Topics
سوال: میری زندگی کچھ عجیب بے کیف اور بے مقصد ہے۔ ہر وقت کچھ کھونے کا احساس رہتا ہے۔ قنوطیت طاری رہتی ہے۔
نماز پابندی سے پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں اور اکثر کامیاب رہتی ہوں۔ اللہ میاں سے شکوہ کرنے کا دل نہیں چاہتا۔ اس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں کس قابل ہوں۔ میری حقیقت کیا ہے مگر اس رحیم و کریم کا احسان ہے۔ ذہن اور دل یہ سمجھتا ہے مگر نہ جانے کیوں پورے وجود پر ایک سوگواری اور یاسیت چھائی رہتی ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے میں چاہتی ہوں کہ اس سے پہلے کہ میں کسی کے لئے ناگوار احساس بنوں۔ مجھے اپنے لئے اپنی ذات کے لئے، اپنی زندگی کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ میں عملی طور سے کچھ کرنا چاہتی ہوں اور خود کو مصروف رکھنا چاہتی ہوں تا کہ مالی اعتبار سے بھی کچھ حاصل کر سکوں، ذہنی طور سے شیطان سے دور رہوں۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ میں صرف بی اے پاس ہوں اور ایسے ماحول سے تعلق رکھتی ہوں جہاں دفتروں اور آفسوں میں کام کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا جبکہ مجھے ایسی جگہوں پر آسانی سے سروس مل سکتی ہے۔ میں اپنے ماحول سے بغاوت نہیں کر سکتی۔ مجھے ان تمام رشتوں کا احساس ہے جو مجھ سے وابستہ ہیں۔ بس عجیب کشمکش میں مبتلا رہتی ہوں۔ میں عمر کے اس دور میں ہوں جہاں شادی ہو جانی چاہئے تھی مگر میری شادی اب تک نہیں ہوئی ہے۔
بزرگ محترم! زندگی گزارنے کے لئے کوئی سلسلہ کوئی سہارا ضروری ہے تا کہ انسان اس میں مصروف رہ کر زندگی گزار سکے۔ زندگی کا کوئی مقصد اور نصب العین ہونا ضروری ہے۔ ورنہ بھٹکنے کا خطرہ رہتا ہے۔ میں بھٹکنا نہیں چاہتی۔ میں نہایت صاف ستھری پاکیزہ زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ جس کا مطلب خود کو مطمئن رکھنا ہے۔
جواب: آپ سورۂ الضحیٰ حفظ کر لیں اور صبح نکلتے سورج کے سامنے بیٹھ کر سورج کو دیکھتے ہوئے ایک بار پڑھ لیا کریں۔ یہ عمل چالیس روز تک کریں
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔