Topics

شعب ابی طالب

ابوطالب قریش کی ریشہ دوانیوں سے باخبر تھے۔ قریش انہیں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت اور پشت پناہی سے دست بردارہونے پر مجبورکررہے تھے۔ ابوطالب نے اپنے جدِاعلیٰ عبدمناف کے دو صاحبزادوں ہاشم اور مطلب کے خاندان کو جمع کیا اور انہیں آمادہ کیا کہ اپنے بھتیجے محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی حمایت و حفاظت کا جو کام وہ اب تک تنہاکر رہے ہیں سب مل کر اس کام کو انجام دیں۔

عرب حمیت کا تقاضہ تھا کہ اہلِ خاندان اس بات پر راضی ہوجائیں لہٰذا خاندان کے افراد جمع ہوئے اور اس تجویز سے متفق ہوگئے۔ انہوں نے حضرت ابوطالب کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن حضرت ابوطالب کے بھائی ابولہب نے مشرکین قریش کاساتھ دیا۔نبوت کے ساتویں سال مکہ کے تمام سردار ایک جگہ جمع ہو ئے اور سب نے مل کر یہ عہد نامہ لکھا۔ جب تک بنو ہاشم اور بنو مطلب محمد(علیہ الصلوٰۃوالسلام)کو ہما رے حوالے نہیں کر تے۔

    …… کو ئی شخص محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) کے خاندان بنو ہاشم اوربنو مطلب سے میل جول اور تعلق نہ رکھے۔

……ان کے ساتھ کسی قسم کی خرید و فروخت نہیں کی جائے گی۔

……ان کے خاندان میں کو ئی شادی بیاہ نہ کرے۔

……کو ئی ان کو مہمان نہیں ٹھہراسکتا۔نہ ہی انھیں کھا نے پینے کا کو ئی سامان دیا جائے گا۔

منصور بن عکرمہ نے یہ ظالمانہ عہدنامہ لکھا۔ اس معاہدہ پر تمام سردارانِ قریش نے دستخط کیے اور معاہدہ خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکادیاگیا۔سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکال دیا گیا۔ بنو ہاشم بھی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت میں دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ مکہ سے باہر نکل گئے۔ ان میں پیغمبر الاسلام علیہ الصلوٰۃوالسلام کے وہ عزیز بھی شامل تھے جو مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ابو طالب کی غیرت و حمیت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ اپنے بھتیجے کو بے یار و مددگار چھوڑدیں۔

سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ جس گھاٹی میں پناہ گزین تھے، وہ ابی طالب کی ملکیت تھی۔ اس گھاٹی میں ابی طالب اور خاندان کے دوسرے افراد قیام کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔قریش نے مسلمانوں کو اشیائے ضرورت کی فروخت پر پابندی لگادی۔ ا س پر ستم یہ ہوا کہ شعب ابی طالب کسی قافلہ کی گزرگاہ بھی نہیں تھی۔جس سے کھانے پینے کی چیزیں مہیا ہوسکتیں۔ مسلمانوں نے شعب ابی طالب میں انتہائی دردناک مصیبتوں اور بھیانک پریشانیوں میں وقت گزارا۔ان ہی دنوں جب مسلمان شعب ابی طالب میں جلا وطنی کی زندگی گزاررہے تھے،ایک دن حضرت خدیجہ  ؓ کا بھتیجا حکیم بن حزام اپنی پھوپی کے لئے کچھ سامان لے کر آیا۔ قریش کے افراد نے جو نگرانی کررہے تھے حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے کو مکہ سے باہر نکلتے دیکھ لیا انہوں نے سامان ضبط کرکے اتنا مارا پیٹا کہ وہ تین دن تک بستر سے نہیں اُٹھ سکا۔

مکہ کے کچھ نرم دل بزرگوں نے مُصالحت کی کوشش کی اور قریش سے کہاکہ وہ اجازت دیں کہ حضرت محمدعلیہ الصلوٰۃوالسلام اور ان کے ساتھی گھاٹی سے واپس چلے آئیں۔ لیکن اہل کفار نے جواب دیا کہ محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) اپنے دین سے دستبردار ہوجائیں تو مکہ میں واپس آسکتے ہیں۔اِن حالات میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے ساتھیوں نے تین سال تک تنگی اور سختی کو برداشت کیا۔ شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کا سامان نہیں تھا اور فاقہ کشی کا یہ حال تھا کہ بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں اور عورتوں کی آوازیں گھاٹی کے باہر سنائی دیتی تھیں۔ان کے پاس بمشکل ہی کوئی چیز پہنچتی تھی اور مکہ کی سب سے زیادہ مالدار خاتون حضرت خدیجہ ؓ کے پاس صرف ایک ہانڈی اور ایک مٹی کا پیالہ تھا اور ایک دن وہ پیالہ بھی ٹوٹ گیا۔

حضرت ابوطالب کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں خطرہ لاحق رہتا تھا، اس لئے جب لوگ اپنے بستروں پر لیٹتے تو وہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہتے کہ تم اپنے بستر پر سوئے رہو۔ مقصد یہ ہوتا تھا کہ اگر کوئی شخص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قتل کرنے کی نیت رکھتا ہو تو دیکھ لے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کہا ں سورہے ہیں۔ پھر جب لوگ سوجاتے تو حضرت ابو طالب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جگہ بدل دیتے تھے یعنی اپنے بیٹے، بھائیوں، بھتیجوں میں سے کسی کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بستر پر سلا دیتے تھے۔ یا خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بستر پر سوجاتے تاکہ اگر حملہ ہو جائے تو ہماری جانیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر فدا ہوجائیں۔ اس کے باوجود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے مسلمان حج کے دنوں میں باہر نکلتے تھے اور حج کیلئے آنے والوں سے مل کر انہیں اسلام کی دعوت دیتے تھے۔

ان حالا ت میں محرم  10 نبوی میں بائیکاٹ نامہ چاک کیے جانے والاواقعہ پیش آیا۔اسکی وجہ یہ تھی کہ شروع ہی سے قریش کے کچھ لوگ اگر اس بائیکاٹ سے راضی تھے توکچھ ناراض بھی تھے اور انہی ناراض لوگوں نے اس کو ختم کرنے کی تگ و دو کی۔اس کا اصل محرک قبیلہ بنو عامر بن لوئی کاہشام بن عمرو نامی ایک شخص تھا۔ یہ رات کی تاریکی میں چپکے چپکے شعب ابی طالب کے اندر غلہ بھیج کر بنو ہاشم کی مدد بھی کیا کرتا تھا۔ وقتاً فوقتاً ہشام بن عمرو نے بائیکاٹ نامہ ختم کرنے کی مہم میں مختلف قبائل کے لوگوں سے رجوع کیا اور لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ یہ ظالمانہ فیصلہ کیوں ہوا……؟

اللہ تعالیٰ نے ہشا م بن عمرو کو کامیابی عطا کی اور چار لوگوں پر مشتمل ایک گروپ اس کے ساتھ بائیکاٹ ختم کرنے کی مہم میں شریک ہوگیا۔ جن میں زبیر بن امیہ (جو حضرت ابو طالب کے بھانجے تھے) مطعم بن عدی جو عبد مناف کی نسل میں سے تھے،ابو الجنتری، ابن ہشام اور زمعہ بن الاسود شامل تھے۔ چھ اور لوگوں کے ساتھ ملکر ان لوگوں نے عہد و پیمان کیاکہ بائیکاٹ ختم کرنا ہے اور اس میں زبیر پہل کریں گے۔ صبح ہوئی تو لوگ حسب معمول حرم میں پہنچے۔ زبیر بھی ایک خاص جوڑا زیب تن کرکے پہنچے۔ پہلے بیت اللہ کے سات چکر لگائے پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا:

مکے والوں کیا ہم کھانا کھائیں، کپڑے پہنیں اور بنو ہاشم تباہ و برباد ہوں۔ نہ ان کے ہاتھ کچھ بیچا جائے نہ ان سے کچھ خریدا جائے۔ اللہ کی قسم! میں بیٹھ نہیں سکتا۔ یہاں تک کہ اس ظالمانہ اور قرابت شکن بائیکاٹ کو ختم کردیا جائے۔

ابو جہل جو مسجد الحرام کے ایک گوشے میں موجود تھا، بولا:

تم غلط کہتے ہو۔ خدا کی قسم! تم اسے پھاڑ نہیں سکتے۔

زمعہ بن الاسود نے کہا:

تم زیادہ غلط کہتے ہو، جب یہ بائیکاٹ نامہ لکھا گیا تھا تب بھی ہم اس سے راضی نہیں تھے۔

اس پر ابو الجنتری نے کہا:

زمعہ ٹھیک کہہ رہا ہے اس میں جو کچھ لکھا گیا تھا تب بھی ہم اس سے متفق نہیں تھے اور اب بھی اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔اس کے بعد مطعم بن عدی اور ہشام بن عمرو نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ ہم اس بائیکاٹ سے اور اس میں جو کچھ لکھا ہواہے اس سے اللہ تعالیٰ کے حضور برأت کااظہار کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر ابو جہل نے کہا:

یہ بات رات میں طے کی گئی ہے اور اسکا مشورہ یہاں کی بجائے کہیں اور کیا گیا ہے، یہ تم لوگوں کی سوچی سمجھی سازش ہے۔

ابھی یہ لوگ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت ابوطالب تشریف لائے۔ ان کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بائیکاٹ نامے کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے دیمک بھیج دی۔ جنہوں نے ظلم ستم اور قرابت شکنی کی ساری باتیں چاٹ لی ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر باقی رہ گیاہے۔

حضرت ابو طالب نے بائیکاٹ کرنے والوں سے کہا:

قریش کے لوگو! میرے بھتیجے نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ معاہدہ کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ اگر یہ قول جھوٹ ثابت ہوا تو ہم تمہارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں گے اور تمہارا جو جی چاہے کرنا لیکن اگر محمد (علیہ الصلوٰۃوالسلام) سچے ہوئے تو تمہیں بائیکاٹ اور ظلم سے باز آنا ہوگا۔

 جب قریش کو یہ بتایا گیا تو انہوں نے کہا: ”آپ انصاف کی بات کہہ رہے ہیں۔

 ادھر ابو جہل اور باقی لوگوں کی نوک جھوک ختم ہوئی تو مطعم بن عدی بائیکاٹ ختم کرنے کے لئے اُٹھا۔ اس نے دیکھا کہ دیمک نے معاہدہ کو چاٹ لیا ہے۔ صرف بسمک اللّٰھُمَ باقی رہ گیا ہے اور جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کا نام تھا، دیمک نے اسے نہیں کھایا۔اس کے بعد بائیکاٹ نامہ چاک کردیا گیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور باقی تمام افراد شعب ابی طالب سے نکل آئے۔ مشرکین نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کی ایک عظیم الشان نشانی دیکھی۔ لیکن مشرکین نے اسے تسلیم نہیں کیا اور وہاں سے چلے گئے۔ان کا رویہ وہی رہا جس کا ذکر اس آیت میں ہے:

اگر وہ کوئی نشانی دیکھ لیتے ہیں تو رُخ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا پھرتا جادو ہے۔“ (سورۃ القمر۔آیت 2)

جب مسلمان شعب ابی طالب سے واپس لوٹے تو مسلسل فاقہ کشی، بھوک اور پیاس کے باعث بے حد کمزور ہوچکے تھے۔ان کے چہروں پر ہڈیاں نمایاں ہوگئیں تھیں اور ان کے بدن کی کھال سورج کی تمازت سے جھلس گئی تھی۔

عام الحزن

شعب ابی طالب کے مسلسل رنج والم اور دائمی بھوک کے بعدایک او ر حادثہ پیش آیا کہ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے شفیق چچا ابو طالب کمزوری کے باعث بیمار ہوگئے اور86/ سا ل کی عمر میں انتقال فرماگئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) 

اس صدمہ کو ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہمدرد، غمگساراور بے حد محبت کرنے والی شریک حیات حضرت خدیجہؓ  انتقال فرماگئیں۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)

یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے غم وخوشی میں ہر لمحہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ساتھ دیا۔ اپنی دولت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نثار کردی۔ حضرت ابراہیم ؓکے علاوہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سب اولاد ان ہی کے         بطن سے پیدا ہوئیں۔حضرت خدیجہؓ جو عیش و عشرت میں پلی بڑھی تھیں مگر انہوں نے انتہائی صبر و ثبات اور خوشدلی سے شعب ابی طالب میں محاصرہ کے دن بھوک اور پیاس کی تکلیف اُٹھا کر گزارے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آپؓ سے بہت محبت تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام زندگی بھر ان کو یاد کرتے رہے۔ جب حضرت خدیجہؓ نے زندگی کو خیر باد کہا اس وقت ان کی عمر65/ برس تھی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر پچاس سال تھی۔ انتقال کے بعد ان کو حجون میں دفن کیا گیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت خدیجہؓ کے متعلق ارشاد فرمایا:

خدیجہؓ  اس وقت ایمان لائیں جب لوگوں نے میرا انکار کیا۔ اپنے مال سے ایسے وقت میں میری مدد کی جب کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد عطا کی۔

ان مشفق سرپرست اور غمگسار اور ہمدرد بیوی کی وفات کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بہت مغموم اور افسردہ رہنے لگے تھے۔ حضرت فاطمہ  ؓ ابھی چھوٹی بچی تھیں ان کی دیکھ بھال اور پرورش کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ یہ حالات دیکھ کر حضرت عثمانؓ بن مظعون کی زوجہ حضرت خولہؓ بنت الحکیم نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دوسری شادی کی جانب مائل کیا اور حضرت سودہ  ؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عقد میں آئیں۔ حضرت سودہؓ کے پہلے شوہر حضرت سکرانؓ تھے دونوں نے دوسری ہجرت حبشہ میں شرکت کی تھی۔ حبشہ سے لوٹنے کے کچھ عرصہ بعد حضرت سکرانؓ  کا انتقال ہوگیا تھا۔ حضرت سودہؓ بیوہ تھیں اور اس وقت ان کی عمر 50 سال تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی عمر اس وقت 50 سال تھی۔

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان