Topics
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام مدینہ میں جمعہ کے روز کھجور کے خشک درخت
سے ٹیک لگا کر خطاب فرماتے تھے۔ ایک انصاری صحابیہؓ نے بہترین لکڑی سے منبر تیار
کراکے مسجد نبوی میں بھیجا اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی خدمت میں درخواست پیش
کی کہ خطبہ کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام اس منبر پر رونق افروز ہوں۔ جمعہ کے
روز جب حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام منبر پر تشریف فرماہوئے تو کھجور کا تنا رونے
لگا۔ اس کا رونا ایسا دردناک تھا جیسے اونٹنی اپنے بچے سے بچھڑ کر بلکتی ہے، کوئی
بچہ اپنی ماں سے جدا ہوکر روتا ہے۔ اس کی فریاد اتنی غم ناک تھی کہ لگتا تھا کہ شدت غم سے ٹکڑے ٹکڑے
ہوجائے گا۔ مسجد نبوی میں موجود تمام صحابہؓ نے اس آواز کو سنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام منبر سے اتر آئے، درخت پر اپنا دست شفقت رکھا اور پھر اسے اپنے سینے سے
لگایا۔ کھجور کا تنا چپ ہوگیا۔ مگر روتے ہوئے بچے کی طرح ہچکی لگی ہوئی تھی۔ حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس سے فرمایا:
اگر تو پسند کرے تو میں تیرے لئے دعا کروں اور اللہ تعالیٰ تجھے جنت
الفردوس میں اس مقام پر جگہ دیں جہاں میں ہوں۔ تو وہاں ابد الآباد تک رہے۔ انبیاء
اور اولیاء تیرے پھل کھائیں۔
آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارشاد کے جواب میں کھجور کے تنے نے کہا۔
’’ایسا ضرور فرمائیے‘‘۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کھجور کے اس تنے کو مسجدمیں دفن
کرادیا۔
***
نباتات زندہ ہونے کے ساتھ ساتھ باشعور بھی ہیں۔ وہ مکمل حواس رکھتی ہیں۔
وہ ہماری محبت اور نفرت کو پہچانتی ہیں اور اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ انتقال خیال کے
علوم سے پودے پوری طرح واقف ہیں۔ پودے دیکھتے ہیں، بولتے ہیں، سوچتے ہیں، یادرکھتے
ہیں اور ہمارے مخفی خیالات پڑھ لیتے ہیں۔سائنسی تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ پودے
شعور رکھتے ہیں اور اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ درخت اور پودے کریم طینت
لوگوں کی قربت سے خوش ہوتے ہیں۔ پیچیدہ اور منفی خیالات رکھنے والے افراد کی قربت
انہیں ناگوار گزرتی ہے۔ کرلین فوٹو گرافی کے تجربات سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ محبت کا ہاتھ
پھیرنے سے پودے خوش ہوتے ہیں اور انکے اردگرد موجود روشن ہالہ کی طاقت بڑھ جاتی
ہے۔ پودوں کیلئے دل میں پیار و محبت کے جذبات رکھنے والا فرد جب پودا لگاتا ہے،
اسکی آبیاری اور دیکھ بھال کرتا ہے توپودوں کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی رفتار
بڑھ جاتی ہے۔
کیلی فورنیا میں ایک نرسری کے مالک نے برسوں کی محنت سے تھور (Cactus)
کی ایک قسم پیدا کی۔ جس پر کانٹے نہیں
ہوتے۔ نرسری کے مالک نے پودوں سے مخاطب ہوکر انہیں تسلی دی کہ وہ پودے کی حفاظت
کرے گا۔ اس کی ہر طرح کی ضروریات کا خیال رکھے گا۔ پودے کو اب کانٹے اگانے کی
ضرورت نہیں۔ طویل عرصے تک وہ پودے کو یقین دلاتا رہا۔ وہ پودے سے محبت بھرے انداز
میں بات کرتا تھا۔ اس کی آبیاری اور صفائی وغیرہ کا خیال رکھتا تھا۔ جب پودے کو
یقین و اطمینان ہوگیا تو بغیر کانٹوں والی نئی قسم پیدا ہوگئی۔
کینیڈا کے سائنسدانوں نے اوٹاوا یونیورسٹی
میں تجربات کئے کہ اگر گندم کے بیجوں کو 5000 Hertz کی آواز
سنائی جائے تو وہ بہت جلد اگتے ہیں۔ پودوں پر موسیقی کے اثرات پر تجربات کئے گئے
تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اونچی آواز والی موسیقی سے پودے کو نقصان ہوتا ہے اور
پودے ناخوش ہوتے ہیں جبکہ نرم ولطیف موسیقی پودوں میں سرشاری اور مستی کی کیفیت
پیدا کرتی ہے۔
پریزیڈینسی کالج کلکتہ میں فزکس کے پروفیسر ریڈیو ریسرچ کے ماہر تھے۔
دھات (مادے کی سخت ترین قسم) اور گوشت پٹھوں (مادے کی نرم قسم) کے تناؤ پر تحقیق
کے دوران انہیں پودوں کے Tissue پر تحقیق کرنے کا خیال آیا۔تحقیق سے انہوں نے ثابت کیا کہ پودے کے
ٹشوز پر بھی تناؤ کھنچاؤ کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پودے کلوروفام کی بدبو سے بے ہوش
ہوجاتے ہیں اور تازہ ہوا انہیں ہوش میں لے آتی ہے۔ پودے چھیڑ چھاڑ سے تھکن محسوس
کرتے ہیں۔قازقستان یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے جب دھاتوں کی تلاش کے لئے پودوں سے
تعاون چاہا تو انہیں ہدایت کی کہ مٹی میں کوئی دھات موجود ہیں تو وہ بجلی کی طرح
جھٹکا دیں۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔پودوں پر ریسرچ کرنے والے ماہر ین نے تجربات سے
ثابت کیا کہ انسان اور نباتات کے اطلاعاتی نظاموں کے درمیان تعلق ہے۔ اطلاعاتی
نظام بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ
آسمانوں اور زمین میں ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے اور اڑتے ہوئے پرندے
اور ہر ایک کواپنی اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان سب کے
اعمال کا پورا پورا علم ہے۔‘‘(سورۃالنور ۔آیت41)
’’ساتوں آسمانوں اور زمین
میں جتنی موجودات ہیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو
حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کرنے کو سمجھتے
نہیں۔ (اس لئے کہ تم اس کے بار ے میں تدبر نہیں کرتے) تحقیق وہ ہے تحمل والا بخشنے
والا۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل ۔آیت44)
’’جو کچھ آسمانوں اور زمین
میں ہے سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔ اس کی حکمت ہر چیز پر غالب ہے۔ آسمان
اور زمین اس کی ملکیت ہیں۔ حیات و ممات اور ہر چیز پر قادر ہے، وہی ابتدا ہے، وہی
انتہا ہے، وہی ظاہر ہے، وہی باطن ہے۔ وہ ہر چیز کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔‘‘(سورۃ
الحدید۔آیت1تا3)
قرآن کریم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ آسمانوں اور
زمین میں موجود ہر شئے باشعور ہے اور انہیں اپنی نماز اور تسبیح بیان کرنے کا
طریقہ معلوم ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام رحمت اللعالمین ہونے کی حیثیت سے
آسمانوں اور زمین کی ہر مخلوق سے واقف ہیں۔ ہر مخلوق یہ مانتی ہے حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام ہمارے لئے رحمت ہیں۔ درخت نے جب یہ دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام منبر پر تشریف لے گئے ہیں تو اسے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے جدائی شاق
گزری اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ رحمت اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کا دریائے رحمت جوش میں آگیا اور حضور علیہ الصلوٰۃوالسلا م نے لکڑی کے
تنے پر دست شفقت پھیرا اور فرمایا۔
’’اگر تو چاہے تو میں تیرے لئے دعا کروں اور
اللہ تعالیٰ تجھے جنت الفردوس میں اس مقام پر جگہ دیں، جہاں میں ہوں۔ تو وہاں ابد
الآباد تک رہے۔ انبیاء اور اولیاء تیرے پھل کھائیں‘‘۔
باشعور درخت کا تنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اس عنایت پر چپ
ہوگیا۔ اس معجزہ سے منکشف ہوتا ہے کہ ہر درخت بولتا ہے، سنتا ہے، اس کے اندر قربت
اور دوری کا احساس ہے۔ انسانوں کی طرح درخت خوش ہوتا ہے اور روتا ہے اور دعا کی
درخواست بھی کرتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔
نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان