Topics
حضرت اما م حسینؓ فرماتے ہیں ’’میں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی
مجلس کے حالات دریافت کئے توحضرت علیؓ نے فرمایا’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کی
نشست و برخاست ،سب اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ ہوتی تھی،کسی جگہ تشریف لے جاتے تو
جہاں جگہ مل جاتی وہاں بیٹھ جاتے ،لوگوں کو بھی یہی حکم فرماتے کہ مجلس میں جہاں
جگہ ملے وہیں بیٹھ جایا کرو ،لوگوں کے سروں کو پھلانگ کر آگے نہیں جایا کرو۔۔۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام حاضرین میں سے ہر ایک کا حق ادا فرماتے ،حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے ہاں بیٹھنے والا ہر شخص یہ سمجھتا کہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سب
سے زیادہ میرا اعزاز فرما رہے ہیں اور رجوع کرتااگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م سے
کوئی شخص کوئی چیز مانگتا،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اسے مرحمت فرماتے، اگروہ چیز
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے پاس نہ ہوتی تو منع فرمادیتے ۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی خندہ روی اور خوش خلقی سب لوگوں کے لئے عام تھی ، حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کی مجلس، علم و حیا اور صبر و امانت کا مرقع تھی ۔اگر مجلس میں
کسی سے کوئی لغزش ہوجاتی تو اسے شہرت نہیں دی جاتی تھی۔ سب لوگ برابر سمجھے جاتے
،حسب نسب کی بنا پر کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جاتی ۔ایک کو دوسرے پر فضیلت
،صرف تقویٰ اورحسن عمل کی بنا پر ہوتی، حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہر شخص کے ساتھ
تواضع اور نرمی کے ساتھ پیش آتے ،بڑوں کی تکریم کرتے ،چھوٹوں پر شفقت فرماتے
،ضرورت مندوں کو ترجیح دیتے ، اجنبی مسافرکی خبر گیری کرتے۔‘‘
حضرت علیؓ فرماتے ہیں ’’حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام لوگوں میں سب سے
زیادہ سخی اور کشادہ ہاتھ تھے ،سب سے زیادہ باحوصلہ ،سب سے زیادہ راست گو،سب سے
زیادہ وعدہ وفا کرنے والے ،سب سے زیادہ نرم طبیعت والے سب سے بہتر اور معزز گھرانے
والے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو جو شخص یکدم دیکھتا مرعوب ہوجاتا ،جو شخص پہچان
کر میل جو ل رکھتا،وہ اخلاق کریمہ دیکھ کرحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا گرویدہ
ہوجاتا۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا سراپا بیان کرنے والا صرف یہ کہہ سکتا ہے کہ
میں نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے پہلے ،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام جیسا جمال
وکمال والا انسان نہیں دیکھااور نہ ہی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے بعد!........
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ،علم وحکمت
کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے ،سب سے زیادہ محترم ،سب سے زیادہ منصف ،سب سے زیادہ
حلیم و برد بار،سب سے زیادہ پاک دامن ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م لوگوں کو سب سے
زیادہ بھلائی اور نفع پہنچانے والے اور لوگوں کی ایذا رسانیوں پر سب سے زیادہ صبر
وتحمل کرنے والے تھے ۔‘‘حضرت خارجہ بن زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میرے پاس کچھ لوگ آئے اور
کہنے لگے ’’اے زید! ہمیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی کچھ باتیں سنائیے۔‘‘
میں نے عرض کیا
میں تمہیں کیاباتیں سناؤں،میں حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کا پڑوسی تھا،
’’جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر وحی آتی تو
مجھے بلواتے میں آتا اور وحی لکھ لیتا۔جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا کا ذکر
فرماتے ہم بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے ساتھ دنیا کا ذکر کرتے اور جب حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام آخرت کا ذکر فرماتے ،ہم بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے
ساتھ آخرت کی باتیں کرتے اور جب کھانے پینے کاذکر چلتا ،تو ہم بھی کھانے پینے کے
ذکر میں مشغول ہوجاتے ،ہم ہر طرح کی باتیں حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ کرلیا
کرلیتے تھے۔ بسا اوقات بعض ساتھی ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کے سامنے ہی شعر
پڑھنے لگتے اور ہنستے ،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بھی مسکرانے لگتے ۔حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کی عادت مبارک تھی کہ ممنوع باتوں کے علاوہ کسی بات پر ہم کو نہیں
منع فرماتے تھے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک عادت مبارکہ یہ تھی کہ اپنے
ساتھیوں میں ہمیشہ خوش رہتے اورمسکراہٹ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے چہرہ اقدس پر
نمایاں رہتی ،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے اور
ساتھیوں کی بات پر خوش ہوتے ،بسا اوقات اس حد تک مسکراتے کہ حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کے دندان مبارک نظرآنے لگتے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو دیکھ کر
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھی بھی مسکراتے ۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی مجلس
میں کوئی شخص زور سے نہیں ہنستاتھا۔ کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی آوازکے
ساتھ نہیں ہنستے تھے ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خوش مزاجی کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے
ملتے،اگر کوئی مجلس سے اٹھ کر چلا جاتا تو اسے بلاتے اور کبھی کسی سے فرماتے ’’اے
میرے بھائی کاش تجھے مجھ سے یا میرے دوسرے ساتھیوں اور بھائیوں سے کچھ فائدہ
پہنچے۔‘‘
تین روز کوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں نہیں آتا تو
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام دوسرے لوگوں سے پوچھتے کہ فلاں صاحب کیوں نہیںآئے؟جو
مجلس میں کسی عذر کی بنا پر شریک نہیں ہوتا اس کے لئے دعا فرماتے جو ملنے آتا اس
سے ملاقات فرماتے ،کوئی بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کیلئے تشریف لے جاتے۔ ساتھیوں
کے ساتھ اتنی توجہ اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے کہ ان میں سے ہر ایک یہ سمجھتا کہ
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مجھے سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
راستہ میں اگر کبھی کوئی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کو ملتا ،وہ بات
کرنے کے لئے کھڑا ہوجاتا ، تو جب تک وہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے رخصت ہوکر آگے
نہیں بڑھتا،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اسے چھوڑ کرنہیں جاتے تھے، کوئی شخص مصافحہ
کرتا تو جب تک وہ اپناہاتھ خود نہیں کھینچ لیتا ،حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنا
ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں چھڑاتے ۔کوئی سرگوشی کے انداز میں بات کرتا تو کان اسکے
منہ کے قریب لے جاتے اور جب تک وہ بات ختم نہیں کرتا ،متوجہ رہتے تھے۔جس سے مصافحہ
کرتے ،اس کے لئے دعا فرماتے ،اپنے ساتھیوں میں سے کسی کے حق میں، یا کسی دوسرے شخص
کے بارے میں کبھی بد دعا نہیں فرمائی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اکثر اپنے ساتھیوں کی کنیت رکھ دیتے ،اچھے
ناموں کے ساتھ ان کی کنیت تجویز فرماتے اور کنیت کے ساتھ ہی انہیں پکارتے ۔ اس سے
ان کی دلجوئی بھی مقصود ہوتی اوراعزاز و کرام بھی۔جب راستے میں بچے ملتے تو ان کو
سلام کرتے اورشفقت کے ساتھ ان سے بات چیت کرتے ، جب سفر سے تشریف لاتے تو سب سے
پہلے گھر کے بچوں سے ملتے ،بچوں اور گھر والوں سے حد سے زیادہ شفقت و محبت فرماتے
۔جب کوئی شخص ،کسی بچے کو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں لاتاتوحضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کوئی کھانے کی چیز اپنے منہ میں چبا کر ،اس کے منہ میں ڈالتے اس کے
لئے خیرو برکت کی دعا فرماتے ..............انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے تو
ان کے بچوں کو سلام کرتے اور پیارسے ان کے سروں پر ہاتھ رکھتے۔
ایک روزحضور علیہ الصلوٰۃوالسلام امامت فرما رہے تھے ،اُس وقت حضرت
امام حسینؓ بچے تھے،مسجد میں آگئے،جس وقت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سجدہ میں
گئے،حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پشت پر بیٹھ گئے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے
سجدہ لمبا کر دیا یہاں تک کہ حسینؓ اتر گئے،جب نماز سے فارغ ہوئے صحابہؓ نے عرض
کیا یارسول اللہ !آپ نے سجدہ بڑا طویل کر دیا تھا؟.....حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا’’ میرا بیٹا،میری پیٹھ پر چڑھ
گیا تھا،میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ جلدی کروں ۔‘‘جو لوگ اہل علم و فضل اور اچھے اخلاق والے ہوتے ،حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام انکی عزت وتوقیر کرتے ،جو اہل مجدد شرف ہوتے ان پر احسا ن فرماتے۔
عزیز و اقارب کی عزت کرتے اور انکے ساتھ صلۂ
رحمی کرتے۔ اقارب میں یہ نہیں دیکھتے کہ کو ن افضل ہے اور کون نہیں
جس کو زیادہ مستحق سمجھتے اسکی زیادہ مدد کرتے ۔
جس سے بھی ملتے سلام میں پہل کرتے ،کوئی حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے
پاس آکر بیٹھ جاتا تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نماز مختصر کردیتے ، نماز مکمل
کرکے پوچھتے تمہیں کوئی کام ہے ؟جو بھی ملنے آتا اس کا حد درجہ احترام کرتے ۔مہمان
کے لئے اپنا کپڑا بچھا دیتے ،تکیہ لاکر رکھتے ۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کے مزاح کی کیفیت یہ تھی کہ اپنی ازواج کے
ساتھ ،بچوں کے ساتھ اور دوسر ے لوگوں کے ساتھ مزاح کے طور پر کوئی بات کرتے تو اس
میں بھی کبھی فرضی بات کی آمیزش بالکل نہیں فرماتے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام بڑے
شائستہ انداز میں مزاح فرماتے ،انس بن مالکؓ فرماتے ہیں ’’حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام بطور مزاح مجھے دو کانوں والا کہا کرتے تھے۔
‘‘حضرت انسؓ فرماتے ہیں ایک شخص نے حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی مجھے سواری کا کوئی جانور عنایت فرمادیجئے !حضور
علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ہم تمہیں ایک اونٹنی کا بچہ دیں گے ...........سائل
کہنے لگا یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام! میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا
!(مجھے تو سواری کے لئے چاہیئے )حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا’’بندۂ خدا ہر
اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔‘‘
ایک بار ایک بوڑھی عورت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں حاضر
ہوئی اور کہنے لگی ’’یا رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے لئے دعا فرمادیجئے کہ
میں جنت میں جاؤں‘‘حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا ’’بوڑھی عورتیں جنت میں
نہیں جائیں گی ‘‘...........وہ بوڑھی عورت غم زدہ ہوکرواپس جانے لگی ،حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام نے حاضرین سے فرمایا ’’ اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت
میں داخل نہیں ہوگی۔بلکہ اللہ تعالیٰ جنت میں داخل ہونے والی سب عورتوں کو نوجوان
بنادیں گے۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب صبح کی نماز ادا کر کے فارغ ہوتے تو
لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے اگر تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے تو
بیان کرے! ............اگر کوئی غلام ،جو کی روٹی کھانے کیلئے بھی حضور علیہ
الصلوٰۃوالسلام کو مدعو کرتا ،تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اس کی دعوت قبول فرماتے
۔ غریب اور بے سہارا لوگ بیمار پڑتے تو حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ان کی عیادت
کیلئے تشریف لے جاتے اور بہ نفس نفیس ان کا کا م کا ج کرتے ۔امیر اور غریب جو بھی
بلاتا ، اس کے گھر تشریف لے جاتے ۔کسی کو حقیر نہیں سمجھتے ،جنازہ میں شریک ہوتے
،کمزور ، بیمار اورفاقہ مست لوگوں کے پاس خود جاتے اور ان کی ضرورتیں پور ی فرماتے
۔ ان کے بیماروں کی تیمارداری کرتے اور جنازوں میں شریک ہوتے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان