Topics

قیدیوں سے حسن سلوک

بعثت نبویؐ سے قبل عرب اسیران جنگ کے ساتھ نہایت برا سلوک کرتے تھے اور تمام قوموں میں بھی یہی طریقہ جاری تھا۔ طاقتور ملک اپنے کمزور ہمسایہ ملک پر حملہ کرکے اسے تاراج کردیتا تھا۔ املاک لوٹ لی جاتی تھیں۔ فاتح تمام زمینوں کے مالک بن جاتے تھے۔ جوانوں کا قتل ہو جاتا تھا۔ عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو غلام بناکر بیگار لی جاتی تھی۔ غلاموں پر نہ صرف یہ کہ تشدد کیا

جاتا تھا بلکہ ذرا سی کاہلی پر قتل کردیئے جاتے تھے۔ جنگ میں قیدی خواتین مردوں کی زیادتی کا نشانہ بنتی تھیں۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تاکید فرمائی کہ اسیران جنگ کو کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ ان کے کھانے پینے اور لباس کا خیال رکھا جائے۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ خود کھجور کھاکر گزارہ کرتے تھے اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ غزوہ حنین میں چھ ہزار قیدیوں کو رہا کردیا گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو پہننے کے لئے لباس عنایت فرمائے۔ حاتم طائی کی بیٹی جب گرفتار ہوکر آئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عزت سے مسجد کے ایک گوشے میں اس کوٹھہرایا اور فرمایا کہ کوئی تمہارے شہر کا آجائے تو اس کے ساتھ تم کو رخصت کردوں گا۔ چنانچہ چند روز کے بعد سفر کے سامان کے ساتھ انہیں ایک شخص کے ساتھ یمن بھجوادیا۔ 

قرآن کریم میں جہاں اللہ تعالیٰ نے بندگان خاص کے اوصاف بتائے ہیں وہاں فرمایا ہے

’’اور یہ لوگ اللہ کی محبت میں مسکین کو، یتیم کو اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘

(سورۃ الدھر۔ آیت 8)

جنگ بدر کے بعد مدینہ منورہ پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کہ اسیران بدر کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیئے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا ان لوگوں کو جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم اور قبیلہ سے ہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ ان سے فدیہ وصول کرنے کے بعد آزاد کردیا جائے شاید اللہ تعا لیٰ ان کو توبہ کی توفیق عطا فرمائیں اور یہ لوگ اسلام لے آئیں اور پھر یہی لوگ مشرکین کے مقابلہ میں ہمارے معین و مددگار ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس تجویز کو پسند فرمایا۔ 

( صحیح مسلم باب الامداد بالملائکۃ۔ فی غزوۃ بدر و اباحۃ الغنائم)

اسیران بدر سے ان کی حیثیت کے مطابق فدیہ وصول کیا گیا جو ایک ہزار درہم سے لے کر چار ہزار درہم تک تھا۔ حضرت عباسؓ نے(اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا) اپنا اور اپنے حلیف کا فدیہ اداکیا اور رہائی حاصل کی۔ ( صحیح بخاری۔ جلد 1۔ کتاب المغازی)
جو لوگ نادار و غریب تھے اور فدیہ ادا نہیں کرسکتے تھے۔ ان کو بغیر فدیہ کے آزاد کر دیا گیا۔ اسیران بدر میں سے جو لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان سے یہ شرط ٹھہری کہ دس دس مسلمان بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادیں۔ ان کا فدیہ یہی ہوگا اس کے بعد وہ آزاد ہیں۔

( مسند ابن حنبل۔ جلد 1۔ صفحہ 200)

حضرت زیدؓ بن ثابت جو کہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے انہوں نے اسی طرح پڑھنا لکھنا سیکھا۔

(طبقات ابن سعد۔ جلد 2۔ صفحہ 14)

غزوہ بدر کے قیدیوں میں ابو عزیز بن عمیربھی تھے، جو حضرت مصعبؓ بن عمیر کے بھائی تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں جن انصار کے گھر میں قید تھا ان کا یہ حال تھا کہ صبح و شام جب کھانا لاتے تو پورا کھانا میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجوریں کھاتے۔ مجھے سخت شرم آتی۔ بار بار اصرار کرتا کہ آپ لوگ بھی روٹی کھائیں لیکن وہ نہیں مانتے تھے اور ہمیشہ ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ نیک سلوک کریں۔ ( طبری صفحہ 1338)

ابو العاص جو کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے داماد تھے اسیران بدر میں شامل تھے ان کے پاس فدیہ کی رقم نہیں تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی لخت جگر حضرت زینبؓ زو جہ ابو العاص کو مکہ میں پیغام بھیجا کہ اپنے شوہر کا فدیہ ادا کرنے کیلئے رقم بھیج دیں۔ انہوں نے اپنے نکاح میں ملنے والا جہیز کا وہ ہار جو حضرت خدیجہؓنے ان کو دیا تھا فدیہ کے طور پر بھیج دیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ ہار دیکھا تو پچیس برس پرانا زمانہ یاد آگیا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بے اختیار رو پڑے اور صحابہ کرامؓسے فرمایا ’’اگرتمہاری مرضی ہو تو بیٹی کو ماں کی یادگار نشانی واپس کردوں۔‘‘ سب صحابہؓ نے سر تسلیم خم کردیا اوراس طرح وہ ہار واپس کردیا گیا اور ابوالعاص کو فدیہ لئے بغیر آزاد کردیا گیا۔ ( تاریخ طبری صفحہ 1338)

اسیران بدر میں ابوعزہ، عمرو بن عبداللہ بن عثمان نہایت غریب تھے اور فدیہ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اپنی حالت بیان کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو اس شرط پر کہ آئندہ کبھی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لیں گے رہا کردیا ۔ 

( سیرۃ ابن ہشام جلد 2صفحہ 31)

اسیران بدر میں نوفل بن حارث بھی تھے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے فدیہ طلب کیا تو انہوں نے کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ میں فدیہ دے سکوں۔ یہ سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’وہ نیزے کہاں ہیں جو تم جدہ میں چھوڑ آئے ہو؟‘‘

یہ سن کر نوفل بن حارث نے کہا ’’خدا کی قسم! میرے سوا ان نیزوں کا کسی کو علم نہیں تھا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے رسول ہیں۔‘‘

بعد میں نوفل نے وہ نیزے جن کی تعداد ایک ہزار تھی۔ فدیے میں ادا کئے۔ 

زیر تربیت جماعت پر اثرات

حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی بعثت سے پہلے دنیاتاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ تہذیب، حسن سلوک اور صلہ رحمی مفقود ہوگئی تھی۔آدمی نے انسانیت کی جگہ حیوانی قدروں کو اپنا لیا تھا ۔اہل مکہ کی ذہنی پستی اور شعوری جہالت کی انتہا اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ ہاتھ سے تراشے گئے یا رقم سے خریدے گئے بتوں کو خدا مانتے اور پوجتے تھے ۔وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر بتوں کی بے حرمتی ہوگئی تو ہمیں نقصان ہوگا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے پہلے اہل عرب خود سر تھے ،بے کاری اور کاہلی انکاامتیاز تھا۔لٹریسی ریٹ اتنا کم تھا کہ اسے اعداو شمار میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔چند افراد کے علاوہ اکثر لوگ جاہل تھے۔یہ تمام صورتحال کسی بھی طرح ایسی نہیں ہے کہ ہم اس قوم کی طرز فکر کو خیر کی طرز فکر کہہ سکیں۔ 

حضرت آدم ؑ کے دورسے مکہ کی معاشرت تک جو عمومی شعور منتقل ہوا اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مکہ کے لوگ انسانی شعور کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح اور شعور انسانی کے ارتقا کی تکمیل کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے لئے فرمایا :

’’ہم نے تمھارے درمیان تم میں سے ایک رسول بھیجا،جو تمھیں ہماری آیات سناتا ہے ،تمھاری زندگیوں کو سنوارتا ہے ، تمھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔‘‘(سورۃ البقرہ۔آیت151)

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان