرت عائشہؓ کے حجرے ہی
میں ٍٍ
ہوااور وہیں قبر انور بنی۔حضرت عائشہؓ کا انتقال 57ھ میں ہوااس وقت آپؓ کی عمر66برس تھی۔
*) حضرت حفضہؓ بنت عمر فاروق ؓ :۔حضرت حفضہؓ
کے پہلے شوہر خنیسؓ بن حذافہ تھے جو بدراور اُحد کے درمیان کے وقت میں انتقال کر
گئے تھے۔حضرت عمر فاروقؓ کو ان کے نکاح کی فکر ہوئی انہوں نے حضرت عثمانؓ کو پھر
حضرت ابو بکرؓ کو کہاکہ نکاح رلیں۔لیکن
اللہ تعالیٰ نے حضرت حفضہؓ کو ام المومنین کا درجہ دینا تھا۔اسلئے 3ھ میں آپؓ
حضوراکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آگئیں۔آپؓ کا انتقال 45ھ میں ہوا۔
*) حضرت زینب بنت خزیمہ اُم الماسکین :۔حضرت
زینبؓ کے پہلے شوہر حضرت عبداللہؓ بن حجش تھے۔وہ جنگ اُحدمیں شہید ہوئے ۔آپؓ 4ھ
میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے عقد میں آئیں اور فقط آٹھ ماہ بعد ہی آپؓ کا
انتقال ہوگیاآپ مسکینوں کا بڑاخیال کرتی تھیں اس لئے آپؓ کا لقب اُم المساکین
پڑگیاتھا۔
*) اُم سلمہ ہندؓ بنت ابی امیہ:۔ آپؓ کا نام
ہند تھااور کنیت اُم سلمہ تھی۔آپؓ عبداللہ ؓ بن عبدالاسدالمعروف ابوسلمہؓ کے عقد میں تھیں۔ابو سلمہؓ جنگ اُحد میں
زخمی ہوئے اور جانبر نہ ہو سکے اور جمادی الثانی 4ھ کو انتقال کر گئے۔شوال 4ھ میں آپؓ حضور
علیہ لصلوٰۃ
والسلام کے عقد میں آئیں۔آپؓ کا انتقال مختلف روایتوں کے مطابق58ھ
،59ھ 61ھ یا 63ھ ہے۔*) حضرت زینب بن حجش:حضرت زینبؓ کے پہلے شوہر
حضرت زید بن حارث تھے حضرت نے آپؓ کو طلاق دے دی ۔اس کے بعد آپؓ حضور اکرم ﷺ کے عقد میں آئیں ۔
حضرت زیدؓ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے منہ بولے بیٹے تھے ۔عرب میں
منہ بولے بیٹے کو
حقیقی بیٹے کادرجہ حاصل تھااور اللہ تعالیٰ اپنے محبوبؐ کے ذریعے شریعت کومکمل
نافذ کرنا چاہتا
تھا۔چناچہ اس غلط روایت وسوچ کو ختم کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت زینبؓ کی شادی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے
کی اور قرآن کریم میں اس نکاح کیلئے کئی آیات اُتریں۔یہ شادی ذیا لقعد 5ھ میں ہوئی۔آپؓ کا انتقال 20ھ میں 53برس کی عمر
میں ہوا۔
*) حضرت
زینب بنت حارث:۔حضر ت جویریہؓ بنوالمصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔آپؓ پہلے مسافع بن
صفوان نکاح میں تھیں۔جو غزوۂ مریسیع میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔بنوالمصطلق کے قیدیوں میں آپؓ بھی لائیں گئیں۔آپؓ
ثابت بن قیس کے حصے
میںآئیں۔انہوں نے آپؓ سے مکاتبت کرلی یعنی مقررہ رقم عوض آزاد کردینے کا معاملہ طے پاگیا۔حضور اکرم ﷺ
نے انہیں مقررہ رقم ادا کرکے حاصل کرلیا اور نکاح کرلیا۔
حضرت جویریہ بنو المصطلق کے سردار حارث کی بیٹی تھیں۔آپؓ کا انتقال
65برس کی عمر میں 50ھ میں ہوا۔*) اُم حبیبہؓ رملہ بنت ابوسفیان:آپؓ مکہ کے ایک بڑے سردار ابوسفیان کی
بیٹی تھیں۔آپؓ عبید
اللہ بن حجش کے عقد میں تھیں ۔عبید اللہ پہلے مسلمان ہوا پھر مرتد ہوگیا جس کی بنا
پر=دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔محرم 7ھ میںآپؓ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے عقد میں
آئیں اس کے بعد ہی ابو سفیان کی دشمنی ٹھنڈی پڑگئی۔آپؓ کا انتقال 44ھ میں ہوا۔
*) حضرت
صفیہ بنت حیی بن اخطب: آپ بن نضیر(یہودیوں کا قبیلہ جس نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام
کو بہت تنگ کیا۔) کے شیطان اکبر حیی بن اخطب کی صاحبزادی تھیں۔آپؓ حضوراکرم ﷺ سے
نکاح سے پہلے یکے بعد دیگرے دو لوگوں کے نکاح میں رہیں۔سلام بن مشکم کہ جس نے آپؓ کو طلاق دے دی
اور کنانہ بن ابوالحقیق جو کہ جنگ خیبر میں مقتول ہوا۔آپؓ غزوہ خیبر میں قید کرکے
لائی گئیں۔بعد میںآپ ﷺ نے انہیں آزاد کرکے نکاح کرلیا۔یہ نکاح 7ھ میں میں فتح
مکہ کے بعد ہواآپؓ بنی اسرائیل سے تھیں۔آپؓ کا انتقال 5ھ میں ہوا۔
*) حضرت
میمونہؓ بنت حارث:۔آپؓ مسعود بنت عمرو کے عقدمیں تھیں۔مسعود نے آپ کوطلاق دیدی
۔اسکے بعد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے نکاح میں آئیں۔یہ شادی ذی القعد7ھ میں ہوئی۔آپؓ کا انتقال 51ھ میں ہوا۔*) حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں دو
امہات المومنینؓ نے وفات پائی ۔باقی تمام نےبعد کا زمانہ دیکھا۔ایک تو حضرت خدیجۃ
الکبریٰ ؓ تھیں اور دوسری حضرت زینب بنت خزیمہ اُم المساکین تھیں۔
*) حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ایک حضرت ماریہ قبطیہؓ اور دوسری حضرت ریحانہؓ بنت زید
تھیں۔*) حضرت
ماریہ قطبیہ کو مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا ۔ان کے بطن سے آپ ﷺکے
صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ پیداہوئے جو 28یا 29شوال 10ھ میں انتقال کرگئے۔
*) حضرت
ریحانہؓ بنت زید،یہود کے قبیلے بنو نضیر یا بنوقریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔کچھ
مؤرخین کا خیال ہے کہ انہیں آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا
بلکہ آزاد کرکےشادی کرلی تھی۔
قانون ایک وقت میں ایک بیوی کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم کچھ ایسے ہنگامی
حالات پیش آسکتے ہیں جن کے پیش نظر اس اصولی قانون میں استثنا ہوسکتا ہے۔ اسلام کے
ابتدائی دور میں مدینہ کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ ۔۔۔
۱۔ مسلمانوں کی جماعت
محدود تھی۔
۲۔ مسلسل غزوات کا سلسلہ
شروع ہوچکا تھا جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی پوری مدنی زندگی میں جاری رہا۔ان
غزوات کی وجہ سے نوجوان افراد کی کمی ہوتی چلی گئی اور بیوائیں اور یتیم بچے دن
بدن زیادہ ہوتے گئے۔
۳۔ ان کے علاوہ مسلمان
عورتیں اپنے غیر مسلم خاوندوں کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف آناشروع ہوگئیں۔
۴۔ مسلمان عورتیں صرف
مسلمان مردوں سے شادی کرسکتی تھیں، کسی غیر مسلم سے نہیں کرسکتی تھیں۔
۵۔ ایسے حالات میں
بیواؤں کی اور شادی کے قابل لڑکیوں کی تعداد، مردوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ
ہوگئی۔ بیواؤں کے ساتھ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم اور لاوارث ہو گئے۔
ان ہنگامی حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم نازل ہوا کہ اگر
ایسے حالات پیدا ہوجائیں جن میں تم دیکھو کہ یتیم بچے اور بیوہ عورتیں معاشرہ میں
زیادہ ہوگئیں ہیں اور ان کے مسئلہ کا منصفانہ حل نہیں مل سکتا توان عورتوں میں سے
اپنی پسند کے مطابق نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار تک (یعنی حالات کے پیش نظر)۔
تاہم اس کے لئے بھی ایک شرط ہے کہ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ تم عدل نہیں کرسکوگے تو
’’ایک بیوی کا اصول‘‘ برقرار رہے گا۔
’’اگر تم کواندیشہ ہوکہ
یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکوگے تو جوعورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دودو، تین
تین،چارچار،سے نکاح کرلو۔لیکن اگرتمہیں اندیشہ ہوکہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکوگے تو
پھر ایک ہی بیوی کرو ۔(سورۃ النساء۔آیت03)
جیسا کہ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی
مکی زندگی میں ’’ایک وقت میں ایک بیوی‘‘ کے اصول کی پابندی کی۔ لیکن مدینہ میں آکر
جب اس قسم کے ہنگامی حالات پیدا ہوگئے تو اس اہم اجتماعی مسئلہ کے حل کے لئے ایک
سے زیادہ نکاح کی ضرورت پیش آئی۔سیر و تاریخ کی کتابوں میں جن ازواج مطہراتؓ کا
ذکر آیا ہے، اس سے واضح ہے کہ وہ (سوائے حضرت عائشہؓ کے) ایسی خواتین تھیں جو
لاوارث رہ گئی تھیں اور ان کے لئے حفاظت اور باعزت چھت مہیا کرنا نہایت ضروری
تھا۔ان میں سے بعض نہایت بلند خاندانوں کی خواتین تھیں، انہیں ان کی عزت و احترام
کے پیش نظر، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود اپنے دامن عاطفت میں پناہ دی۔ یہ
ظاہر ہے کہ ان معزز خواتین اور ان کے یتیم بچوں کو اس قسم کی باعزت پناہ اسی صورت
میں مل سکتی تھی کہ انہیں خاندان کا فرد بنالیا جائے۔
ازواج مطہراتؓ کے حقوق کا لحاظ اور ان کے درمیان عدل و تواز ن حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ایسا کارنامہ ہے جو مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ بیوی کے تعلق
میں معاشرتی حیثیت کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ خاوند اگر بیوی کو اپنے گھر میں عزت
نہیں دیتا تو گھر کا نظام مستحکم نہیں ہوسکتا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہ
صرف یہ کہ ازواج مطہراتؓ کے وقار کا خیال رکھا بلکہ عورت کو بیوی کی حیثیت میں
بلند مقام عطا فرمایا۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔۔۔
’’اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو۔
اگر ان کی کوئی بات تمہیں ناگوار بھی گزرے، ہوسکتا ہے کہ تمہیں ایک بات ناپسند ہو
اور اللہ نے اس میں تمہارے لئے بڑے فائدہ کی بات مخفی رکھی ہو۔‘‘(سورۃ النساء۔
آیت19)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
فرمایا،
’’مومنین میں کامل وہ ہے
جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہے اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لئے
بہتر ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ ۔جلد دوئم۔ حدیث 135)
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بشری زندگی کا جو پہلو سب سے
زیادہ متاثر کرتا ہے وہ یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں مرتبے کی تمام
عظمتوں کے باوجود انسانی زندگی کے شائستہ مظاہر نظر آتے ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے قرآن کریم کے حکم اور خوداپنے فرمان کو عملی طور پر سب سے پہلے اپنے
گھر میں نافذ فرمایا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گھر میں ازواج مطہراتؓ کی
باتیں سنتے، ان کے اختلافات ختم فرماتے تھے اور کوئی ایسی بات فرماتے تھے کہ
بیگمات خوش ہوجاتی تھیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کا شاندار
معیار قائم کیا۔ اپنی بیگمات سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو تعلق خاطر تھا
اورحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جس طرح ان سے اچھا برتاؤ فرماتے تھے اس کا اندازہ ان
واقعات سے ہوتا ہے جو حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام اپنی تمام ازواج مطہراتؓ سے یکساں سلوک روا رکھتے۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام ان کی د ل جوئی کرتے، ان کے جذبات و احساسات کی قدر کرتے، ان کی
چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت دیتے ، چھوٹی بڑی ضرورتوں کو پورا فرماتے۔ان کے کام
کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جس طرح ازواج مطہراتؓ کی خاطر داری فرماتے
تھے۔ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعات سے ہوتا ہے۔
*۔ایک مرتبہ حبشہ کے لوگ
اپنا کرتب دکھا رہے تھے، حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے قیام فرمایا اور حضرت عائشہؓ
نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پیچھے کھڑے ہوکر کرتب دیکھے۔
(بخاری شریف۔ جلد دوئم ۔ حدیث 745)
*۔ایک مرتبہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام ازواج مطہراتؓ کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ ام المؤمنین حضرت صفیہؓ
کا اونٹ بیمار ہوگیا اور وہ سب سے پیچھے رہ گئیں تو زار و قطار رونے لگیں۔
حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام ان کے پاس تشریف لے گئے اورتسلی دی اور اُنہیں چپ کرایا ۔
مگر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جس قدر تسلی دیتے وہ اس سے زیادہ روتیں تھیں، دیر تک
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام چادر کے پلو سے ان کے آنسو پونچھتے رہے۔(مشکوٰۃ شریف ۔
جلد چہارم۔ حدیث973)
*۔اسی طرح ایک بارحضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام حضرت صفیہؓ کے پاس تشریف لائے تو وہ رو رہی تھیں۔
حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے دریافت فرمایا: ’’کیوں رو رہی ہو؟‘‘
حضرت صفیہؓ نے جواب دیا حفصہؓ نے مجھے طعنہ دیا ہے کہ ، ’’تم یہودن
ہو جب کہ ہم توحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے خاندان سے ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلا م نے فرمایا:
’’واہ! یہ رونے کی کون سی بات ہے۔ تم نے کیوں نہ کہا کہ میرا باپ ہارون ؑ ہے اور میرا چچا موسیٰ ؑ ہے جب کہ میرا شوہر محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام ہے پھر بھلا مجھ سے بڑھ کر کون ہوسکتا ہ
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان