Topics
سوال: طالبات اور طلبہ کے لئے حافظہ کی تیزی اور ذہن کشادہ کرنے کے لئے آپ نے یا حی یا قیوم پڑھنے کے بعد مراقبہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کیا دماغ میں دیکھنے سے مراد بھیجے کا تصور کرنا ہے۔ ازراہ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب: قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو جہاں سے جو چاہو خوش ہو کر کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔
آیت مقدسہ ہمیں تفکر کی دعوت دیتی ہے جہاں سے چاہو خوش ہو کرکھاؤ میں اسپیس(SPACE) کی نفی کر دی گئی ہے۔ یعنی جنت کا لامتناہی رقبہ تمہارے تصرف میں ہے۔ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ہو جاؤ گے ظالموں میں سے۔ درخت سے قربت کا تصور اسپیس کا شائبہ ہے یعنی اس درخت کے جانے سے وہ ذہنی آزادی ختم ہو جائے گی جو جنت کی فضا میں سانس لینے کے لئے ضروری ہے اور جب تمہارے اوپر اسپیس مسلط ہو جائے تو جنت کی فضا تمہیں رد کر دے گی۔ اس طرح تم اپنے اوپر ظلم کرو گے۔ جنت میں آدم اسپیس سے آزاد زندگی گزار رہے تھے۔ جب درخت کے نزدیک گئے تو اسپیس ان پر مسلط ہو گئی۔ اس طرح دو دماغ وجود میں آئے پہلا دماغ ٹائم اسپیس سے آزاد، دوسرا دماغ ٹائم اسپیس میں گرفتار۔ اس کی وضاحت یہ ہوئی کہ آدم کے آزاد پرت پر محدود اور مقید پرت کا غلبہ ہو گیا۔ یہی خاکی جسم ہے بھیجا اور کھوپڑی کی سات ہڈیاں بھی مادی ہیں لیکن خاکی جسم اور اس کے تمام اعضاء کی بنیاد وہی آزاد پرت ہے جو ٹائم اسپیس سے آزاد ہے۔ فکر اور حکمت کی صلاحیتوں کا تعلق ان روشنیوں سے ہے جو آزاد پرت میں دور کرتی ہیں۔ یہ روشنیاں جب نافرمانی کے مرتکب پرت میں نزول کرتی ہیں تو دل و دماغ ہاتھ پیر اور دوسرے اعضاء کا علم بن جاتی ہیں۔ مراقبہ ایک اصطلاحی لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان خود کو مقید زندگی سے آزاد کرنے کی سعی کرے یعنی ٹائم اسپیس کی دنیا سے اپنا ذہن ہٹا کر اس دنیا میں جھانکنے کی کوشش کی جائے جہاں پابندی نام کی کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔
دماغ میں دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ ہم خود کو اس دماغ میں منتقل کر دیں جو ہمارا آبائی ورثہ ہے یہی وہ دماغ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے آدم کو اپنے اسماء کا علم سکھا دیا وہ علم جس کو فرشتے بھی نہیں جانتے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔