Topics
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام کے اولین قانون ساز ہیں۔ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے اس ضمن میں تمام انسانوں کی رہنمائی کی۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے اپنے زمانے کے تقاضوں کا بھی خیال رکھا۔۔۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے قانونی ملفوظات پر تمام اسلامی آئین کی بنیادیں قائم ہیں۔ اللہ
تعالیٰ کی جانب سے یہ احکام بھی نافذ ہیں کہ تمام مسلمان فرمان رسول علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی پیروی کریں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’جو کچھ رسول تم کو دے اسے مضبوطی سے پکڑے
رہو اور جس سے وہ تمہیں منع کرے اسے ترک کردو۔‘‘(سورۃ الحشر۔ آیت 7)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی، فی الحقیقت اس نے
اللہ کی اطاعت کی۔ ‘‘
(سورۃ النساء۔ آیت80)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام منصف و قاضی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
بطورِ منصف انسانیت کیلئے عظیم اسوہ (نمونہ )چھوڑا ہے۔ قرآن پاک میں ایک جگہ نہیں
بلکہ مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ اس نے نبی
کومنصف مقرر کیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرنے پر
منجانب اللہ مامور تھے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اور ہم نے آپ (علیہ الصلوٰۃوالسلام) پر
برحق کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان کے محافظ و
نگہبان ہے پس آپ(علیہ الصلوٰۃوالسلام) لوگوں کے درمیان جو اللہ نے نازل کیا ہے اس
کے مطابق حکم کیا کریں اور جو (دین) حق آپ (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے پاس آچکا ہے
اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی مت کریں۔ ‘‘(سورۃ المائدہ۔ آیت48)
’’قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ مومن نہیں ہوسکتے
جب تک تنازعات میں آپ کو حکم و منصف نہ مان لیں۔‘‘(سورۃ النساء۔آیت 65)
’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں
ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کریں تو وہ اس کام میں اپنا
بھی کچھ اختیار سمجھیں۔‘‘(سورۃاحزاب۔آیت36)
مدینہ منورہ میں تمام مقدمات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عدالت میں
پیش ہوتے تھے اور بالعموم مسجد نبوی کو ہی ایوانِ عدالت کی حیثیت حاصل تھی۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ کار یہ تھاکہ جب کسی معاملہ کا قرآن پاک میں حکم
موجود نہ ہوتا توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بصیرت و اجتہاد سے فیصلہ فرماتے
تھے یا صحابہؓ سے مشورہ فرماکرکسی نتیجہ پر پہنچ جاتے اور پھر وہی فیصلہ اسلام کا
قانون اور حکم بن جاتاتھا۔
مدینے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود منصف کے منصب پر فائز تھے
لیکن اس کے علاوہ صوبائی سطح پر بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قاضیوں کا تقرر
کیا اور عدالت وقضا کی ذمہ داریاں بھی بالعموم صوبائی سربراہوں کے سپردکیں۔حضرت
معاذ ؓ بن جبل کو یمن کا حاکم اور عتابؓ بن اسید کو مکہ کا والی مقرر کیا۔ یہ
حضرات حکومت عامہ کے ساتھ ساتھ عدالت کا کام بھی انجام دیتے تھے۔ حاکموں کے انتخاب
کے سلسلے میں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پالیسی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی
۔۔۔
’’اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں
ان کے اہل امانت کے سپرد کرو۔‘‘
(سورۃ النساء۔آیت58)
کتانی کا بیان ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے صحابہؓ میں سے جن
لوگوں کو قاضی کے منصب پر سرفراز فرمایاتھاان میں حضرت عمر فاروق ؓ ،حضرت عثمانؓ
بن عفان،حضرت علیؓ بن ابی طالب،حضرت عبدؓاللہ بن مسعود،حضرت ابی ؓ بن کعب،حضرت
زیدؓ بن ثابت اورحضرت ابو موسیٰ اشعریٰؓ شامل تھے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قاضی کے لئے عملی رہنمائی کے اصول بھی
بیان فرمائے ہیں۔
*حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے مجھے حاکم بنا کر یمن بھیجا۔ میں نے عرض کیا ’’ یا رسول علیہ
الصلوٰۃوالسلام ! آپ مجھے حاکم بناکر یمن بھیج رہے ہیں۔ میں نوجوان ہوں اور حکومت
کرنے کے طریقہ سے ناواقف ہوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’ ا للہ تعالیٰ تمہارے دل کی
رہنمائی کریں گے اورتمھاری زبان کومحکم رکھیں گے۔‘‘ پھر فرمایا ’’جب دوافراد کوئی
معاملہ لے کرتمھارے پاس آئیں تو پہلے کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہیں کرنا جب تک
دوسرے کا بیان نہ سن لو کیونکہ اس کا بیان تمہیں فیصلہ کرنے میں مدد دے گا۔ ‘‘
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی کسی معاملے میں فیصلہ
کرنے میں شک نہیں ہوا۔
(ترمذی ، کتاب الاحکام،باب ماجاء فی القاضی، 618/3)
* قاضی کے لئے اصل چیز اس کا اخلاص ہے۔ اخلاص
کی صورت میں اس کے فیصلوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔
*حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ
قاضی کو غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے۔
(صحیح مسلم ۔جلد 2۔حدیث1996)
*حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ بھی فرمایا
کہ قاضیوں کو اپنی تنخواہوں سے زیادہ کچھ نہیں لینا چاہیئے کیونکہ اس کے بغیر نظام
عدل مستحکم نہیں رہ سکتا۔
’’حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جس شخص کو ہم نے کسی کام پر مقرر کیا اور اس کے کام کی
اجرت معین کردی۔ اس کے بعد اگر وہ کچھ لے گا تو یہ خیانت ہے۔‘‘
(ابو داؤد۔ کتاب الامارۃ و الخراج۔ 353/3)
*’’حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جو شخص کسی حاکم سے کسی کی سفارش کرے اور پھر اس حاکم
کو ہدیہ بھیجے اور وہ اس ہدیہ کو قبول کرلے تو اس کا یہ فعل ایسا ہے گویا کہ وہ
سود کے ایک بڑے دروازے میں داخل ہوگیا ہے۔‘‘ (ابو داؤد ، کتاب البیوع والاجارات۔
810/3)
*حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جھوٹے دعووں،
غلط شہادتوں اور غلط بیانی سے مقاصد حاصل کرنے کو منع فرمایا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے مقدمہ بازی کی عادت کو بھی ناپسند فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین شخص وہ ہے جو
ناحق بہت زیادہ جھگڑنے والا ہو۔‘‘
(بخاری، کتاب الاحکام، 117/3)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں پیش کئے جانے والے مقدمات میں
سے چند مقدمات اور ان کے فیصلے مختصراً بیا ن کئے جاتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ قریش ایک عورت کے معاملہ میں بہت فکر
مند تھے جس نے عہد نبویؐ میں فتح مکہ کے موقعہ پر چوری کی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام سے اسکی سفارش کون کرے گا؟ بعض لوگوں نے کہا حضرت اسامہؓ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے محبوب ہیں وہی یہ جرأت کرسکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت اسامہؓ نے حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سفارش کی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرہ انور کا
رنگ بدل گیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’تم اللہ تعالیٰ کی حدود
میں سفارش کرتے ہو۔‘‘ حضرت اسامہؓ نے عرض کیا ’’ یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃ
والسلام! میرے لئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگئے۔ جب شام ہوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ دیااللہ تعالیٰ کی
حمد و ثنا کی۔ پھر فرمایا’’ تم سے پہلے لوگ اسی سبب سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے
کوئی صاحب حیثیت آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس
پر حد قائم کرتے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر محمد کی بیٹی فاطمہ
بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔‘‘(بخاری۔ کتاب الحدود،16/8)
پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس عورت کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم
دیا جس نے چوری کی تھی۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
’’اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ
کاٹ ڈالو۔یہ ان کے فعلوں کی سزا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت ہے۔‘‘(سورۃ
المائدہ ۔آیت 38)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’ایک لڑکی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اسکے باپ نے اسکی مرضی کے خلاف نکاح کردیا ہے۔حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے اختیار دے دیا ’’کہ چاہے تو اپنا نکاح باقی رکھے ۔
چاہے تو توڑدے‘‘۔ (ابو داؤد۔ کتاب النکاح ۔ 313/2)
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’حضرت ثابتؓ بن قیس بن شماس کی زوجہ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئی اور کہا یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام
!میں ثابت کے دین اوراخلاق میں کوئی عیب جوئی نہیں کرتی۔ البتہ مجھے اندیشہ ہے کہ
میں اس کی فرماں برداری نہیں کرسکوں گی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ کیا
تو اس کا باغ اس کو لوٹا دے گی؟ کہنے لگی ہاں۔ چنانچہ اس نے باغ لوٹا دیااور حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی علیحدگی کا فیصلہ فرما دیا۔ ‘‘(بخاری، کتاب الطلاق۔
41-170/6)
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان