Topics
سوال: کمانے کے قابل نہیں ہوں لہٰذا مجھ پر ہر وہ ظلم ہو رہا ہے جو ایک عورت کر سکتی ہے۔ بچے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ میری رگوں میں چونکہ شریف ماں باپ کا خون گردش کر رہا ہے لہٰذا صبر اور خاموشی پر اکتفا کر رہا ہوں۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنا شیوہ نہیں لہٰذا علاج سے قاصر ہوں اور اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب اس دارفانی سے میر اآب و دانہ ختم ہو گا۔جب سے ہوش سنبھالا ہے جستجو میرا مشغلہ ہے۔ پیسہ کی کوئی کمی نہ تھی لہٰذا ہندوستان کے ہر گوشہ سے مذہبی کتابیں منگواتا، پڑھتا اور ایک دن منزل پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہر دین کی کتابیں اور ان کی تفاسیر پڑھیں۔ پاکستان آنے کے بعد صرف مذہب اسلام کو ہی پڑھنے کا موقع ملا۔ دوسرے مذاہب مثلاً ہندو، جین، بدھ، یہودیت، عیسائیت کی بنیادیں ایک ہی ہیں مگر ان پر تعمیر مختلف طریقوں سے کی گئی ہے تا کہ ان مذاہب کی انفرادیت قائم رہے۔ ہر مذہب کے پیشواؤں نے اپنے مذہب کا بیڑہ غرق کیا۔ صرف اپنے مطلب کی برآوری کی خاطر۔
آپ کا فرمانا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد درد کی دوا ہے۔ گو کہ میرا اس پر ایمان نہیں ہے کیونکہ میں بغیر ثبوت کے اندھی تقلید کا قائل نہیں۔ میں اللہ پر بھی ایمان اسی وقت لایا جب عقل اور حالات کی کسوٹی پر اس کو پرکھ لیا۔ اور عقل نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ وہ تنہا ہے۔ بڑی حکمت اور قوت والا ہے۔ کائنات کے ذرہ ذرہ کو اسی نے پیدا کیا اور جب چاہتا ہے جس کو چاہتا ہے فنا کر دیتا ہے کسی کو جوابدہ نہیں۔ اس کی خوشی اور قہر کسی کے اعمال کا پابند نہیں۔ لیکن یہ ضروری ہے نہیں کہ وہ ہماری نیکیوں کو نیکی اور بدیوں کو بدی شمار ہی کرے۔ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے شاید لوگوں نے بادشاہوں کے طریقے دیکھ کر ہی کہا ہے کہ اللہ بڑا بادشاہ ہے۔ یعنی بادشاہوں کے طریقے سے بھی بڑا بادشاہ۔ کیونکہ بادشاہ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرنے کا پابند یا مجبور نہیں ہوتا۔ بہرحال آپ اپنے یقین کی بنیاد پر اگر مجھے کوئی مشورہ دیں تو انتہائی مشکور ہوں گا۔ میں نے مختصراً یہ کوشش کی ہے کہ میں اپنے حالات، صحت، خیالات اور ایمان بیان کر کے آپ کی سوچ کی کچھ رہنمائی کر سکوں۔ اگرمشورہ کے لئے مزید کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو مطلع فرمائیں۔ شکریہ۔
جواب: جس اللہ کو اپنے(بقول خود) عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر اللہ کو خالق مانا ہے۔ تو وہی اللہ قرآن کی سورہ حشر کی آیتوں میں فرماتا ہے : اور اگر ہم قرآن کو پہاڑوں پر نازل کر دیتے تو پہاڑ ڈوب جاتا۔ پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ’’ہم نے اپنی امانت سماوات اور ارض اور جبال پر پیش کی۔مگر سب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہماری اتنی سکت نہیں ہے کہ ہم اس عظیم امانت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا سکیں۔ اور اگر ہم نے آ پ کی سونپی ہوئی یہ امانت اپنے کاندھوں پر اٹھائی تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ قرآن کے الفاظ میں ایک عظیم طاقت مخفی ہے۔ یہ مخفی طاقت ہی یقین کی بنیاد پر اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ البتہ قرآن پاک سے فائدہ اٹھانے کے لئے یقین کا ہونا ضروری ہے۔ جب آپ کا یقین بحال ہو جائے لکھ دیجئے۔ آپ کے مسئلہ کا حل پیش کر دیا جائے گا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔