Topics
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب دشمنان اسلام کی روانگی اور
حملے کی اطلاعات ملیں تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مدینہ منورہ میں صحابہ کرامؓ
سے مشورہ فرمایا۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ نے ایران میں رائج طریقہ جنگ پر
خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔خندق کے لغوی معنی گڑھا یا کھائی ہیں۔ شہروں کے دفاع کا
یہ طریقہ فارس (ایران) میں رائج تھا۔ مگر اہلِ عرب خندق سے نا آشنا تھے۔ سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مشورہ کو پسند فرمایا اور میدان جنگ کی مناسبت سے
خندق کھودی گئی۔ اس جنگ کو غزوہ خندق کا نام دیاجاتا ہے۔ غزوہ خندق کا شمار دنیاکی
مشہور ترین لڑائیوں میں ہوتا ہے۔
مورخین کا خیال ہے کہ
’’یہ لڑائی اسلام کی ترقی کی راہ میں آخری
رکاوٹ تھی۔‘‘
کیونکہ مسلمان ا س لڑائی تک کشمکش میں مبتلا رہے اور ترقی کے منصوبوں
کی طرف پورا دھیان نہیں دے سکے ۔ وجہ یہ تھی کہ انہیں ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا
تھا کہ قریش مدینہ پر حملہ کردیں گے۔اس وقت مدینہ منورہ تین اطراف میں دشوار گزار
پہاڑیوں اورباغات سے گھرا ہوا تھا اور شمال کی طرف میدان تھا۔ چنانچہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے اس رُخ پر مشرق سے مغرب تک نیم دائرہ کی شکل میں خندق کا نشان
لگایا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ خندق پندرہ فٹ گہری اور پندرہ فٹ چوڑی اور تقریباً
ساڑھے تین میل لمبی تھی۔
مدینے کے مضافات میں پھیلے ہوئے کھیت اور باغات کی پیداوار گوداموں
میں ذخیرہ کردی گئی۔ بچوں اور عورتوں کو قلعوں میں بھیج دیاگیا۔ خندق کے قریب کے
گھروں کو خالی کروا دیا گیا۔ خندق کیلئے ہر دس آدمیوں کے ذمہ چالیس گز زمین کھودنا
متعین ہوا۔ مدینے کا ہر مرد، ہر عورت حتیٰ کہ جوان سال لڑکے اور لڑکیاں اور جو بھی
بیلچہ اور کدال اٹھانے کے قابل تھے خندق کھودنے میں مصروف ہوگئے۔خندق کھودنے کیلئے
مسلمانو ں نے روزوشب محنت کرکے ایثار و وفاداری کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ خود حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دن رات کام کیا اوربنفس نفیس صحابہ کرامؓ کے ساتھ اس
کھدائی میں حصہ لیا۔ کبھی کدال چلاتے اور کبھی مٹی اٹھانے میں مصروف ہوجاتے تھے۔
مسلمان دس دس افراد کی ٹولیوں میں شریک ہوئے اور وہ اپنا مقررہ کام قبل از وقت
مکمل کر لیتے تو رضاکارانہ طور پر دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ان دنوں شدید
سردی تھی۔ صحابہ کرام ؓ سخت سردی کے موسم میں سنگلاخ زمین پر خندق کی کھدائی کرتے
اور شدید محنت و مشقت سے مٹی باہر نکالتے۔ اس مظاہرہ پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے رجزیہ اشعار پڑھ کر صحابہ کرام ؓ کو حوصلہ دیا اور ان کے جذبہ کی تعریف فرمائی۔
خندق کی کھدائی کے دوران اعجازِ نبوت کے کئی واقعات رونماہوئے۔
* حضرت جابرؓ بن عبداللہ نے بکری ذبح کی اور
ڈھائی کلو آٹا گوندکر اس کی روٹیاں پکائیں پھر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’تھوڑاسا کھانا تیار کرایا ہے، حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام تشریف لے چلیں‘‘۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہلِ خندق کو پکارا اور فرمایا۔
’’جابرؓ نے تمہارے لیے کھانا تیار کیاہے، سب
آجاؤ۔‘‘
ایک ہزار افراد پہنچ گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہنڈیا اور
روٹیوں پر کپڑا ڈھک دیا۔ دس دس افراد کی جماعت دستر خوان پر آتی اور شکم سیر ہوکر
اُٹھ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ ایک ہزار افراد نے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا۔
* ایک روز حضرت بشیرؓ بن سعد کی بیٹی کو اس
کی ماں نے کھجوریں دے کر کہا کہ یہ کھجوریں اپنے باپ اور ماموں کو دے آؤ۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے دیکھ کر اپنے پاس بلایا اور پوچھا کیوں آئی ہو؟ ۔۔۔
لڑکی نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام!اماں نے
میرے والد اور میرے ماموں کیلئے کھجوریں بھیجی ہیں ۔‘‘
سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا۔ لڑکی سے
کھجوریں لے کر دستر خوان پر رکھ دیں۔ اہلِ خندق کو کھانے کیلئے بلایا گیا اور
ارشاد ہوا کہ کھانے کیلئے ایک ایک جماعت آئے۔ جماعت در جماعت اہل خندق دستر خوان
پر جمع ہوتے رہے اور سب نے خوب سیر ہوکر کھجوریں کھائیں۔
* خندق کی کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان آگئی
۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بسم اللہ پڑھ کر چٹان پر کدال ماری تو ایک شعلہ نکلا
اور ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’اللہ اکبر !مجھے ملک شام کی چابیاں دی گئیں
ہیں۔ اللہ کی قسم !میں اس وقت شام کے سرخ محلات دیکھ رہا ہوں۔‘‘
پھر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دوسری بار کدال ماری تو چٹان
کا ایک تہائی حصہ اور ٹوٹ گیا اورساتھ ہی ایک اور شعلہ نکلاحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
نے فرمایا:
’’اللہ اکبر !مجھے فارس کی چابیاں دی گئیں
ہیں۔ اللہ کی قسم!میں اس وقت کسریٰ کا سفید محل دیکھ رہا ہوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تیسری بار چٹان پر کدال ماری۔ ایک اور
شعلہ نمودار ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’اللہ اکبر! مجھے یمن کی چابیاں دی گئیں
ہیں۔اللہ کی قسم! میں صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔‘‘
حضرت سلمان فارسی ؓ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے قریب کھڑے تھے۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے فرمایا:
’’اے سلمانؓ ! میری امت شام ، فارس اور یمن
کو فتح کرے گی۔‘‘
بنو قریظہ ، یہودیوں کا ایک مالدار قبیلہ تھا، جو مدینہ منورہ کے
نواح میں بڑی شان و شوکت سے رہتا تھا۔ انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃو السلام سے
معاہدہ کر رکھا تھا کہ بیرونی حملے کی صورت میں ہم دشمنوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔
مگر بنو نضیر کے ایک سردار حی ابن اخطب نے بنوقریظہ کے سردار کعب ابن اسد سے خفیہ
ملاقات کی اور اسے تعاون پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ کعب نے جواب دیا کہ ہم نے محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے ساتھ
معاہدہ کررکھا ہے اور محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) وعدوں کی پاسداری کرنے والے ایک
سچے انسان ہیں، اسلئے میں محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو
توڑ نہیں سکتا۔ ابن
اخطب حی نے کہا۔۔۔ ’’ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ اس مرتبہ اتنا بڑا لشکر لے آیا ہوں
کہ اس کا مقابلہ ممکن نہیں اور ہم نے عہد کر رکھا ہے کہ جب تک محمد( علیہ
الصلوٰۃوالسلام) اور اس کے ساتھیوں کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا، ہم لڑائی سے ہاتھ
نہیں اُٹھائیں گے۔یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے، اگر ہم کامیاب رہے تو عزت اور شان و
شوکت کی زندگی گزاریں گے اور اگر تمہارے انکار کی وجہ سے ناکام ہوگئے تو ہمیشہ
محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) کا غلام اور دست نگر رہنا پڑے گا اور میں تمہیں یقین
دلاتا ہوں کہ اس دفعہ مسلمانوں کا قطعی طور پر خاتمہ ہوجائے گا تاہم تمہیں پھر بھی
ہماری کامیابی میں شک ہے تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ناکامی کی صورت میں واپس نہیں
جاؤں گا،بلکہ تمہارے پاس آجاؤں گااورمعاہدہ توڑنے کی تمہیں جو بھی سزا محمد( علیہ
الصلوٰۃوالسلام) کی طرف سے ملے گی ، اس میں تمہارے ساتھ برابر کا شریک رہوں گا۔‘‘یہ سن کر کعب کو یقین ہوگیا کہ اس دفعہ
واقعی مسلمانوں کا صفایا ہوجائے گا، اس لئے وہ بے خوف و خطر ہوگیا۔ دیگر رؤسا بنی
قریظہ کو بلا کر صورتحال بتائی اور کہا کہ ہمیں محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) سے
کیا ہوا معاہدہ توڑ دینا چاہیئے۔ انہوں نے بھی تائید کی اور پھر سب کے سامنے
معاہدے کی دستاویز کو پھاڑدیا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو انہوں نے حقیقت
معلوم کرنے کے لئے حضرت سعدؓ بن معاذ اور حضرت سعدؓ بن عبادہ کو بنو قریظہ کی طرف
روانہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ’’ اگر معاہدہ توڑنے کی خبر سچ ہوئی تو اس خبر کو واپس آکر مبہم الفاظ
میں بیان کرنا۔ تاکہ فوج میں بد دلی نہ پھیلے اور اگر یہ افواہ غلط ثابت ہوئی تو
اعلانیہ بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘یہ دونوں صحابہؓ بنو قریظہ کے پاس گئے ان لوگوں کو مسلمانوں کے ساتھ
معاہدہ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان یاد دلائے۔ یہ سن کر قبیلہ بنوقریظہ نے
کہا ’’ہم نہیں جانتے معاہدہ کیا چیز ہے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ محمد ( علیہ
الصلوٰۃوالسلام) کون ہیں؟‘‘صحابہ کرامؓ واپس حضور علیہ الصلوٰۃوا لسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے
اور بنوقریظہ کی عہد شکنی کی تصدیق کردی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس موقع پر فرمایا:
’’ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین
کارساز ہے۔‘‘ (سورۃ آلِ عمران۔ آیت 173)
خندق مدینے کے شمال کی جانب کھودی گئی تھی۔ قریش اپنے اتحادیوں کے
ہمراہ مدینے پہنچ گئے تھے۔ سبقت کے زُعم میں مبتلا منکرین اونٹ اور گھوڑے سر پٹ
دوڑاتے ہوئے مدینے کی حدود میں پہنچے تو حیرت و استعجاب کی تصویر بن گئے۔۔۔۔ دفاع
کا یہ حیرت انگیز طریقہ اس سے پہلے نہ انہوں نے دیکھا تھااور نہ سنا تھا ۔جنگی ساز
و سامان سے لیس لشکر خندق کے پار پڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہوگیا۔ اتحادی یہ سوچ کرآئے
تھے کہ ایک ہی روز میں مسلمانوں کو تہہ تیغ کرکے فتح حاصل کرلیں گے ۔مگر اہلِ
مدینہ اور ان کے درمیان حائل خندق نے انہیں بے بس کردیا۔ جس وقت مشرکین کی فوج
مدینے پہنچی، موسم بدل رہاتھا۔ سپاہیوں کو خیموں میں سردی لگ رہی تھی۔ فوج کو
محاصرہ کرنا پڑا جس کے لیے وہ پہلے سے تیار نہیں تھے ۔سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خندق کے سامنے موجود تھے ۔ مشرک سردار روزانہ خندق
تک آتے ۔ایک سرے سے دورے سرے تک گھوڑے دوڑاتے تھے ۔مگر خندق پار کرنے کا کوئی
راستہ اُنہیں نہیں ملتا تھا۔غیض و غضب کے عالم میں وہ مسلمانوں پر تیروں کی بوچھاڑ
کرتے، جواب میں مسلمان تیر انداز ان پر تیر برساتے تھے۔
لشکر اسلام میں موجود منافقین نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی مہم
شروع کردی۔
انہوں نے مسلمانوں سے کہا:
محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) نے ہمارے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ ہم لوگ
قیصر و کسریٰ کو فتح کریں گے ان کے خزانے ہمیں ملیں گے جب کہ صورت حال یہ ہے کہ ہم
لوگ لاچار، کمزور اور مجبور ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ وقت سخت آزمائش کا تھا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھیوں کو
اخلاص کی کسوٹی پر پرکھا جارہا تھا۔ یوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل آیت نے کھرا
اور کھوٹا الگ کر دکھایا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’یہیں مومن آزمائے گئے اور پوری طرح وہ
جھنجھوڑ دئیے گئے۔ اور اس وقت منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا
کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکہ فریب کاہی وعدہ کیا
تھا۔’’(سورۃ الاحزاب۔ آیت 11تا12)
منافقوں کے پروپیگنڈے اور بنوقریظہ کی جانب سے عہد توڑنے کی خبر سے
مسلمانوں کو تشویش ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ رسالت میں دست بستہ عرض کیا کہ ہمیں
منافقوں کی ریشہ دوانیوں اور یہود کی بد عہدی کا خطرہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے انتہائی سکون اور یقین سے فرمایا:
’’مشرکوں کو یہودیوں کی کُمک پر بھروسہ ہے
جبکہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد پر یقین رکھتا ہوں۔ یقین رکھو اللہ تعالیٰ ہمیں بے
یار و مدد گار نہیں چھوڑیں گے۔‘‘حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان سے مسلمانوں میں نیا حوصلہ پیدا
ہوگیا اور انہیں اللہ تعالیٰ کی مددو نصرت کا یقین ہوگیا۔
اسلامی فوج میں منافقوں کی تعداد بھی شامل تھی۔ جو بظاہر مسلمانوں کے
ساتھ تھے۔ لیکن موسم کی سختی، رسد(راشن) کی قلت، راتوں کی بے خوابی، دشمن کی بڑی
تعداد، ایسے واقعات تھے جنہوں نے پردہ فاش کردیا۔ منافقین نے مختلف حیلے بہانے
شروع کردیئے، کہنے گے:
’’ یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! ہمارے
گھر بالکل خالی ہیں اور گھر کی دیواریں چھوٹی ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں اور
دشمن کی زد میں ہیں۔ ہماری عورتیں اور بچے غیر محفوظ ہیں۔ اسلئے ہمیں اجازت دیں
تاکہ ہم واپس جا کر ان کی حفاظت کرسکیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جب ان میں سے ایک گروہ نے یہ کہا کہ اے
مدینہ والو! تمہارے لئے ٹھکانہ نہیں ، چلو لوٹ چلو اور ان کی ایک اور جماعت یہ کہہ
کر نبیؐ سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ (کھلے ہوئے )
غیر محفوظ نہیں تھے (لیکن) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا۔‘‘(سورۃ
الاحزاب۔ آیت 13)
دوسری طرف مومنوں کے دل اخلاص، یقین، ایمان اور جان نثاری کے جذبہ سے
لبریز تھے۔ ان کے دلوں کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی ہے:
’’اور ایمان داروں نے جب لشکر کو دیکھا تو (بے
ساختہ) کہہ اُٹھے! کہ اس ہی کا وعدہ ہم سے اللہ تعالیٰ نے اور اسکے رسول نے کیا
تھا اور اللہ تعالیٰ اور رسول ( علیہ الصلوٰۃوالسلام) نے سچ فرمایا اور اس سے ان
کے ایمان میں فرماں برداری کا اور اضافہ ہوگیا۔‘‘
(سورۃ الاحزاب۔ آیت 22)
خندق کے پار مشرکین کی دس ہزار فوج دوہفتے سے سردی میں ٹھٹھر رہی تھی
اور جب غذا اور مویشیوں کی خوراک کا مسئلہ ہوا تو فوج کا سپہ سالار بغاوت کے خطرے
سے پریشان ہوگیا۔ دس ہزار فوج جمع کرنے والے قریش، یہودی اور انکے اتحادی قبائل بے
بسی کے عالم میں خندق کے پار مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ اکثر نڈر اور جانباز
گھڑسوار خندق پار کرتے ہوئے خندق میں گر کر ہلاک ہوگئے اوراگر کوئی خندق عبور کر
گیا تو مجاہدین نے اسکا کام تمام کردیا۔ مسلمان تیر اندازوں نے انہیں خندق سے دور
رکھا۔ کفار مکہ کے جرنیلوں نے اپنی اپنی مقررہ باری پر حتی المقدور کوشش کرنے کے باوجود
خندق عبور کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا۔ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی وہاں سے
مشہور اوربہادر پہلوان عمروچند نوجوانوں کے ساتھ خندق عبور کرنے میں کامیاب ہوگیا
اور مسلمانوں کو مقابلے کیلئے للکارا۔ عمرو تنہا ایک ہزار سوار کے برابر بہادر
سمجھا جاتا تھا۔ حضرت علیؓ شیر خدا نے ایک وار میں اس کے دوٹکڑے کرکے نعرۂ تکبیر
بلند کیا تو عمرو کے ساتھی بھی فرار ہوگئے۔نوفل بن عبداللہ گھوڑے پر سوار بھاگ کر
خندق کو پھلانگنا چاہتا تھا مگر خندق میں سر کے بل گرا اور گردن ٹوٹنے سے جاں بحق
ہوگیا۔نوفل بن عبداللہ کی لاش حاصل کرنے کے لئے مشرکین نے دس ہزار درہم حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فر مایا:
’’ نہ ہمیں دس ہزار درہم کی ضرورت ہے اور نہ
ہی اس کی لاش کی‘‘ اور یوں بغیر کسی معاوضہ کے نوفل بن عبداللہ کی لاش مشرکین کے
حوالے کردی گئی۔
اس روزپورے دن یہ سلسلہ جاری رہا اور مسلمان ہر جانب سے مشرکین کا
مقابلہ کرتے رہے۔ اس دوران نماز ظہر، عصر اور مغرب قضا ہوئیں جنہیں بعد میں اداکیا
گیا۔مدینہ منورہ کے دفاع میں یہودی قبیلہ بنوقریظہ کی غداری سے جب خطرہ ہوا تو
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت زیدؓ بن حارثہ کو تین سو افراد کے ہمراہ
مدینے کے مکانات اور گھروں کے دفاع کے لئے روانہ فرمایا جہاں خواتین اور بچے قیام
پذیر تھے۔
جب خندق کی کھدائی مکمل ہوگئی تھی اور مشرکین کی فوج مدینہ کے قریب
پہنچ گئی تو مسلمان خواتین اور بچوں کو حفاظت کے لیے مضبوط قلعوں اور مستحکم
عمارتوں میں منتقل کردیا گیا۔ حضرت صفیہؓ بنت عبد المطلب حضرت حسانؓ کے فارع نامی
قلعے میں تھیں۔ یہ قلعہ بنو قریظہ کی آبادی سے قریب تھا۔ ابتدائی ایام میں تو بنو
قریظہ کیونکہ مسلمانوں کے ساتھی تھے اس لئے مستورات کو ان کی طرف سے کوئی خطرہ
نہیں تھا۔ کیونکہ اہل عرب ایفائے عہد کے لئے ضرب المثال تھے لیکن جنگ شروع ہونے سے
پہلے کعب بن اسد اپنے پورے قبیلہ بنو قریظہ کے ہمراہ عہد سے پھر گیا۔ اس طرح مستورات بھی ان لوگوں
کی طرف سے ہوشیارہوگئیں۔ ایک روز یہودیوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کی
ساری فوج تو خندق کی سمت مشرکین سے برسرپیکار ہے۔ قلعہ پر حملے کا منصوبہ تیار
کیا۔ چنانچہ اس غرض سے ایک یہودی کو سب سے پہلے حالات معلوم کرنے کے لیے قلعہ کی
طرف بھیجا۔ حضرت صفیہؓ بنت عبد المطلب فرماتی ہیں:
’’ ہمارے پاس سے ایک یہودی گزرا اور قلعے کے
چاروں طرف چکر لگایا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے درمیان کوئی نہیں تھا جو ہمارا
دفاع کرتا۔۔۔
اس لئے میں نے کہا:
’’اے حسانؓ !یہ یہودی۔۔۔جیسا کہ آپ دیکھ رہے
ہیں ۔قلعہ کے چکر لگا رہاہے اور مجھے اللہ کی قسم اندیشہ ہے کہ یہ باقی یہود کوبھی
ہماری کمزوری کے متعلق آگاہ کردے گا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اورصحابہ کرامؓ جنگ
میں اس طرح مصروف ہیں کہ وہ ہماری مدد کو نہیں آسکتے۔ آپ جائیے اور اس یہودی کو
قتل کردیجئے۔‘‘
حضرت حسانؓ دربار نبویؐ کے شاعر تھے۔ بینائی سے محروم تھے۔
حضرت حسانؓ نے کہا:’’اگر میں لڑنے کے قابل ہوتا تو اس وقت میدانِ جنگ
میں ہوتا ،‘‘
حضرت صفیہؓ کہتی ہیں:
’’اب میں نے اپنی کمر باندھی اور لاٹھی لی
اور قلعے سے اتر کر اس یہودی کے پاس پہنچی اور لاٹھی سے مار مار کر اسکا خاتمہ
کردیا۔ اسکے بعدقلعے میں واپس آئی اور حضرت حسانؓ سے کہا:’’جایئے! اس کے ہتھیار
اتارلیجئے۔ ‘‘
حضرت حسانؓ نے کہا’’مجھے اسکے ہتھیار اورسامان کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
مسلمان بچوں اور عورتوں کی حفاظت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
پھوپی کے اس کارنامے کا بڑا گہرا اثر ہوا۔ اس کاروائی سے یہود یوں نے سمجھاکہ ان
قلعوں میں بھی مسلمانوں کا حفاظتی لشکر موجود ہے، یہودیوں کو دوبارہ اس قسم کی
جرأت نہ ہوئی۔ البتہ وہ مشرکین کے ساتھ اپنے اتحاد کا عملی ثبوت پیش کرنے کیلئے
انہیں مسلسل رسد پہنچاتے رہے۔ مسلمانوں نے ان کے رسد کے بیس اونٹوں پر قبضہ کرلیا۔
اگرچہ محاصرے کی طوالت میں مسلمان بھی مشکلات کا سامنا کررہے تھے
لیکن کفار میں ہمت و حوصلہ نہیں رہا تھا۔ اسی دوران ایک نو مسلم نے خاموشی سے
سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکرکفار میں پھوٹ ڈالنے کی
اجازت طلب کی۔یہ نو مسلم نعیمؓ بن مسعودتھے۔ جن کے ایمان سے ابھی تک کفار آگاہ
نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے یہود کے باغی قبیلے بنو قریظہ اور قریش مکہ کے لشکر میں
موجود بنوغطفان میں ایسی پھوٹ ڈالی کہ وہ ایک دوسرے سے متنفر اور بیزار ہوگئے۔کفار
کا لشکر حوصلہ ہار رہا تھا۔ ان کی رسد ختم ہورہی تھی کہ قریش مکہ کو حج کے
انتظامات کی فکر ہوگئی۔ موسم کی شدت میں اضافہ ہوگیا اور سردی بڑھ گئی۔ سپاہی
بیمار و ہلاک ہورہے تھے اوریہ سوچ رہے تھے کہ ہم کس طرح واپس ہوں گے؟ مسلمانوں میں موجود منافقوں کی
سازش بھی ان کے کسی کام نہیں آئی اور وہ مسلمانوں کے حلیف قبائل کو عہد توڑنے پر
رضا مند نہیں کرسکے ۔
سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ظہرو عصر کے دوران مسلسل دعا میں
مصروف رہے:
’’اے اللہ! آپ قرآن کریم کے نازل فرمانے والے
ہیں اور جلد حساب کرنے والے ہیں۔ ان قبیلوں کو شکست دیجئے۔ اے اللہ! ان کو شکست
دیجئے اور ان کو لڑکھڑا دیجئے اور ان پر ہماری مدد فرمائیے۔‘‘
باطل پر اتحاد کرنے والے ابھی کسی فیصلے پر متفق نہیں ہوئے تھے کہ
رات کو اتنی تیز آندھی آئی کہ خیمے ہوا میں غباروں کی طرح اُڑنے لگے ۔ لشکر میں
روشن الاؤ بجھ گیا۔ شدید بارش سے سردی بڑھ گئی۔ بارش، طوفان اور بادلوں کی گرج میں
کفار کی مایوس فوج خوف و ہراس کا شکار ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے آندھی، بارش اور
فرشتوں کی جماعت سے مجاہدین کی مدد فرمائی۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو
یاد کرو جو تم پر ہوئی جب تمہارے پاس لشکر آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آندھی
بھیجی اور ایسا لشکر بھیجا جو تمہیں نظر نہیں آتا تھا اور اللہ تعالیٰ دیکھ
رہے تھے جو تم کررہے تھے ۔‘‘(سورۃالاحزاب۔ آیت 9)
حضرت حُذیفہؓ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے کفار کے لشکر
میں حالات معلوم کرنے گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ہوا کے طوفان نے ان کے خیمے اُکھاڑ
دیئے، دیگیں الٹ دیں،گھوڑے بدمست دوڑ رہے تھے اور سنگریزوں کی آوازیں آرہی تھیں جو
گھوڑوں کو لگ رہے تھے ۔
حضرت حُذیفہؓ فرماتے ہیں :
’’ جب میں واپس آرہا تھا تو راستہ میں بیس سوار ملے۔ انہوں نے مجھ سے کہاکہ تم اپنے آقا کو خبر دے دو کہ حق تعالیٰ نے کفار کے لشکر پر حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو نجات دی۔ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس پہنچا تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بھی نماز مکمل کرکے تبسم فرمای
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان