Topics
’’میں تمہارا پیش رو ہوں یعنی تم سے آگے جانے
والا ہوں اور میں تم پر گواہی دوں گا ۔ تمہاری اور میری ملاقات حوض کوثر پر ہوگی
اور میں حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں ، مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور
مجھے تمہارے بارے میں یہ اندیشہ نہیں ہے کہ تم میرے بعد شرک کروگے لیکن مجھے یہ
خوف ضرور ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہو گے اورہلاک
ہوجاؤگے ۔ جس طرح سے تم سے پہلی قومیں ہلاک ہوئی تھیں۔ ‘‘(صحیح بخاری۔ جلد دوئم۔۔
حدیث 585)
مرض سے پہلے جس طرح خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے وصال کا
علم ہوگیا تھا، اسی طرح بعض صحابہ ؓ کو بھی خوابوں کے ذریعے پتا چل گیا تھا۔حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت عباسؓ فرماتے ہیں :
’’میں نے ایک رات خواب دیکھا کہ زمین مضبوط
رسوں سے بندھی آسمان کی طرف کھچی چلی جارہی ہے۔‘‘ میں نے یہ خواب حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام سے بیان کیا تو فرمایا:
’’یہ آپؓ کے بھتیجے کی موت ہے۔‘‘ (خصائص)
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے خواب دیکھا آپؓ فرماتی ہیں
’’میں نے دیکھا کہ میرے حجرہ میں تین چاند
اُتر آئے ہیں۔ میں فوراً اپنے والد ابوبکرؓ کے پاس گئی اور خواب بیان کیا۔حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فرمایا ’’یہ تیراسب سے
اچھا چاند تھا۔‘‘(ابن سعد)
پھر خود حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ دفن ہوئے اس طرح
اسلام کے تین چاندحضرت عائشہؓ کے حجرہ میں تاباں ہوگئے اور ان کے خواب کی تعبیر
پوری ہوئی۔
۲۸ صفر کو آدھی رات گزرنے کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بقیع تشریف
لے گئے اور اہل بقیع کے لئے دعائے مغفرت فرمائی:
’’اے قبروں میں رہنے والو!تم پر سلام۔ لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابلے
میں تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ تاریک رات کی طرح فتنے ایک کے پیچھے ایک
چلے آرہے ہیں اور بعد والا پہلے سے زیادہ بُراہے۔‘‘
اس کے بعد اہل قبور سے فرمایا’’ ہم بھی تم سے ملنے آرہے ہیں۔‘‘
جنت البقیع سے واپسی کے بعد اگلے روز صبح سے سر میں درد شروع ہوا۔
حرارت بڑھ گئی جو سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ
کے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام13یا 14 دن علیل رہے۔ روز بروز طبیعت ناساز
ہورہی تھی۔
ازواج مطہراتؓ کی اجازت سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت عائشہؓ کے
گھر میں منتقل ہوگئے اور وصال تک حضرت عائشہؓ کے گھر میں ہی قیام فرمایا۔
انصار سے ان کے اخلاص، محبت، پاک دلی اور فدائیت کی وجہ سے حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کوبے حد محبت تھی۔ یہ محبت ہمیشہ بڑھتی ہی رہی ۔ دورانِ مرض بھی بار بار ان کا
ذکر خیرفر ماتے تھے۔ چنانچہ ایک دن باہر تشریف لائے تو دروازے پر انصاری
مردوں،عورتوں اور بچوں کاہجوم دیکھا۔ یہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیماری سے
سخت مضطرب تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے معصوم اور اداس چہرے دیکھ کر بے
چین ہوگئے اور فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان
ہے، اے انصار! میں تم سے بڑی ہی محبت کرتا ہوں۔‘‘
پھر مسلمانوں کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا:
’’انصاریوں نے تو وہ سب پورا کردیا جو ان کے
ذمہ تھا، لیکن تمہارے ذمہ ان کے تمام حقوق باقی ہیں۔ دیکھو ان کے نیکوں سے نیکی
کرنا وربروں سے درگزر کرنا۔‘‘
ایک موقع پر انصارحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیماری کا حال سن کر
مسجد میں جوق در جوق جمع ہوگئے اور کسی نے آکر خبر دی کہ انصار مسجد میں جمع ہیں
اور رو رہے ہیں۔
فرمایا۔۔۔ ’’کیوں روتے ہیں؟‘‘
بتایا گیا۔۔۔ ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے خائف ہیں۔‘‘
اسی اثنا میں حضرت عباس ؓ آگئے اور عرض کیا:
’’مسجد میں انصار جمع ہیں۔‘‘
پھر حضرت فضلؓ ابن عباس یہی خبر لائے۔ پھر حضرت علیؓ نے بھی آکر یہی
کہا۔ اس پرحضو رعلیہ الصلوٰۃ والسلام بے چین ہوگئے۔ سر میں درد بہت تھا۔ نقاہت
اتنی تھی کہ کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ مگر اُٹھے اور حضرت علیؓ اور حضرت فضلؓ کے
سہارے سے مسجد تشریف لے گئے۔ مسلمانوں نے اپنے نبی علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دیکھا
تو دوڑ پڑے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حمد و ثنا کے بعد خطبہ دیا :
’’لوگو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم اپنے نبی کی
وفات سے بہت خائف ہو۔ لیکن کیا مجھ سے پہلے کوئی نبی اپنی امت میں ہمیشہ زندہ رہا
ہے کہ میں تم میں ہمیشہ جیتا رہوں؟ لوگو، سنو! میں اپنے رب سے جلد مل جانے والا
ہوں اور تم سب بھی اس کے پاس پہنچنے والے ہو۔ میں تمہیں مہاجرین اولین سے اچھے
برتاؤ کی وصیت کرتا ہوں۔ خود مہاجر کومیری وصیت یہ ہے کہ آ پس میں نیک سلوک کرتے
رہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
’’قسم ہے زمانہ کی، انسان خسارہ میں ہے بجز
ان کے جو ایمان لائے، نیک کام کئے اور باہم حق و صبر کی وصیت کی۔‘‘(سورۃ العصر)
’’ اے لوگو! میں تمہیں انصار سے مہربانی کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہی ہیں
جو تم سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ کیا انہوں نے اپنے رزق میں سے تمھیں حصہ نہیں دیا؟
کیا انہوں نے تمہیں اپنی آدھی روزی بانٹ نہیں دی؟ کیا انہوں نے اپنے گھروں میں
تمہارے لئے جگہ نہیں نکالی؟ کیا انہوں نے خود تکلیف نہیں جھیلی اور اپنے اوپر
تمہیں ترجیح دے کر آرام نہیں پہنچایا؟
پس سنو! جس کی دو آدمیوں پر بھی حکومت کا کوئی اختیار حاصل ہو، اسے
چاہیئے کہ ان کے نیکوں کی نیکی قبول کرے اور ان کے بروں سے درگزر کرے۔ خبردار ان
کے مقابلے میں خودغرضی نہ کرنا۔ سنو! میں تمہارے آگے پیش خیمہ ہوں اور تم میرے
پیچھے آنے والے ہو۔ تم سے ملاقات کا وعدہ حوض پر ہے۔ ‘‘
’’ سنو! تم میں سے جو چاہتا ہے کہ کل حوض پر
مجھ سے آملے تو اسے چاہیئے کہ اپنی زبان اور ہاتھ روکے اور انہی کاموں میں انہیں
استعمال کرے جن میں استعمال کرنا مناسب ہے۔‘‘
’’اے لوگو! گناہ نعمتوں کو بدل ڈالتے ہیں اور
قسمتوں کو پلٹ دیتے ہیں۔ اگر لوگ نیک رہیں گے تو اپنے حکام کو بھی نیک پائیں گے،
اگر بگڑ جائیں گے تو حکام بھی ان سے بدی کریں گے۔‘‘ (المواھب) ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مرض کی شدت کے
باوجودوفات سے چار دن پہلے (جمعرات) تک تمام نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ اس
روز بھی مغرب کی نمازحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی نے پڑھائی اور اس میں سورۃ
المرسلات عرفا پڑھی۔‘‘
(صحیح بخاری ، عن ام الفضل ، باب مرض البنی ؐ۔ حدیث 637)
لیکن عشاء کے وقت مرض کی شدت میں اس قدر اضافہ ہوگیا کہ مسجد میں
جانے کی طاقت نہیں رہی۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت
فرمایا کہ کیا لوگوں نے نمازقائم کر لی؟
عرض کیا:’’ابھی نہیںیا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ، سب آپ کا
انتظار کررہے ہیں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’ میرے لئے لگن میں پانی
رکھو۔ ‘‘ ہم نے ایسا ہی کیا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غسل فرمایا اور اس کے
بعد اٹھنا چاہا، لیکن حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نڈھال ہوگئے۔
بالآخر حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو پیغام
دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
(مشکوۃ۔ جلد اول۔ حدیث 102)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
میں نے عرض کیا۔۔۔ ’’یارسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام ! ابوبکرؓ رقیق
القلب اور کمزور آواز کے آدمی ہیں۔ قرآن پڑھتے ہیں تو گریہ طاری ہوجاتا ہے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور دوبارہ
فرمایا:
’’ابوبکر سے کہو، نماز پڑھائیں۔‘‘
چنانچہ حضرت ابوبکرؓ امامت کے لئے کھڑے ہوگئے۔ مگر جب قرأت شروع کی،
گریہ ان پر غالب آگیا اور زارو قطار رونے لگے۔ یہی حال مقتدیوں کا ہوا۔ ہچکی بندھ
گئی، کیونکہ وہ آج محراب کو اپنے نبیؐ سے خالی دیکھ رہے تھے۔(ابن سعد)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات مبارکؐ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی
پڑھائی ہوئی نمازوں کی تعداد سترہ ہے۔
ایک روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی طبیعت میں قدرے بہتری
محسوس کی، چنانچہ دو صحابہ کرامؓ کے ہمراہ ظہر کی نماز کے لئے تشریف لائے۔ اس وقت
حضرت ابو بکر صدیق ؓ نماز پڑھا رہے تھے وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی تشریف آوری
پر پیچھے ہٹنے لگے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایاکہ پیچھے نہیں ہٹیں،
بلکہ مجھے ان کے برابر میں بٹھادو۔ چنانچہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کوحضرت ابو
بکر صدیق ؓ کے برابر میں بٹھادیا گیا۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ حضورعلیہ
الصلوٰ ۃ والسلام کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو تکبیر سنا رہے
تھے۔(صحیح بخاری۔ جلد اول۔ حدیث 99,98)
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام مرض کی شدت اور سخت نقاہت کے عالم میں ایک
دن حضرت فضلؓابن عباسؓ کے ساتھ مسجد میں تشریف لائے اور مسلمانوں کو جمع کرکے خطبہ
دیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا
’’اب تم سے میری جدائی نزدیک آپہنچی ہے۔ میں
بھی ایک آدمی ہوں، جس آدمی کو کوئی تکلیف پہنچی ہو ، وہ آئے اور بدلہ لے لے، جس
کسی کے جسم کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو یہ میرا جسم موجود ہے، آئے اور قصاص
لے لے، جس کسی کے مال کو مجھ سے کچھ نقصان پہنچا ہو تووہ لے لے۔ خوب اچھی طرح سمجھ
لو، تم میں میرا سب سے زیادہ خیر خواہ وہ ہے، جس کا اس قسم کا کوئی حق مجھ پر ہو
اور وہ مجھ سے وصول کرلے، یا معاف کردے۔ تاکہ تمام مطالبوں سے آزاد ہوکر میں اپنے
پروردگار کے حضور میں پہنچوں۔
دیکھو! کوئی یہ خیال نہ کرے کہ۔۔۔ ’’ میں رسول اللہ علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے بغض و عداوت سے ڈرتا ہوں‘‘۔۔۔ یہ دونوں باتیں نہ میرا مزاج ہیں
اور نہ میری عادت میں شامل۔ جو شخص کسی بات میں بھی اپنے نفس سے مغلوب ہوگیا ، وہ
بھی آ ئے اور مجھ سے مدد مانگے، تاکہ میں اس کے حق میں دعا کردوں۔‘‘
مرض الموت میں ایک دن حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے حضرت ابو ذر غفار
یؓ کویاد فرمایا، وہ آئے توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سورہے تھے۔ وہ جھک کر
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھنے لگے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چشمِ
مبارک کھول دیں اور انہیں سینہ سے لگالیا۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب بیمار ہوتے
تھے تو سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی سورتیں پڑھ کر دست مبارک پر پھونک مارتے پھر
دست مبارک اپنے سارے جسم پر پھیرتے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آخری علالت
میں یہ آیتیں پڑھ کر،میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دم کرتی اور حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کا دستِ مبارک پکڑ کران کے جسم پر پھیرتی تھی۔‘‘
بخار میں شدت آگئی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’ مختلف کنوؤں کا پانی میرے اوپر بہاؤ۔‘‘
اس ارشادکی تکمیل کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حرارت میں کمی
محسوس فرمائی اور مسجد تشریف لے گئے۔اس حال میں کہ سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منبر پر بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا۔ وہاں صحابہؓ جمع
تھے۔
فرمایا:
’’ بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیاہے کہ دنیا کی زیب و زینت کو قبول
کرے یا اللہ تعالیٰ کے یہاں جو کچھ ہے اسے قبول کرے اور اللہ تعالیٰ کے اِس بندے
نے اللہ کے پاس والی چیزوں کو قبول کرلیا۔ ‘‘
یہ ارشاد سن کرحضرت ابو بکر صدیق اکبرؓ رونے لگے ۔ باقی صحابہ کرامؓ
اس بات کو بعد میں سمجھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سفر آخرت کو پسند
فرمالیا ہے۔
ایک روز تمام ازواج مطہراتؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں
حاضر ہوئیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا کہ حضرت فاطمہ ؓ آرہی ہیں۔حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’اے میری بیٹی !میں تمہیں خوش آمدید کہتا
ہوں۔‘‘
پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں اپنے پاس بٹھالیا اور ان سے
سرگوشی فرمائی۔ حضرت فاطمہؓ زاروقطار رونے لگیں ۔پھر حضرت فاطمہؓ کے کان میں کچھ
فرمایا اور حضرت فاطمہؓ ہنسنے لگیں۔
تھوڑی دیر جب آپؓ واپس جانے لگیں تو حضرت عائشہؓ نے پوچھا:
’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپؓ سے کیا
سرگوشی کی ہے ؟‘‘
حضرت فاطمہؓ نے فرمایا،
’’میں اللہ تعالیٰ کے رسول علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے راز کو افشا نہیں کرسکتی ۔‘‘
جب کائنات کے سردار، رحمت اللعالمین، اللہ کے محبوب،حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے پاس تشریف لے گئے۔ توحضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہؓ
سے پوچھا:
’’ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے آپؓ کے
کان میں کیا فرمایا تھا۔‘‘
حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا،
’’رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مجھ سے
جو سرگوشی فرمائی تھی اب میں بتاسکتی ہوں۔ ‘‘
حضرت فاطمہؓ نے بتایا:
’’ رسول اللہ علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا:
’’اے فاطمہ! میرے وصال کی گھڑی قریب آگئی ہے۔
اے میری نورنظر!
اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہنااور اس مصیبت پر صبر کرنا،میں تمہارے لیے
بہترین پیش رو ہوں اوراے فاطمہ!تم میرے تمام اہل بیت سے پہلے مجھ سے ملو گی او ر میں تمہارے لیے
بہترین رہنماہوں۔‘‘
فراق کی خبر سن کر میں رونے لگی ۔ میرے ابا نے میرے کان میں دوبارہ
فرمایا:
’’اے فاطمہ !کیاتو اس با ت پر راضی نہیں کہ
تو تمام صاحبِ ایمان خواتین کی سردار بن جائے۔
یہ بھی روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’اے فاطمہ !تجھے اللہ تعالیٰ نے امت کی تمام
خواتین کی سردار بنادیاہے ۔‘‘
یہ مژدۂ جانفزا سن کر حضرت فاطمہؓ ہنس پڑیں۔
وفات سے ایک دن پہلے بروز اتوار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غلاموں
کو آزاد فرمادیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس سات دینار تھے انہیں صدقہ
کردیا۔ اپنے ہتھیار مسلمانوں کو ہبہ فرمادئیے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ عبدالرحمنؓ بن ابی بکر، حجرے میں داخل
ہوئے۔ ان کے ہاتھ میں تازہ سبز مسواک تھی۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مسواک کو
دیکھا۔ میں سمجھ گئی کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اسے چاہتے ہیں۔
میں نے کہا۔۔۔ ’’کیاحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام یہ مسواک لیں گے؟‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اشارہ سے جواب دیا۔۔۔ ’’ہاں‘‘۔
میں نے اپنے دانتوں سے مسواک نرم کرکے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی
خدمت میں پیش کی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے مسواک استعمال کی۔ پاس ہی پانی سے
لبریز پیالہ رکھا تھا۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بار بار اس میں ہاتھ ڈالتے ، چہرۂ
مبارک تر کرتے تھے اور فرماتے تھے۔۔۔
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتُ۔‘‘
ذرا دیر بعد مسواک انگلیوں میں بھاری ہوگئی۔ مجھے دینے لگے تو چھوٹ
کر گرگئی۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی انگلی چھت کی طرف اُٹھی اور فرمایا:
فِیْ الرَّفِیْقِ
الْاعْلَیٰ، فِیْ الرَّفِیْقِ الْاعْلَیٰ، فِیْ الرَّفِیْقِ الْاعْلَیٰ،
اللّٰہُمَّ اَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ مِنَ الْجَنَّۃِ رفیق اعلیٰ
میں،رفیق اعلیٰ میں،رفیق اعلیٰ میں،یااللہ اعلیٰ مجھے جنت میں رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملادے
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان