Topics
سوال: اولیاء اللہ کو نظام خانقاہی قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جواب: روحانی نقطہ نظر سے دنیا میں آنے والے کسی بچہ کا شعور نصف اس کے والدین کا ہوتا ہے اور نصف ماحول کے زیر اثر پرورش پاتا ہے۔ اس پرورش میں اختیاری اور غیر اختیاری دونوں طریقے زیر بحث آتے ہیں۔ یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ بچہ وہی زبان بولتا ہے جو اس کے والدین بولتے ہیں۔ والدین کو مادری زبان سکھانے کے لئے کسی درس و تدریس کا انتظام نہیں کرنا پڑتا۔ دوسرے یہ کہ بچہ ماں باپ کے اوصاف اپنے اندر فوراً جذب کر لیتا ہے۔ یہ سب غیر اختیاری امور ہیں جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اسے درس گاہوں کے ذریعہ علوم کی منتقلی ہوتی ہے۔ یہاں استاد اپنی ذہنی قوت صرف کر کے بچہ کے اندر علوم منتقل کرتا ہے۔ ان تمام باتوں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تربیت اور طرز فکر کی منتقلی کے لئے قربت بہت ضروری ہے۔ چاہے والدین کی قربت ہو۔ دوستوں کی قربت ہو یا اساتذہ کی۔ اس طرح جب کوئی شخص روحانیت میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے روحانی استاد کی قربت بہت ضروری ہے تا کہ اس کے اوصاف اور طرز فکر اسے منتقل ہو۔ جب کوئی شاگرد روحانی استاد کے پاس بیٹھے گا اس کی باتیں سنے گا اور اس کے بتائے ہوئے اعمال کو عمل میں لائے گاتو قانون کے مطابق اس کے شعور میں روحانی طرز فکر کا بیج پھوٹ پڑے گا۔ اس قربت کے لئے ایک ماحول کی تشکیل بہت ضروری ہے ایسا ماحول جس میں رہ کر روحانی استاد شاگردوں پر توجہ دے سکے اور اس ماحول میں یکسوئی اور پاکیزگی پھیلی ہوئی ہو۔
اس خیال کے تحت اولیاء کرام نے خانقاہیں قائم کیں تا کہ روحانیت کے متلاشی وہاں آ کر سکون کے ساتھ فیضیاب ہو سکیں۔ ان خانقاہوں کو موجودہ زبان میں روحانیت کے اسکول سمجھا جا سکتا ہے۔ جہاں جا کر طالب علم روحانیت سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔