Topics
سوال: ایسی نمازیں جو حضورﷺ کے ارشاد کے مطابق حضور قلب اور فواحشات، منکرات سے روک دے کس طرح ادا کی جا سکتی ہے؟
جواب: نماز کی فرضیت ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منتقل ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حضور پاکﷺ پر نماز کب فرض ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبوت سے پہلے ہی ایسا ذہن عطا فرمایا تھا جس کا رخ نورانی دنیا کی طرف اور نورانی دنیا کی طرف متوجہ رہنے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ تمام اعمال ترک فرما دیئے تھے جن سے ذہن کثیف دنیا کی طرف زیادہ مائل ہو سکتا ہے۔ حضورﷺ کی مقدس زندگی ہمارے سامنے ہے۔ آپﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کبھی خیانت نہیں کی۔ آپﷺ سے کبھی کوئی ایسا عمل سرزد نہیں ہوا جو بے حیائی کے زمرے میں آتا ہو۔ آپﷺ نے ہمیشہ بے کسوں کی دستگیری کی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گوشہ نشین ہو کر اور ہر طرف سے ذہن ہٹا کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے اور آپﷺ نے اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف اتنی زیادہ مرکوز فرمائی کہ قربت سے سرفراز ہوئے اور معراج میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پھر اللہ نے بندہ پر وحی نازل فرمائی جو نازل فرمائی تھی دل نے دیکھی ہوئی چیز جھٹلایا نہیں۔‘‘
نماز میں حضور قلب کے ضروری ہے کہ سیدنا حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کیا جائے۔ جس حد تک حضورﷺ کے اسوہ حسنہ پر کسی امتی کا عمل ہو گا۔ اس مناسبت سے نماز میں حضوری نصیب ہو جائے گی۔ قلب میں جلا پیدا کرنے کے لئے ان چیزوں سے دوری پیدا کرنی ہو گی جو ہمیں پاکیزگی، صفائی اور نورانیت سے دور کرتی ہیں۔ ہمیں اس ذہن کو رد کرنا ہو گا جو ہمارے اندر نافرمانی کا ذہن ہے۔ اس ذہن سے آشنا ہونا ہو گا جو حقیقت کا ذہن ہے اور جس میں نجات کا نزول ہوتا ہے۔ یہ ذہن روح کا ذہن ہے آسان الفاظ میں یوں کہناچا ہئے کہ جب تک کوئی بندہ اپنی روح سے وقوف حاصل نہیں کر لیتا اس وقت تک نماز میں حضور قلب نصیب نہیں ہوتا۔ روح سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مادیت سے دلچسپیاں کم کر کے مراقبہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ وقت ذہن کو اللہ کی طرف متوجہ رکھا جائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔