Topics

حضرت آدم علیہ السلام

آدم کی تخلیق سے پہلے کائنات میں موجود لاکھوں مخلوقات میں ممتاز ایک مخلوق ’’جن‘‘ موجود تھی۔ اس مخلوق نے جب زمین پر فساد برپا کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ایک نئی مخلوق بنائی۔ اس مخلوق کا پہلا فرد آدم ہے۔


’’اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ (فرشتوں) نے عرض کیا۔ اے ہمارے رب! یہ شخص زمین پر فساد برپا کریگا اور زمین پر ہر طرف خون پھیلائے گا۔ اے پروردگار! ہم تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاک ذات کو یاد کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ آیت30)

آدم کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے۔

’’اور ہم نے بنایا آدمی، کھنکھناتے سنے گارے سے۔‘‘(سورۃ الحجر۔ آیت26)

’’بنایا آدمی کھنکھناتے مٹی سے جیسے ٹھیکرا۔‘‘(سورہ الرحمن۔ آیت14)

’’تخلیق کیا مٹی سے۔‘‘(سورۃ المومنون۔ آیت 12)

’’تخلیق ہوئی چپکتے گارے سے۔‘‘(سورۃ الحجر۔ آیت 28)

’’اور خداوند خدانے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو انسان جیتی جان ہوا۔‘‘ (انجیل ۔کتاب پیدائش ۔باب : ۲۔۷)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو کائناتی رموز سکھا کر فرشتوں سے پوچھا ۔۔۔ اگر تم اس علم سے واقف ہو تو بیان کرو۔ فرشتوں نے کہا کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔

حضرت آدمؑ نے علوم بیان کئے تو فرشتوں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو جو علوم سکھادئیے ہیں وہ ہمیں معلوم نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

آدم کو سجدہ کرو۔ یعنی آدم کی حاکمیت تسلیم کرو لیکن ابلیس نے سجدہ نہیں کیا اور اس نے تکبر کیا۔

فرشتے فطرتاً مطیع و فرماں بردار ہیں۔ جبکہ جنات بااختیار مخلوق ہے۔ انسان کی تخلیق سے پہلے یہی بااختیار مخلوق زمین پر آباد تھی۔ ان میں سے ایک فرد عزازیل کو علمی برتری حاصل تھی اور برتری کے احساس نے اسے تکبر میں مبتلا کردیا تھا۔ ’’ابلیس‘‘ بلس اور ابلاس سے مشتق ہے جس کے معنی ’’رنج و غم، دل شکستہ ہوجانا، مایوسی اور نامراد ہوجانے کی وجہ سے برافرد ختہ (Desperate) ہوجانا ہے‘‘۔ 
ابلیس سے جب حکم عدولی کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا!

’’آپ نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے۔‘‘

(سورۃ الاعراف ۔ آیت 12)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے فرمایا ۔۔۔

’’اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت کی لامحدود کھلی فضا میں رہو اور جہاں سے دل چاہے خوش ہوکر کھاؤ پیو۔ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ آیت 35)

شیطان نے اس پابندی کو مقصد براری کے لئے استعمال کیا۔ اس نے انہیں باور کرایا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اگر تم اس درخت کے قریب نہیں گئے تو جنت میں نہیں رہ سکوگے اور حضرت آدمؑ سے بھول ہوگئی۔

انجیل برناباس کے مطابق حضرت آدم ؑ کی پیدائش جب عمل میں آئی تو سب سے پہلے نظر جس تحریر پر پڑی اس کی عبارت یہ تھی۔ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘

پس جب آدم اپنے پیروں پر کھڑا ہوا تو اس نے آسمانوں میں ایک تحریر چمکتی دیکھی جس کی عبارت تھی ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘۔ تب آدم نے اپنا منہ کھولا اور کہا! ’’میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اے میرے پروردگار کیونکہ تو نے مہربانی کی۔ پس مجھے پیدا کیا لیکن میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو مجھے خبر دے کہ ان کلمات کے کیا معنی ہیں‘‘۔ تب اللہ نے فرمایا مرحبا ہے تجھ کو اے میرے بندے آدم اور میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو پہلا انسان ہے جس کو میں نے پیدا کیا اور یہ شخص جس کو تو نے دیکھا ہے تیرا ہی بیٹا ہے کہ جو اس وقت کے بہت سے سالوں کے بعد دنیا میں آئے گا اور میرا رسول ہوگا کہ اس کے لئے میں نے سب چیزوں کو پیدا کیا۔ وہ رسول محمد ﷺ جب دنیا میں آئے گا دنیا کو ایک روشنی بخشے گا۔ یہ وہ نبی ہے کہ اس کی روح آسمانی روشنی میں ساٹھ (۶۰) ہزار سال قبل اس لئے رکھی گئی ہے کہ میں کسی چیز کو پیدا کروں۔ 
(برناباس باب: ۳۹۔ آیات: ۱۴۔۱۸)

قرآن کریم نے انسان سے متعلق مثبت اور منفی ہر دو پہلو کو واضح کرکے انسان کی عظمت کا اعلان کیا ہے اور بتایا ہے کہ انسان کی تخلیق ’’احسن تقویم‘‘ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پوری کائنات میں تکریم و تعظیم کا مستحق ہے اور احسن تقویم ہونے کی وجہ سے امانت الٰہی کا علم بردار ہے۔ امانت الٰہی حاصل ہونے کے بعد ’’خلیفۃ اللہ‘‘کے منصب پر فائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور ، بصیرت و دانائی اور فہم و فراست دے کر کائنات میں ممتاز بنادیا ہے اور یہی وہ امتیاز ہے جس کی بنا پر وہ برائیوں سے اجتناب اور بھلائی کرنے کے اختیار کا مکلف ہے۔
’’
انسان کو پیدا کیا اور پھر راہ دکھائی۔اور پھر ہم نے انسان کو دونوں راستے دکھا دیئے۔‘‘ (سورۃ البلد۔آیت10)

حضرت آدم ؑ کا نام

قرآن پاک میں حضرت آدم ؑ کا نام تقریباً پچیس آیات میں ۲۵ مرتبہ لیا گیا ہے۔ سورتوں اور آیات میں اگرچہ اسلوب بیان مختلف نظر آتا ہے لیکن مقصد اور واقعہ کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ایک ہی حقیقت ہے جو بیان کی گئی ہے۔ ان سب کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ اللہ کی ذات پر ایمان لائیں اور یہ جان لیں کہ اللہ ایک ناقابل انکار ہستی ہے اور ساری کائنات اسی کے احاطہ قدرت میں متحرک ہے۔ 
یہی وہ ایقان ہے جو دین حنیف ہے اور اسی مذہب کے احکام کی پیروی میں فلاح و نجات اور ہر قسم کی ترقی چھپی ہوئی ہے۔ یہی وہ مذہب ہے جس کا نام دین فطرت یا اسلام ہے۔

قرآن پاک میں جن آیات مقدسہ میں حضرت آدم ؑ کا ذکر ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

’’اور جب ایسا ہواتھا کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا۔ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا! کیا ایسے شخص کو خلیفہ بنایا جارہا ہے جو زمین میں خرابی پھیلائے گا اور خونریزی کرے گا حالانکہ ہم تیری حمد و ثناء کرتے ہوئے تیری پاکی و قدسی کا اقرار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا! میری نظر جس حقیقت پر ہے تمہیں اس کی خبر نہیں۔اور آدم نے تعلیم الٰہی سے تمام چیزوں کے نام معلوم کرلئے اور بیان کردیئے فرمایا! اگر تم جانتے ہو تو بتا ؤ انکے نام کیا ہیں؟ فرشتوں نے عرض کیا، یا اللہ! ساری پاکی اور بڑائی آپ ہی لئے ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں اللہ تعالیٰ سکھادیاہے۔ علم آپ کا علم ہے اور حکمت آپ کی حکمت ہے۔ جب فرشتوں نے اس طرح اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو حکم الٰہی ہوا ’’اے آد م تو فرشتوں کو ان کے نام بتادے۔‘‘ جب آدم نے بتا دیا تو اللہ نے فرمایا! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان اور زمین کے تمام غیب مجھ پر روشن ہیں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی میرے علم میں ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو وہ بھی مجھ سے چھپا ہوا نہیں۔اور پھر (دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کے سامنے سر بسجود ہوجاؤ، وہ جھک گئے مگر ابلیس کی گردن نہیں جھکی۔ اس نے نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ کافروں میں سے تھا۔ پھر (ایسا ہوا کہ) ہم نے آدم سے کہا اے آدم! تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو، جہاں سے چاہو خوش ہوکر کھاؤ پیو، امن اور چین کی زندگی بسر کرو مگر دیکھو وہ جو ایک درخت ہے۔ تو اس کے پاس نہ جانا۔ اگر تم اس کے قریب گئے تو حد سے تجاوز کر بیٹھو گے اور ان لوگوں میں سے ہوجاؤگے جو زیادتی کرنے والے ہیں۔لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اُتر جاؤ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لئے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اُٹھانا ہے۔ حضرت آدمؑ نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنیوالوں پر کوئی خوف و غم نہیں ۔‘‘(سورۃ البقرہ۔30تا38)

’’اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنادو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کرلی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔ اس نے کہا! میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا! اللہ تو متقی لوگوں کی نذر قبول کرتا ہے۔‘‘(سورۃ المائدہ۔آیت27)

’’اور بلاشبہ یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو خمیر اٹھے ہوئے گارے سے بنایا، جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے اور ہم ’’جن‘‘ کو اس سے پہلے جلتی ہوئی ہوا کی گرمی سے پیدا کرچکے تھے۔ اور جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا، ’’میں خمیر اٹھے ہوئے گارے سے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے، ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ تو جب ایسا ہوا کہ میں اسے درست کردوں اور اس میں روح پھونک دوں تو چاہیئے کہ تم سب اس کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔ چنانچہ جتنے فرشتے تھے سب اس کے آگے سربسجود ہوگئے۔ ابلیس نے انکار کیا کہ میں سجدہ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘(سورۃ حجر۔آیت26تا31)

’’اور وہ وقت یاد کرو جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا! میں مٹی سے بشر کو پیدا کرنے والا ہوں بس جب میں اس کو بناسنوارلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب فرشتے اس کے لئے سربسجود ہوجاؤ۔ پس سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں مانا اور گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے تھا۔ کس بات نے تجھے جھکنے سے روکاجبکہ میں نے حکم دیا تھا؟ کہا اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اسے مٹی سے۔ فرمایا! ’’جنت‘‘ سے نکل جا۔ تیری یہ ہستی نہیں کہ یہاں رہ کر سرکشی کرے۔ یہاں سے نکل دور ہو۔ یقیناًتو ان میں سے ہوا جو ذلیل و خوار ہیں۔ ابلیس نے کہا! مجھے اس وقت تک کے لئے مہلت دیں جب لوگ (مرنے کے بعد اٹھائے جائیں گے)۔ ’’تجھے مہلت ہے‘‘ اس پر ابلیس نے کہا چونکہ تو نے مجھ پر راہ بند کردی تو اب میں بھی ایسا ضرور کروں گا تیری سیدھی راہ سے بھٹکانے کیلئے بنی آدم کی تاک میں بیٹھوں، پھر سامنے سے پیچھے سے، داہنے سے، بائیں سے (غرض یہ کہ ہر طرف سے) ان پر آؤں اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔ اللہ نے فرمایا! یہاں سے نکل جا۔ ذلیل اور ٹھکرایا ہوا۔ بنی آدم میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو تیرا ساتھی ہوگا اور میں البتہ ایسا کروں گا کہ (پاداش عمل) میں تم سب سے جہنم بھر دوں گا۔‘‘(سورۃ اعراف۔ آیت11تا18)

خلا اور فطرت 

جیسے ہی اللہ نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں خالق کے ارادے میں جو کچھ تھا قاعدوں، ضابطوں، فارمولوں اور شکل و صورت کے ساتھ عالم وجود میں آگیا۔ عالم وجود کا نام کائنات ہے۔ کائنات ایک ایسے خاندن کا نام ہے جس میں بے شمار نوعیں ایک کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں۔نوعوں میں فرشتے، جنات، انسان، جمادات، نباتات، حیوانات، زمین، سماوات اور بے شمار کہکشانی نظام ہیں۔ خالق کائنات نے ان نوعوں کو سننے، دیکھنے، سمجھنے، خود کو پہچاننے اور دوسروں کو جاننے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ ان صلاحیتوں سے سب نوعوں نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ جس عظیم اور بابرکت ہستی نے انہیں تخلیق کیا ہے وہ ذات قادر مطلق ہے۔

عظمت و ربوبیت اور خالقیت کے اظہار کے لئے ضروری تھا کہ کوئی مخلوق ایسی ہو جو تکوین کے رموز سے واقف ہو۔ واقفیت کے لئے لازم تھا کہ مخلوق ان صفات کی حامل ہو جو کائنات کی تخلیق میں کام کررہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صفات پر تخلیق کیا اور اسے خلافت و نیابت سے سرفراز کیا۔قرآن کریم میں جہاں انسان کی تخلیق کا تذکرہ ہوا ہے وہاں یہ بات بالوضاحت بیان کی گئی ہے کہ انسان کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بجنی اور کھنکھناتی فرمایا ہے۔ یعنی خلا مٹی کے ہر ذرے کی فطرت ہے۔

حضرت حوا ؑ کی تخلیق

’’وہی ہے جس نے تم کو بنایا ایک جان سے اور اسی سے بنایا اس کا جوڑا کہ اسے آرام ملے۔ ‘‘(سورۃ اعراف۔آیت189)
’’
اور خداوند نے آدم پر گہری نیند بھیجی اور وہ سو گیا۔ اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک کو نکال لیا اور اس کی جگہ گوشت بھردیا۔ اور خداوند اس پسلی سے جو اس نے آدم میں سے نکالی تھی ایک عورت بنا کر آدم کے پاس لایا۔‘‘(انجیل۔کتاب پیدائش، باب۲:۲۱۔۲۲)

Topics


Baran E Rehmat

خواجہ شمس الدین عظیمی

جملہ حقوق نوع انسانی کے لئے محفوظ ہیں
اس کتاب کا کوئی بھی حصہ یا پوری کتاب 
ہر علم دوست انسان چھاپ سکتا ہے۔


نام کتاب : باران رحمت صلی اللہ علیہ وسلم 
سن اشاعت: 27جنوری 2012
پبلشر: سیرت چیئر
شعبہ علوم اسلامیہ
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان