Topics
اہل مکہ کو جنگ بدر میں شکست اور اپنے خاص لوگوں کے قتل کا جو صدمہ
برداشت کرنا پڑا تھا اس کے سبب وہ مسلمانوں کے خلاف غم وغصہ میں بھرگئے تھے، حتیٰ
کے انہوں نے اپنے مقتولین پرماتم بھی نہیں کیا اور قیدیوں کے فدیہ کی ادائیگی میں
بھی جلد بازی کرنے سے منع کردیا تھا تاکہ مسلمان ان کے رنج و غم کی شدت کا اندازہ
نہ کرسکیں۔
زمانہ جاہلیت میں تو ایک آدمی کے قتل پر سالوں تک لڑائیوں کا سلسلہ
جاری رہتا تھا۔ جبکہ غزوہ بدر میں ایک دو نہیں ستّر مشرکین مارے گئے تھے۔ پھر کیسے
ممکن تھا کہ وہ بھرپور انتقام لینے کی کوشش نہ کرتے۔
انہوں نے جنگ بدر کے بعد یہ متفقہ فیصلہ کرلیا کہ مسلمانوں سے ایک
بھرپور جنگ کی جائے تاکہ ان کے غیض و غضب کو تسکین ملے اور اسکے ساتھ ہی جنگ کی
تیاری شروع کردی۔ اس معاملے میں سردارانِ قریش میں سے عکرمہ بن ابو جہل، صفوان بن
امیہ، ابوسفیان بن حرب اورعبداللہ بن ربیعہ زیادہ پُرجوش تھے۔
ان لوگوں نے اس سلسلہ میں پہلا کام یہ کیا کہ ابوسفیان کا وہ تجارتی
قافلہ جو جنگ بدر کا باعث بنا اور جسے بچا کر ابوسفیان لے جانے میں کامیاب ہوگیا
تھا، اس کاسارامال جنگی اخراجات کے لئے محفوظ کرلیا اور جن لوگوں کا مال تھا ان سے
کہاکہ :
’’اے قریش! تمہیں محمد ( علیہ الصلوٰۃوالسلام)
نے سخت صدمہ پہنچایا ہے اور تمہارے منتخب سرداروں کو مار دیا ہے۔ لہٰذا ان سے جنگ
کرنے کیلئے اس مال کے ذریعے مدد کرو۔‘‘
قریش نے اس تجویز کو منظورکرلیا۔ چنانچہ یہ سارا مال اورایک ہزار
اونٹ جنگ کی تیاری کیلئے وقف کردیے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنے اموال اللہ
تعالیٰ کی راہ سے روکنے کے لئے خرچ کریں گے۔ تو یہ خرچ توکریں گے لیکن پھر یہ ان
کے لئے باعث حسرت ہوگا۔ پھر مغلوب کیے جائیں گے۔ ‘‘ (سورۃالانفال۔آیت36)
پھرقریش نے رضاکارانہ خدمت کا دروازہ کھول دیا کہ جو بھی مسلمانوں کے
خلاف جنگ میں شریک ہونا چاہے، وہ شریک ہوجائے۔
چنانچہ ایک سال پوراہونے سے پہلے قریش کی تیاری مکمل ہوگئی اور
مجموعی طور پر کل تین ہزار فوج تیار ہوگئی۔ قریش کے سرداروں نے تجویز پیش کی کہ
جنگ میں عورتیں بھی جائیں گی چنانچہ اس لشکر میں عورتیں بھی شامل ہوئیں جن کی
تعداد پندرہ تھی۔ لڑائیوں میں ثابت قدمی اور جوش جنگ کا بڑا ذریعہ خواتین تھیں۔ جس
لڑائی میں خواتین ساتھ ہوتی تھیں عرب جان پر کھیل جاتے تھے کہ شکست ہوگی تو عورتیں
بے حرمت ہوں گی۔ بہت سی عورتیں ایسی تھیں جنکی اولاد جنگ بد رمیں قتل ہوچکی تھیں
اس لئے وہ جوش و جذبے سے لبریز تھیں، انہوں نے منتیں مانیں تھیں کہ اس جنگ کے
ذریعے اپنی اولاد کے قتل کا بدلہ لیں گی۔ غرض جب فوجیں تیار ہوئیں تو معزز گھرانوں
کی عورتیں بھی فوج میں شامل ہوگئیں۔
ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں :
۱۔ ہندہ۔۔۔عتبہ کی بیٹی
اورامیر معاویہؓکی ماں
۲۔ زوجہ عکرمہ بن ابو
جہل
۳۔ فاطمہ (بنت ولید)حضرت
خالدؓکی بہن
۴۔ برزۃ۔۔۔مسعود ثقفی جو
طائف کارئیس تھا،اسکی بیٹی
۵۔ ریطۃ ۔۔۔عمرو بن
العاص کی زوجہ
۶۔ خناس ۔۔۔حضرت مصعب بن
عمیرؓ کی ماں
غزوہ بدر میں کفار مکہ کا سب سے زیادہ نقصان حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں
ہوا تھا۔ حضرت حمزہؓ نے ہند ہ کے باپ عتبہ کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا۔ جبیر بن
معطم کا چچا بھی حضرت حمزہؓ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس لئے ان کے قتل کا باقاعدہ
منصوبہ بنایا گیا۔ ہندہ نے جبیر کے حبشی غلام وحشی کو جو حربہ بازی(بلم) میں کمال
رکھتا تھا حضرت حمزہؓ کے قتل پر آمادہ کیا اور یہ طے ہواکہ جنگ کے بعد حبشی کو
آزاد کردیاجائے گا۔ وحشی کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین جانتے تھے کہ حضرت
حمزہؓ کے ساتھ روبرو مقابلہ ممکن نہیں ۔ وحشی دور سے بلم پھینکا کرتا تھا اور اس
فن میں ایسا ماہر تھا کہ اس کا پھینکا ہوابلم نشانے پر لگتا تھا ۔
سواری اور باربرداری کیلئے تین ہزار اونٹ تھے اور فوج کے لئے دو سو
گھوڑے تھے۔ ان گھوڑوں کو تازہ دم رکھنے کیلئے ان پر سواری نہیں کی گئی۔ حفاظتی
ہتھیاروں میں سات سو زرہیں تھیں۔ ابوسفیان کو پورے لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا گیا
تھا۔ فوج کی کمان خالد بن ولید کو دی گئی اور عکرمہ بن ابو جہل کو ان کا معاون
بنایا گیا۔ پرچم دستور کے مطابق قبیلہ بنی عبدالدار کو دیا گیا۔
حضرت عباس ؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا، گو اسلا م لاچکے تھے،
لیکن اب تک مکے ہی میں مقیم تھے۔ حضرت عباس ؓ قریش کی اس ساری نقل و حرکت اور جنگی
تیاریوں کا بڑی ہوشیاری اور گہرائی سے مطالعہ کررہے تھے، چنانچہ جوں ہی لشکر حرکت
میںآیا۔ حضرت عباسؓ نے اس کی ساری تفصیلات پر مشتمل ایک خط حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی خدمت میں بھیجا۔خط لے جانے والے نے مکے سے مدینے تک کا سفر تین دن میں
طے کیا اور خط حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کردیا۔ اس وقت حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام مسجد قبا میں تشریف فرما تھے۔ یہ خط حضرت ابی بن کعبؓ نے حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کو پڑھ کر سنایا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے انہیں اس خط کو راز
رکھنے کی تاکید فرمائی اور فوراً مدینے تشریف لے آئے۔ انصار اور مہاجرین کے بزرگوں
سے صلاح و مشورہ کیا۔
اس کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ۵؍ شوال
۳ھ کو دو خبر رساں جن کے
نام انسؓ اور مونسؓ تھے، خبر لانے کے لئے بھیجا، انہوں نے آکر اطلاع دی کہ قریش کا
لشکر مدینہ کے قریب پہنچ گیا ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت خبابؓ بن منذر کو
بھیجا کہ فوج کی تعداد کی خبر لائیں۔ انہوں نے آکر اطلاع دی۔ چونکہ شہر میں حملے
کا اندیشہ تھا، اس لئے ہر طرف پہرے بٹھادیئے گئے تھے۔ حضرت سعدؓ بن عبادہ اور حضرت
سعدؓ بن معاذ ہتھیار لگاکر پوری رات مسجد نبوی کے دروازے پر پہرہ دیتے رہے۔قریش کا
لشکر شاہراہ پر چلتا رہا۔ یہاں تک کہ مدینے کے قریب پہنچ کر پڑاؤ ڈال دیا۔خبر رساں
مکی لشکر کی ایک ایک خبر مدینے پہنچارہے تھے، حتیٰ کہ اس کے پڑاؤ کی بابت آخری خبر
بھی پہنچادی۔
صبح کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فوجی ہائی کمان کی مجلس
شوریٰ منعقد فرمائی۔ جس میں مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے صلاح و مشورہ کیے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اُنہیں اپنا ایک خواب سنایا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’’میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں ایک محفوظ جگہ
ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک گائے ذبح کی جارہی ہے۔میں نے خواب میں مزید دیکھا ہے کہ
میری تلوار کی دھار میں دندانے پڑے ہوئے ہیں۔ جب میں نے تلوار کو ہلایا تو اس کا
اگلا حصہ ٹوٹ کر گر گیاہے۔ پھر جب میں نے دوسری بارتلوار کو ہلایا تو وہ پہلے سے
بھی زیادہ عمدہ ہوگئی۔خواب کی تعبیر یہ ہے کہ مدینہ منورہ ایک مضبوط زِرہ ہے اور گائے
ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میرے کچھ صحابہؓ اس جنگ میں شہادت کا بلند مرتبہ حاصل
کریں گے۔ تلوار
ٹوٹ جانے کی یہ تعبیر ارشاد فرمائی کہ ’’میرے خاندان میں سے کوئی فرد اس غزوہ میں
شہید ہوگا۔ ‘‘پھر
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صحابہ کرامؓ کے سامنے دفاعی حکمت عملی کے متعلق اپنی
رائے پیش کی کہ مدینے سے باہر نہ نکلیں شہر کے اندر قلعہ بند ہوجائیں۔ اگر مشرکین
اپنے خیموں میں رہتے ہیں تو یہ قیام بے مقصد ہوگا اور اگر لشکر مدینے میں داخل ہوا
تو مسلمان گلی کوچوں میں ان سے مقابلہ کریں گے اور عورتیں چھتوں کے اوپر سے ان کو پتھرماریں
گی۔
صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے جوبدر میں شرکت سے رہ گئی تھی،حضورعلیہ
الصلوٰۃ والسلام کو مشورہ دیاکہ میدان میں تشریف لے چلیں اور انہوں نے اپنی اس
رائے پر سخت اصرارکیا؛حتیٰ کہ بعض صحابہؓ نے کہا:
’’اے اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام! ہم
شہادت کی تمنا کرتے تھے اوراللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگاکرتے تھے ،ا ب اللہ تعالیٰ
نے یہ موقع فراہم کردیا ہے اور میدان میں نکلنے کا وقت آگیا ہے۔ یا رسول اللہ علیہ
الصلوٰۃوالسلام! آپ دشمن کے مدمقابل تشریف لے چلیں تاکہ دشمن یہ نہ سمجھیں کہ ہم
ڈرگئے ہیں۔‘‘ان گرم جوش حضرات میں
خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب بھی تھے۔ حضورعلیہ
الصلوٰۃ والسلام نے اکثریت کے اصرار کے سامنے اپنی رائے تبدیل کردی اور آخری فیصلہ
یہی ہوا کہ مدینے سے باہر نکل کرکھلے میدان میں جنگ کی جائے۔اس کے بعد حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے جمعہ کی نمازکی امامت کی اور وعظ اور نصیحت کی، جدوجہد کی
ترغیب دی اور بتایا کہ صبر اور ثابت قدمی سے فتح حاصل ہوسکتی ہے۔ ساتھ ہی حکم دیا
کہ دشمن سے مقابلے کیلئے تیار ہوجائیں۔ یہ سن کر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
لشکر ترتیب دے دیا گیا۔
نماز عصر قائم فرمانے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃولسلام حجرۂ مبارک میں
تشریف لے گئے اور زرہ زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے۔ اب صحابہ کرامؓ کو ندامت
محسوس ہوئی کہ ہم نے رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام کی واضح رائے کے برخلاف مشورہ
پیش کرکے اچھا نہیں کیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ
’’کسی نبی کے لئے یہ زیبا نہیں کہ جب وہ
زِرّہ پہن لے تو بغیر لڑے ہوئے اسے اُتار دے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی کے دشمنوں سے
جنگ کرے۔ اب اللہ تعالیٰ کا نام لے کر چلو ، اب جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں اسے سنو
اور عمل کرو! اور یاد رکھو کہ اگر تم لوگ صابر اور ثابت قدم رہے تو اللہ تعالیٰ کی
فتح و نصرت تمہارے لئے ہے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا۔
۱۔مہاجرین کادستہ:اس
کاپرچم حضرت مصعبؓ بن عمیر کوعطاکیا۔
۲۔قبیلہ اوس (انصار)کادستہ:اس
کاعلم حضرت اسیدؓ بن حضیرکوعطافرمایا۔
۳۔قبیلہ خزرج(انصار)کادستہ:اسکاعلم
حضرت خبابؓ بن منذر کو عطا فرمایا ۔
پورا لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل تھا جن میں ایک سو زرہ پوش اور
پچاس شہسوار تھے۔ اس کے بعد کوچ کا اعلان فرما دیا اور لشکر نے شمال کا رُخ کیا۔
حضرت سعدؓ بن عبادہ اورحضرت سعدؓ بن معاذ زرہ پہنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے
آگے آگے چل رہے تھے ۔
’’ اور جب اے رسول علیہ الصلوٰۃوالسلام صبح کے وقت تم اپنے گھر سے نکلے،
مسلمانوں کیلئے لڑائی کی جگہیں مقرر اور درست کرتے تھے اور خدا سننے والا علم والا
ہے۔‘‘
(سورۃ آلِ عمران۔ آیت121)
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام احد کی طرف لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے اور
مقام مشوط پر پہنچ کر فجر کی نماز ادا کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دشمن کے
بالکل قریب تھے اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ میدان جنگ میں عبداللہ بن
ابی نے بغاوت کردی اور تین سو افراد کو لے کر یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ ہم نہیں
سمجھتے کہ کیوں اپنی جان دیں۔۔۔؟حقیقت وہ نہیں جو اس نے ظاہر کی تھی بلکہ حقیقت یہ
تھی کہ وہ اس نازک موڑ پرالگ ہوکر اسلامی لشکرمیں ایسے وقت اضطراب اور کھلبلی
مچانا چاہتا تھا جب دشمن اس کی ایک ایک نقل و حرکت دیکھ رہا ہو تاکہ ایک طرف تو
عام فوجی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ساتھ چھوڑ دیں اور جو باقی رہ جائیں ان کے
حوصلے پست ہوجائیں اور دوسری طرف اس منظر کو دیکھ کر دشمن کی ہمت بندھے اور اس کے
حوصلے بلندہوں۔ قریب تھا کہ یہ منافق اپنی اسکیم میں کامیاب ہوجاتا کیونکہ مزید دو
جماعتوں یعنی قبیلہ اوس میں بنو حارثہ اور قبیلہ خزرج میں سے بنو سلمہ کے قدم بھی
اکھڑچکے تھے اور وہ واپس جانے کی تدبیر سوچ رہے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی
دستگیری فرمائی اور یہ دونوں جماعتیں دوبارہ جہاد پر آمادہ ہو گئیں۔
’’جو نقصان لڑائی کے دن تمہیں پہنچا وہ اللہ
تعالیٰ کے اذن سے تھااور اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ لیں تم میں سے مومن کون
ہیں اور منافق کون ؟وہ منافق کہ جب ان سے کہا گیا ’’آؤ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ
کرویا کم از کم (اپنے شہر کی ) مدافعت ہی کرو۔‘‘ تو کہنے لگے’’ اگر ہمیں علم ہوتا
کہ آج جنگ ہوگی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے ‘‘یہ بات وہ جب کہہ رہے تھے اس وہ وقت
وہ ایمان کی بہ نسبت کفر سے زیادہ قریب تھے۔ وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہتے ہیں
جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں، اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے
خوب جانتے ہیں۔‘‘ (سورۃ آلِ عمران۔ آیت 166تا167)
اس بغاوت اور واپسی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بچے ہوئے
لشکر کے ساتھ جس کی تعداد سات سو تھی دشمن کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ دشمن کا پڑاؤ
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان اور احد کے درمیان کئی سمتوں سے حائل تھا۔ اس
لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ کوئی ہے جو ہمیں دشمنوں کی نظروں میں آئے
بغیر راستے سے گزاردے۔‘‘
جواب میں ابوخیثمہؓ نے عرض کیا:
’’یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام !میں اس
خدمت کیلئے حاضرہوں ۔‘‘
پھر ایک مختصر راستہ اختیار کیا اور مشرکین کی نظروں سے بچاتے ہوئے
لشکر کو احد کی گھاٹی میں لے گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جگہ لشکر کا
کیمپ لگوایا۔ سامنے مدینہ تھا پیچھے احد کا بلند ترین پہاڑ؛ اس طرح دشمن کا لشکر
مسلمانوں اور مدینے کے درمیان حدفاصل بن گیا۔
یہاں پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لشکر کی ترتیب وتنظیم
قائم فرمائی اور جنگی نقطۂ نظر سے اسے کئی صفوں میں تقسیم فرمایا۔ ماہر تیر
اندازوں کا ایک فوجی دستہ بھی منتخب فرمایا جو پچاس تیر اندازوں پر مشتمل تھا۔ ان
کی کمان حضرت عبداللہؓ بن جبیر بن نعمان انصاری کے سپرد کی اور انہیں وادئ قناۃکے
جنوبی کنارے پر واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جو اسلامی لشکر کے کیمپ سے کوئی ڈیڑھ
سو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے، تعینات فرمایا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تیر انداز کمانڈروں کو ہدایت دیتے ہوئے
فرمایا:
’’شہسواروں کو تیر مار کر ہم سے دور رکھو۔ وہ
پیچھے سے ہم پر حملہ نہ کریں۔ ہم جیتیں یا ہاریں تم اپنی جگہ پر رہنا۔ تمہاری طرف
سے ہم پر حملہ نہ ہونے پائے ۔‘‘
پھرحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے تیر اندازوں کومخاطب کرکے فرمایا:
’’ہماری پشت کی حفاظت کرنا۔اگر دیکھو ہم مارے
جارہے ہیں تو ہماری مدد کو نہ آنا اور اگر دیکھو کہ مجاہدین مال غنیمت لے رہے ہیں
تو تم ان کے ساتھ شریک نہ ہونا۔‘‘
ان فوجی احکامات و ہدایات کے ساتھ اس فوجی دستے کو اس پہاڑی پر متعین
فرماکر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احد میں وہ شگاف بھی بند فرما دیا جس سے
مشرکین اس طرف پہنچ سکتے تھے اور قریش مسلمانوں کو نرغے میں لے سکتے تھے۔باقی لشکر
کی ترتیب یہ تھی کہ میسرہ پرحضرت منذرؓ بن عمرو مقرر ہوئے اور میمنہ پر حضرت زبیرؓ
بن عوام اور ان کا معاون حضرت مقدادؓ بن اسود کو بنایا۔ حضرت حمزہ ؓ کو اس حصہ فوج
کی کمان ملی جو زرہ پوش نہیں تھے۔ اس ترتیب کے علاوہ صف کے اگلے حصے میں ممتاز اور
منتخب بہادر لوگوں کی ڈیوٹی لگائی گئی۔
قریش کو بدر میں تجربہ ہوچکا تھا اس لئے انہوں نے ترتیب سے صف آرائی
کی۔ میمنہ پر خالد بن ولید کو مقرر کیا۔ میسرہ عکرمہ بن ابوجہل کو دیا۔ سواروں کا
دستہ صفوان بن امیہ کی کمان میں تھا۔ جو قریش کا مشہور رئیس تھا۔ تیز اندازوں کے
دستے الگ تھے جن کا افسر عبداللہ بن ابی ربیعہ تھا۔ طلحہ بن ابی طلحہ عبدری علم
بردار تھا۔
اس کے بعد دونوں فریق بالکل آمنے سامنے اور قریب آگئے اور لڑائی شروع
ہوگئی۔ جنگ میں ہلاک ہونیوالا پہلا آدمی مشرکین کا علم بردار طلحہ بن ابی طلحہ
عبدری تھا۔ یہ شخص قریش کا نہایت بہادر شہسوار تھا۔ یہ اپنے اونٹ پر سوار ہوکر
نکلا اور اس نے مقابلے کی دعوت دی۔ اس کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت کے سبب صحابیؓ
مقابلے میں نہیں آئے۔ حضرت علیؓ تیزی سے آگے بڑھے اور فرمایا: ’’ہاں! میں یہ کام
کردیتا ہوں۔‘‘اس کے ساتھ ہی حیدری تلوار بجلی کی طرح لہرائی اور طلحہ بن ابی طلحہ
عبدری کا سر تن سے جدا ہوگیا۔ اب عام جنگ شروع ہوگئی۔ حضرت حمزہؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت ابودجانہؓ
نے شجاعت و دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے مشرکین کی صفیں اُلٹ دیں ۔
حضرت حمزہؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت ابودجانہ ؓ عرب کے مشہور پہلوان
تھے، حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے دست مبارک میں تلوار لے کر فرمایا:
’’ اس کا حق کون اداکرے گا؟‘‘
اس سعادت کیلئے دفعتاً بہت سے ہاتھ بڑھے لیکن یہ اعزاز حضرت
ابودجانہؓ کے نصیب میں تھا۔ اس اعزاز نے انہیں مست و بے خود کردیا۔ سر پر سرخ
رومال باندھے اور اکڑتے ہوئے فوج سے نکلے ۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد
فرمایا:
’’یہ چال اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے لیکن
اس وقت پسند ہے۔‘‘
حضرت ابودجانہؓ دشمن کی صفوں کو اُلٹتے اور شکست دیتے ہوئے آگے بڑھے۔
یہاں تک کہ ہندہ تک پہنچ گئے۔ باوجود یہ کہ اس وقت ہندہ اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لے رہی تھی اور ہر لحاظ سے قتل کی مستحق تھی مگر ابودجانہؓ نے اس کے سر پر سے
تلوار رکھ کر اٹھالی، انہوں نے اس بات کو گوارا نہیں کیا کہ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی تلوار سے کسی عورت کا خون کیا جائے۔
جنگ احد میں نامی گرامی کفار ہلاک ہوئے اور انکی صفیں درہم برہم
ہوگئیں۔ جوش اور غیرت کیلئے دف بجا بجا کر اشعار سنانے والی قریشی عورتیں کفار کی
شکست دیکھ کر بھاگنے پر مجبور ہوگئیں۔ قریش کا جھنڈا جب زمین پر گر گیا اور دوسرا
کوئی مشرک اسے نہیں اٹھا سکا تو فوج کے حوصلے پست ہوگئے اوروہ اپنے سپاہیوں کی
لاشیں چھوڑ کرفرار ہوگئے۔
قریش کا سیاہ فام وحشی موقع کی تلاش میں تھا۔ اس نے لالچ میں حضرت
حمزہؓ کو ڈھونڈ لیا اور ان کی تاک میں بیٹھ گیا۔ حضرت حمزہؓ بڑی دلیری سے تلوار
چلارہے تھے۔ وحشی کو ان کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ وحشی نے جب دیکھا کہ
حضرت حمزہؓ کی پشت اس کی طرف ہے تو اس نے اپنا نیزہ اتنی قوت سے ان کی طرف پھینکا
کہ نیزہ سینے کے پار ہوگیا اور حضرت حمزہؓ کی روح پرواز کرگئی۔ (انا للہ وانا الیہ
راجعون)
جب ہندہ نے یہ سناکہ حضرت حمزہؓ وحشی کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں تواس
نے اسی لمحہ ناصرف یہ کہ وحشی کو آزاد کردیا بلکہ میدان جنگ میں کھڑے کھڑے اپنے
کنگن اور ہا ر اُتار کر اسے بخش دیئے اورایک تیز دھار چاقوسے حضرت حمزہؓ کا پیٹ
چاک کرکے جگر نکال کر چبانا شروع کردیا، پھر اس نے ان کے ناک اور کان کاٹے۔ ہندہ
نے اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ قریب پڑی ہوئی مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناک
کاٹ کر ڈوری میں پرو کر ہار بنایا اور گلے میں ڈال کر وحشیانہ رقص کیا۔ہندہ کے
علاوہ قریش کی ایک اور عورت ’’سلافہ بن سعد‘‘ بھی میدان جنگ میں وارد ہوئی۔ درندہ
صفت سلافہ بن سعد اُس مسلمان شہید کا سر کاٹ کر لے گئی جس نے جنگ بدر میں اس کے
بیٹے کو قتل کیا تھا۔ بہت مکروہ چیخ میں اس نے کہا جب تک میں زندہ ہوں اس کھوپڑی
کے پیالے میں پانی پیا کروں گی۔ لڑائی ختم ہونے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
نے دیکھا کہ چچا کا پیٹ اور سینہ چاک ہے اور کلیجہ چباکر پھینک دیاگیاہے اور
مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناک بھی کٹے ہوئے ہیں تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام
بے انتہا غمگین ہوئے ۔
حضرت حمزہؓ کی شہادت سے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس کے
باوجود جنگ میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا۔مسلمانوں نے ایسی جواں مردی سے مقابلہ
کیا کہ مشرکین کے حوصلے پست ہوگئے اور ان کی قوت بازو جواب دے گئی۔
جن تیر اندازوں کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعین فرمایا تھا۔
انہوں نے بھی جنگ میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ مکی شہسوارخالد بن ولید کی قیادت میں
اور ابوعامر فاسق کی مدد سے مسلمانوں کی پشت تک پہنچ گئے اور ان کی صفوں میں
کھلبلی مچاکر بھرپور شکست سے دوچارکرنے کیلئے تین بار حملے کئے لیکن مسلمان تیر
اندازوں نے انہیں اس طرح تیروں سے چھلنی کردیاکہ ان کے تینوں حملے
ناکام ہوگئے ۔
کچھ دیر تک شدید جنگ ہوتی رہی اور چھوٹا سا اسلامی لشکر، جنگ پر پوری
طرح حاوی رہا۔ بالآخر مشرکین کے حوصلے پست ہوگئے، ان کی صفیں منتشر ہوگئیں۔ ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ تین ہزار مشرکین کو سات سو نہیں بلکہ تیس ہزار مسلمانوں کا
سامنا ہے۔ مسلمان ایمان و یقین اور جانبازی و شجاعت کی تصویربنے ہوئے تھے۔مشرکین
کو شکست ہوگئی فوج نے واپسی کی راہ لی۔مسلمانوں نے تعاقب جاری رکھا۔ تعاقب کی شدت کا
یہ عالم تھا کہ مشرکین بہت دور تک پسپا ہوگئے اور مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے لگے
۔
لیکن اسی وقت جبکہ یہ مختصر سا اسلامی لشکر اہل مکہ کے خلاف تاریخ کے
اوراق پر ایک اور شاندار فتح لکھ رہا تھا، تیراندازوں کی اکثریت نے ایک ایسی
خوفناک غلطی کی جس کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کو تکلیف پہنچی۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تیراندازوں کو فتح ہو یا شکست ہر حال
میں اپنے پہاڑی مورچوں پر قائم رہنے کی سخت تاکید فرمائی تھی لیکن ان سارے تاکیدی
احکامات کے باوجود جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان غنیمت لوٹ رہے ہیں تو ان پر دنیا
کا اثر غالب آگیا۔
چنانچہ بعض نے بعض سے کہا:
’’غنیمت ۔۔۔!غنیمت۔۔۔!تمہارے ساتھی جیت گئے
۔۔۔اب کس بات کاانتظارہے؟‘‘
یہ آواز سنتے ہی ان کے کمانڈر عبداللہؓ بن جبیر نے انہیں حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے احکامات یاد دلائے اور کہا:
’’کیاتم بھول گئے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے تمہیں کیاحکم دیاہے؟‘‘
لیکن غالب اکثریت نے ان کی کوئی بات نہیں سنی۔چالیس تیر اندازوں نے
اپنے مورچے چھوڑ دیئے اور مال غنیمت کے لئے لشکر میں شامل ہوگئے۔ اس طرح مسلمانوں
کا ایک اہم مورچہ خالی ہوگیا اور وہاں صرف عبداللہؓ بن جبیر اور ان کے نو ساتھی
باقی رہ گئے جو اس عزم کے ساتھ اپنے مورچوں میں رہے کہ یا تو انہیں اجازت مل جائے
گی یا وہ اپنی جان اللہ تعالیٰ کے لئے قربان کردیں گے۔خالد بن ولید نے اس موقع سے
فائدہ اٹھایا اور اسلامی لشکرکی پشت پر جا پہنچے۔ پہاڑی مورچوں پر موجود چند
مسلمان جنہوں نے مورچہ نہیں چھوڑا تھا مشرکین کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے خلاف اس عمل سے مشرکین نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔مشرک
فوج کا جھنڈا ایک عورت نے اٹھا کر ہوا میں بلند کردیا اور مشرکین کی پسپا فوج واپس
پلٹ آئی اور مسلمان چاروں طرف سے مشرکین کے نرغے میں آگئے۔ مسلمانوں میں ابتری پھیل گئی
اورافراتفری میں مسلمانوں کے ہاتھوں بعض مسلمان مارے گئے۔
’’اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا
جبکہ تم کفار کو اس کے حکم سے قتل کررہے تھے۔ یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار
کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی، اس کے بعدکر دکھایا اللہ تعالیٰ نے تم
کو وہ جو تم چاہتے تھے بعض تم میں سے دنیا کا ارادہ رکھتے تھے اور بعض آخرت کا،
پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو دشمنوں کی طرف سے پھیردیا تاکہ تم کو آزمائے اور بیشک
اللہ تعالیٰ نے تم کو معاف کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ مومنوں پر بڑے فضل والے ہیں۔‘‘
(سورۃ آل عمران ۔آیت 152)
ایسے میں حضرت مص
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان